حج: مظہرِ عشقِ الٰہی

عائشہ صدیقی

موسمِ حج کی آمد آمد ہے۔ پوری دنیاسے کروڑوں لوگ حرمین شریفین کی زیارت کے لئے دیوانہ وار عاشقانہ سفر کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی سعادت کی بات کہ یہ اب اللہ کے در کے مہمان بننے جارہے ہیں۔ فقیہ العصر حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حج عشق الہی کا مظہر ہے۔ اور بیت اللہ شریف مرکز تجلیات الہی ہے، اس لئے بیت اللہ شریف کی زیارت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالی میں حاضری ہر مومن کی جان تمنا ہے اگر کسی کے دل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی جڑیں کمزور ہیں۔

 مسلم کمیونٹی بیت اللہ کی محبت اور زیارت کی تڑپ سے اپنے دلوں کو منور رکھتی ہے ایسے ہی ایک عاشق ولی اللہ کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت شفیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک اپاہج شخص ملا جو گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔ میں نے پوچھا،  کہاں سے آئے ہو؟

کہنے لگا سمرقند سے۔ میں نے کہا کتنے عرصہ سے سفر کر رہے ہو؟ کہا: مجھے وہاں سے چلے دس برس ہوگئے ہیں اور میرا شوق و محبت مجھے اٹھائے لئے جا رہا ہے۔

 حج ارکان اسلام میں چوتھے نمبر پر ہے۔ حج ایک عظیم الشان رکن ہے۔ جس طرح دین اسلام کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا اسی طرح حج ہی سے ارکان اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔

حج کس پر فرض ہے:ہر مسلمان صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

 ترجمہ”اللہ کی رضا کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوںپر جو شخص (اللہ تعالی کا حکم )نا مانے تو (اللہ تعالی کا اس میں کیا نقصان ہے)اللہ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے”(آل عمران)

حج کی بڑی فضیلت آئی ہے  جناب رسول اللہ کا ارشاد عالی ہے "جو حج گناہوں اور خرابیوں سے پاک ہو اس کے لئے بہشت کے اور کچھ نہیں۔

 آنحضرت نے فرمایا کہ "جس نے محض اللہ کی رضا کے لئے حج کیا پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی وہ ایسا پاک صاف ہوکر آتا ہے جیسے ولادت کے دن تھا۔ "

 ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ "رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ ارشاد فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول اللہﷺ پر ایمان لانا عرض کیا گیا کہ اس کے بعد۔ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، عرض کیا اس کے بعد فرمایا حج مبرور۔ "

کس پر حج فرض ہے؟

 وہ شخص جو عاقل بالغ ہو، تمام جسمانی اعضاء سلامت ہوں، امن وامان ہو، اپنی ضرورت  سے زائد خرچ ہو کہ اسے کسی قسم کی تنگی نہ ہو، قیام وطعام کا بندوبست ہو۔ اپنے پیچھے اھل وعیال کے لئے اتنا سامان چھوڑ جائے کہ واپس آنے تک انہیں کسی بھی قسم کہ مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔ اور ایسا شخص جو صاحب استطاعت ہو اور پھر بھی حج نہ کرے اور نہ ہی وصیت کرکے جائے اس بدنصیب شخص کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے ” جس شخص کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو۔ جو بیت اللہ تک اس کو پہنچائے،  اور پھر وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، یہ اس لئے کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ: ‘اللہ تعالی کے لئے حج بیت اللہ فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ( جامع الترمذی )

 ہر انسان نے اپنے اعمال جو اخلاص اور تقوی کے جذبے کے تحت سر انجام دیے ہوں اسکا بہتر اجر عظیم پاتا ہے۔ چونکہ حج ایک عاشقانہ عبادت ہے اور ہر مسلمان کا دل بیت اللہ کی زیارت کے لئے تڑپتا ہے۔ بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حج کو پالیں اور اسکے مناسک اچھے طریقے سے ادا کریں۔ عاجزی و انکساری کی مثال قائم کریں۔ ان ایام میں حرام وحلال کا خاص خیال رکھیں۔ بالآخر ان کا حج اللہ کے ہاں قبول ہوجائے گا۔

 حج مقبول کی تین علامات ہیں:

 حدیث شریف میں ہے کہ جمرات پر شیطان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں جن کا حج قبول ہوتا ہے ان کی یہ کنکریاں اٹھا لی جاتیں ہیں۔

اعمال صالحہ میں بہتری آنا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان جتنا جتنا نیکیوں اور نیک اعمال کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اتنا اتنا وہ بد اعمال اور برائیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

 حج سے واپس آنے کے بعد بھی اس کا دل حرمین شریفین کی زیارت کے لئے مچلتا ہے۔ وہ مبارک ایام جو بیت اللہ کے صحن میں گزرے وہ شب وروز جو مسجد نبوی کے سایہ میں گزرے جب یہ مبارک سعادت کی گھڑیاں بار بار نگاہوں میں آتی ہیں تو دل کو بے چین و بے قرار کردیتی ہیں۔ لب پر خود بار بار حاضری کی دعائیں جاری ہوجاتی ہیں۔

حجاج کرام اپنا محاسبہ کریں

  اے حجاج کرام !آپ کو چند دنوں میں بیت اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہونے چلا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا حج خداوند کریم کے ہاں مقبول و منظور ہو۔ ۔ ۔ ؟

تو آئیے ایک نظر اپنے آپ پر ڈالتے جائیں۔ ۔ ۔ ۔ اپنا محاسبہ کرتے جائیں۔ ۔ ۔

جس مال سے آپ حج کرنے چلے ہیں کیا وہ صاف ستھراحلال و پاکیزہ ہی ہے اس میں کسی کا حق شامل تو نہیں۔ اس مقدس سفر کی نیت خالص زیارت بیت اللہ اور در رسول اللہﷺ ہی ہے۔ تجارت، سیر و سیاحت یا اور کسی قسم کی نیت تو نہیںاس مبارک سفر میں ریاکاری یا دکھلاوا مقصود تو نہیں۔ کسی قسم کی رنجش یا کسی سے کسی بھی قسم کی ناراضگی تو نہیں۔

جانے سے پہلے کی اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری ہیں۔ گھر والوں کی کفالت و حفاظت کا مکمل بندوبست کرلیا؟لین دین کے معاملات سے اپنے آپ کو بری کردیا کسی کا آپ پر قرض تو نہیں؟اگر تو ان میں سے کوئی ایک کام بھی باقی ہے تو اسے جلد پورا کرلیجیے۔

عازمین حج سے چند گزارشات

 کوشش کیجیے کہ یہ ایک عاشقانہ سفر ہے۔ اس میں عاجزی و انکساری اور خالص اللہ رب العزت کی بندگی مقصود ہو۔ دوران سفر ساتھیوں کے ساتھ بات چیت میں نرم مزاجی اور اعلی ظرفی، کھلانے پلانے میں وسعت ظرفی کی مثال قائم کیجیے۔ بدگوئی بری اور فحش باتوں سے اجتناب کیجیے۔ تلبیہ، مسنوں دعائوں، ذکر اللہ اور درود شریف کی کثرت کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ بیت اللہ میں داخل ہوتے وقت ادب ولحاظ اورتعظیم کا خصوصی خیال رکھیں۔ نبی کریم ﷺکے شہر مبارک کی عظمت و رفعت مقام و مرتبہ کو جانیے۔ یہ سرور دوعالم ﷺکی سرزمین ہے۔ یہاں بھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔

اگر چہرہ سنت رسول سے سجا نہیں تو آج ہی سے عہد کیجیے کہ اپنے چہرہ کو سنت نبوی سے سجائیں گے اور اپنے ضمیر کو اس بات پر بار بار ملامت کیجیے کہ کل کو روضہ رسول اللہﷺ پر حاضری کے وقت رسول اللہﷺ کو کیا منہ دیکھائوں گا کہ آپ کا امتی ہونے کے باوجود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی محبت کا دم بھرنے کے باوجود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہرہ آپ کی سنت سے خالی ہے۔

 مقدس مقامات پر اپنی تصاویر و سیلفیاں بنانے سے گریز کیجیے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے اور مقامات مقدسہ کی حرمت کے خلاف ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو وہاں جاکر سارا سارا دن شاپنگ اور سیر و سیاحت میں گزار دیتے ہیں۔ عبادت کا کچھ خیال نہیں ہوتا۔

خدارا! وقت کی قدر کیجیے۔ گزارا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ وقت گزاری کے بجائے جتنا ممکن ہوسکے عبادت کو ترجیح دیں۔ دعائیں کثرت سے مانگیں۔ اپنے لئے اھل وعیال، رشتہ دار، اور تمام امت محمدیہ کے لئے رو رو کر امن وامان، صحت وسلامتی، دین اسلام پر استقامت کی دعائیں مانگیں۔

حج سے واپس لوٹیں تو کوشش یہ کریں کہ باقی تمام ایام زندگی احکام خداوندی پر پوری طرح عمل پیرا ہوں اور سنت رسول کی پیروی کریں۔ تمام فرائض، سنن، واجبات اور نوافل کا خصوصی اہتمام کیجیے۔

عمل بد سے پرہیز کیجیے۔ اعمال صالحہ کی طرف دوڑ لگائیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں۔ اگر کبھی کمی کوتاہی ہوجائے تو فوراً معافی مانگیں۔ فلاحی کاموں میں حصہ لیجیے۔ صدقہ خیرات دل کھول کر دیجیے۔ اللہ نے آپ کو جتنا مال دیا ہے اس میں غریبوں، یتیموں، بیوائوں اور مسکینوں کی ضروریات زندگی کا بھی خیال کیجیے۔ اپنے وقت واہیات گپ شپ میں ضائع کرنے کے بجائے دینی کتب کا مطالعہ کیجیے۔ قرآن بمع تفسیر کے پڑھیے۔ اپنی زندگی کو دین اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر دیجیے۔

نہ پوچھو کتنی سکوں بخش ہے فضائے حرم

نہیں یقین جسے ایک بار جائے حرم

گناہگار، لقب کیسے کیسے پاتے ہیں

سعادتوں سے دیوانے نوازے جاتے ہیں

لٹا رہا ہے کرم ہر گھڑی خدائے حرم 

حرم کے بیٹے زمیں زر لٹا کے حج کو چلے

زمانہ سارے کا سارا بھلا کے حج کو چلے

انہیں عزیز اگر ہے تو بس ادائے حرم

سماعتوں میں ہے لبیک کی صدا آئی

رگوں میں راحت و تسکیں بھری دوا آئی

کہ لادوا کو شفا بخشے ہے ہوائے حرم

الہی بخت میں لکھ دے بہار میں رہنا

حرم میں یعنی کرم کے حصار میں رہنا

زہے نصیب کہ صائم” ملے ضیائے حرم

(ملک مبشرصائم علوی)

اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو حج بیت اللہ کی زیارت نصیب فرمائیے۔ اور جو اس عظیم سعادت سے بہراور ہو رہے ہیں ان کا حج قبول ومنظور فرمائیے۔ ۔ (آمین ثم آمین)

تبصرے بند ہیں۔