حج نہ کرنے کے غیر شرعی اعذار وبہانے

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اب اس وقت سارے ملک میں آئندہ سال کے حج کے لئے تیاریاں زور وشور سے جارہی ہیں، حکومت کی جانب حج کوٹہ میں شمولیت کے لئے درخواستیں طلب کی جارہی ہے، ہمارے بہت سارے بھائی وہ ہیں جنہوں نے جانے یا انجانے میں یا معلومات کی عدم فراہمی کی وجہ سے یا اپنے محدود معلومات کی روشنی میں غیر شرعی اعذار کو بھی شرعی گردان کر فریضۂ حج کی ادائیگی سے وہ رہ گئے، ہم یہاں درج ذیل تحریر میں ان غیر شرعی وغیر قابل التفات اعذار کا تذکرہ کر رہے ہیں ؛ تاکہ پھر ہمارے وہ بھائی جو ادائیگی فریضہ حج سے رہ گئے ہیں وہ پھر آئندہ کے لئے اس فرض کی ادائیگی کے تیاری کر لیں اور اپنے آپ کے حوالے سے یہ جانچ لیں کہ جن غیر شرعی اعذار کو وہ حقیقی اعذار گردان رہے ہیں کیا وہ شرعا قابلِ التفات اور توجہ بھی ہیں ، یا شریعت اور کتاب وسنت کی روشنی میں کچھ حیثیت وحقیقت نہیں رکھتے۔

سب سے پہلے یہ بات جان لینا چاہئے کہ احادیث مبارکہ میں ان لوگوں پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جو استطاعت، وسعت کے باوجود بلا وجہ یا غیر معقول وغیر مشروع اعذار کی بناء پر بزعم خویش اپنے تئیں حج کو ساقط کر لیتے ہیں ، اس لئے ان لوگوں سے گذارش ہیجو اس سال اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے رہ گئے ہیں وہ ہر گز آئندہ اس سلسلے میں تاخیر نہ کریں اور عقاب خدواندی کے مستحق نہ بنیں ۔

نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ : جو شخص حج کا ارادہ کرے تو وہ عجلت کا مظاہر ہ کرے (ابوداؤد : 1734) ایک جگہ ارشاد نبوی ہے: ’’ حج میں عجلت کرو، ؛ کیوں کہ پتہ نہیں کونسی حاجت درپیش ہوجائے (کنز العمال : 11888)روایت میں ہے کہ : جو شخص حج کا ارادہ کرے تو بجلد حج کی ادائیگی کر ے ؛ کیوں کہ کبھی اس کو کوئی مرض لاحق ہوسکتا ہے، اس کی کوئی چیز گم ہوسکتی ہے یا اس کو کوئی حاجت درپیش ہوسکتی ہے (السنن لکبر ی للبیقی، حدیث:8478)

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے اوروہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مر جانے (اور بے حج مر جانے)میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ (یعنی حج کے لئے زاد راہ و سواری کا شرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کر دینے پر مذکورہ بالا وعید)اس لئے ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے۔ ’’ولِلہِ علی الناسِ حِج البیتِ منِ استطاع اِلیہِ سبِیلا‘‘( ال عمران: 97) اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں جا سکتے  ہوں ۔ (ترمذی:حدیث :812)

 مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات کے لئے کافی بھی ہو جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس قدر دے جائے جو اس کی واپسی تک ان کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے نیز اس کے پاس ایسی سواری ہو جو بیت اللہ تک پہنچا سکے، چاہے وہ اپنی ہو یا کرایہ کی ہو اور وہ اتنی استطاعت و قدرت کے باوجود بھی حج نہ کرے اور مر جائے تو وہ یہودی و نصرانی ہو کر مرتا ہے۔ اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس نے استطاعت و قدرت کے باوجود حج اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کی فرضیت ہی کا منکر ہو تو پھر یہودی اور نصرانی کی اس مشابہت کا تعلق کفر سے ہو گا۔ یعنی جس طرح یہودی و نصرانی کفر کی حالت میں مرتے ہیں ، اسی طرح وہ بھی کفر کی حالت میں مرے گا اور اگر فرضیت کا منکر ہوئے بغیر حج نہ کرے تو اس مشابہت کا تعلق گناہ سے ہو گا کہ یہودی و نصرانی جتنے سخت گناہ کی حالت میں مرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی شدید گناہ کا بار لئے موت کی نذر ہو گا۔ اگرچہ بعض علما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وعید از راہ تغلیظ و تشدید یعنی ترک حج کے گناہ کی شدت و ہیبت ناکی کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن بہر نوع ترک حج ایک ایسا گناہ ہے اور اتنا شدید جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنی شدید اور سخت وعید بیان فرمانی پڑی کہ حج نہ کرنے والا یہودی یا نصرانی ہو کر مرتا ہے العیاذ باللہ منہ۔

1۔ کیاحج بڑھاپنے میں ادا کیا جانے والا فریضہ ہے؟

ہمارے معاشرہ اورسماج میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ حج عمر کے آخری مراحل میں کرنا ہے، لہٰذا جوانی یا جب تک عمر کا ایک معتد بہ حصہ گذر نہ جائے حج کو ضروری تصور نہیں کیا جاتا، حالانکہ یہ تصور بالکل لغو اور باطل ہے، حج کا عمر کے کسی خاص حصہ سے تعلق نہیں ؛ بلکہ وہ تو استطاعت اور قدرت اور بلوغیت کے ساتھ مقید ہے، جس طرح نماز، روزہ، زکوۃ یہ عبادتیں جس طرح بلوغیت کے ساتھ ساتھ مشروط ہیں اور زکوۃ ملکیتِ نصاب کے ساتھ مقیدہے، اسی طرح حج بھی بلوغیت کے بعد استطاعت کے ساتھ موقوف ہے اور قابل غور بات یہ ہے اصل حج کا مزہ اور اس کی لذت میٹھاس و اور اس کے اعمال اور مشقتوں کو بآسانی سہہ لینے کی طاقت وقوت جوانی ہی میں ہوتی ہے، حج جو کہ ایک عاشقانہ ادا ہے، جس میں اطاعت وفنائیت اور عبدیت اور فروتنی کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوتا ہے وہ عمر اس مرحلے میں ہی بہتر طور پر انجام دیئے جاسکتے ہیں ، ورنہ تو بڑھاپے میں ایک فریضہ کی تکمیل کے علاوہ حج سے کچھ مقصود نہیں رہ جاتا، اس کے علاوہ حدیث کے بموجب اللہ عزوجل کو جوانی کی عبادت پسندیدہ ہے، اور جوانی میں کی جانی والی عباد ت پر بڑے بڑے اجر اور وعدے سنائے گئے ہیں ، اور اس کے علاوہ حج کا مقصود زندگی میں تبدیلی لانا ہوتا ہے، جس ڈگر اور راہ پر سابقہ زندگی بسر ہورہی تھی اب کی زندگی اس سے یکساں طور پر علاحدہ ہو، اللہ کے ساتھ خصوصی تعلق، فکرآخرت، اعمال کا شوق، دنیا سے بے رغبتی، گناہوں ، معصیتوں ، جرائم وبد عنوانیوں سے بچاؤ انسانی زندگی میں یہ ساری تبدیلیاں ان کی ضرورت بڑھاپے کے بجائے جوانی میں زیادہ ہوتی ہے، اس لئے نفس اور شیطان کا غلبہ، گناہوں کی طرف میلان ورجحان، بد عنوانیوں اور جرائم کے ارتکاب کی قوت وطاقت زیادہ تر جوانی میں ہوتی ہے، بڑھاپے میں تو اعضاء وجوارح ناتواں اور کمزور ہونے کی وجہ سے ویسے نفس اور شیطان کا غلبہ کم ہوجاتاہے، قبر کے قریبی تصور اور موت کی آمد آمد کی وجہ سے گناہوں کی طاقت ویسے ہی کمزور پڑجاتی ہے، اور نیکیوں کی رغبت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔

درجوانی توبہ کردہ شیوۂ پیغمبری

وقت پیری گرکِ ظالم می شود پرہیزگار

جوانی میں ظلم اور گناہ سے توبہ کرنا یہ شیوۂ پیغمبری ہے، بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گار بن جاتا ہے۔

اس کے علاوہ حج کی برکت سے اگرجوانی میں توبہ کی توفیق میسر ہوجائی تو پھر بقیہ زندگی میں ان سے خیر وبھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے، اس کے ضرر اور نقصان سے دوسرے بھی محفوظ ومامون ہوسکتے ہیں اور خود کے لئے گناہوں اور اس کے نتیجۂ جہنم سے بچاؤ اور نیکیوں کی ذخیرہ اندوزی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی جنت کا اپنے آپ کو مستحق بنا سکتا ہے۔ اس لئے حج فرض ہوجانے اور جوانی میں صاحب استطاعت حضرات کے لئے جوانی میں حج کرلینا چاہئے۔

2۔ نماز، روزہ کے پابند نہ ہونے کا بہانا۔

حج کے تعلق سے بعض لوگوں کا یہ تصور ہے حج اس وقت کریں جب نماز اور روزہ کے پابند ہوجائیں ، اسی تصور اور خیال میں زندگی کا ایک طویل عرصہ گذرجاتا ہے اور وہ نہ نماز، روزہ کے پابند ہوپاتے ہیں اور نہ ادائیگی حج کا تصور ان کے دل میں موجزن ہوتاہے، جو لوگ اس طرح کے حیلے حوالے تراشتے ہیں ان کی خدمت میں یہ گذارش ہے کہ ان کو نماز، روزہ کے پابند ہونے سے کون روکتا ہے، کیا ابھی ان پر نماز، روزہ کی فرضیت نہیں ہوئی ؟ اگر فرض ہیں تو ان کی ادائیگی سے کیا چیز مانع بن رہی ہے ؟ نماز کی پابندی فی الفور شروع کردیں اور ادائیگی حج کے لئے بھی تیار ی کرلیں ، یہ کہاں کی عقل مندی ہے، ایک فریضہ کی ادائیگی کے لئے دوسرے فریضہ کی عدم ادائیگی کو بہانا اور عذر بنا یا جائے، یہ ایسے ہواجیسے کسی کو بھوک اورپیاس دونوں لگی ہوئی ہیں ، کھانے اور پینے کا بھی بندوبست ہے، لیکن نہ وہ کھاتا اور نہ پیتا ہے، جب اس کو بھوک کا علاج کھانا بتلایا جاتاہے تو کہتا ہے پہلے پانی پی لیں پھر کھانا کھالیں گے، لیکن پانی بھی وہ نوش نہیں کرتا، اگر اس کو پانی پینے سے کسی نے منع کیا ہے تو کھانا کی ضرورت تو اپنی جگہ مسلم ہے۔ پتہ یہ چلا کہ نماز روزہ کا بہانا دراصل حج نہ کرنے کا ایک طریقہ ہے، ورنہ تو حج کی فرضیت نماز روزہ کی پابندی پر موقوف نہیں ہے اور نہ نماز، روزہ کا پابند ہونا اس کے اختیار سے باہر ہے۔

3۔ حج کے بعد گناہوں کے ارتکاب کا بہانا۔

بعض لوگ اس وجہ سے حج نہیں کرتے کہ کہیں حج کے بعد گناہوں کا صدور نہ ہوجائے، لہٰذا پہلے تمام طرح کے گناہوں سے فارغ ہوجائیں ، پھر زندگی کے آخری لمحات میں جب گناہوں کی آس ختم ہوجائی گی تو حج کرلیں گے، کس نے اسے یہ گیارنٹی دی ہے کہ اسے زندگی کے آخری لمحات میسر آجائیں گے، یہ صرف اعمال سے روکنے کے لئے شیطان کا سکھایا ہوا سبق ہے، موت کا تو کوئی وقت متعین نہیں ، اس لئے ایک مومن کا شیوہ یہ ہے زندگی کے ہر لمحہ کو آخری لمحہ تصور کر کے نیکیوں اور اعمال کی طرف راغب رہے، ا س کے علاوہ حج کے بعد گناہوں سے بچنے کے لئے اپنے ارادہ اور اختیار کو اختیار کرناپڑتا ہے، حج کے بعد گناہوں کی رغبت اور خواہش ختم نہیں ہوتی، وہ تو مرتے دم تک برقرار رہتی ہے، اس لئے ابھی حج کر لیجئے اور اپنے ارادہ اور اختیار سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جائیں ، ویسے بھی گناہوں کا ارتکاب کوئی اچھی چیز تو نہیں کہ اس پر حج کی ادائیگی کو موقوف رکھا جائے، گناہوں سے بچنا جس قدر ضروری اور فرض عین ہے، اس طرح حج بھی اسی قدر ضروری اور فرض عین ہے، اس لئے گناہوں کا بہانا کر حج میں تاخیر نہ کیجئے، ورنہ گناہوں کے ارتکاب کرتے کرتے ہی بغیر توفیقِ ادائیگی حج دنیا سے نہ گذر جائیں ، اگر حج کے بعد گناہوں سے بچاؤ ممکن بھی نہ ہوسکا ایک بڑے گناہ( حج نہ کرنے) سے تو چھٹکارا ہوجائے گا، یہ کیسی عقل مندی ہے کہ نہ گناہ ہی چھوڑیں  ؛ بلکہ مزید گناہوں کا ذخیرہ اپنے نامۂ اعمال میں جمع کرتے جائیں ۔

4۔ پہلے کچھ کمالیں پھر حج کریں

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ پہلے کچھ کمالیں اور پھر حج کریں ؛ کیوں کہ کاوربار میں جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب کاری، جعل سازی، ناپ تول میں کمی، سود، رشوت، چوری چکاری سب حربوں اور طریقوں کو استعمال کر کے اپنے کاروبار کو خوب وسعت دیں، ورنہ اگریہ حج کے بعد یہ گناہ کئے جائیں تو لوگ کہیں کہ حاجی صاحب ہو کر گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ، اس طرح بدنامی ہوگی، اس لئے جوانی میں اپنے کاروبار کو ہر طریقے سے وسعت دیں ، بوڑھاپے میں حج کریں گے، ایسے لوگوں کے لئے جتنا حج ضروری ہے، اسی قدر ان گناہوں سے بچنابھی ضروری ہے ؛ اس لئے کہ ان کو چاہئے کہ پہلے گناہوں سے توبہ وتلافی کریں اور صحت وجوانی میں حج کریں ، گناہوں کے وبال سے بچاؤ ممکن ہو، دوسرے بھی ان کے ضرر سے محفوظ ہوں گے اور فریضۂ حج بھی ادا ہوجائے گا، ممکن ہے فریضۂ حج کی ادائیگی کی وجہ سے ان گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے۔

5۔ والدین کو حج کرانا

بعض لوگوں کے یہاں یہ رواج ہے کہ گھر کے بڑوں ، بزرگوں کو پہلے حج کرایا جائے، پھر چھوٹے حج کریں ؛ بلکہ بڑوں سے پہلے چھوٹوں کے حج کرنے کومعیوب تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے، دیگر عبادتوں یعنی نماز، رزے اور زکوۃ کی طرح حج بھی ایک فریضہ ہے جو ہر شخص پر انفرادی طور سے عائد ہوتا ہے، خواہ کسی دوسرے نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو، اگر گھر کے کسی چھوٹے کی پاس استطاعت ہو تو اس پر حج فرض ہے، اگر بڑے کے پاس استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے، اگر بڑے کے پاس استطاعت نہ ہو یا استطاعت کے باوجود حج ادا نہ کررہا ہوتو اس سے چھوٹے کا فریضہ ساقط نہیں ہوتا ہے، نہ اسے مؤخر کرنے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔

6۔ بچیوں کی شادی کا مسئلہ

بعض لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ گھر میں بچیاں سیانی ہو کر بیٹھی ہیں ، پہلے ان کے ہاتھ پیلے کرنے کا نظم کیاجائے، اس فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد فریضہ حج ادا کیا جائے گا، ساری بچیوں کی شادی جن کی یاتو ابھی عمریں کم ہیں ، یا ان کا رشتہ طئے نہیں ہوا ہے، یا ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی ہے، نہ معلوم یہ تمام مراحل کب طئے ہوں گے، اسی ہیر پھیر میں عمر کے آخری مراحل آجائے ہیں ، یا اسی اڈھیڑ بن میں پیغام اجل آجائے، خدانخواستہ تمام بچیوں کی شادی سے پہلے ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں ، نہ بچوں کی شادی کے فریضہ سے مکمل طور پر سبکدوش ہوسکیں اور ایک رکن اسلامی کی ادائیگی کے بغیر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوجائیں ، اس لئے شرعا یہ بھی کوئی عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے حج کو مؤخر کیا جائے، پہلے فریضۂ حج کو ادا کیا جائے، پھر ان کی مسائل کے حل کے ساری زندگی پڑی ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کی برکت سے اللہ عزوجل سارے انتظامات اور سارے ذمہ داریوں سے بحسن وخوبی فرغت کی توفیق مرحمت فرمائیں گے، اس کے علاوہ بیوی یا والدہ کو ساتھ لے جانے کے انتظام نہ ہونے کا بھی عذر کر تے ہیں ، پہلے خاوند یا یا بیٹا حج کر لے، پھر استطاعت کے بعد بیوی اور ماں کو لے جائے، یہ بھی کوئی قابل قبول عذر نہیں ۔

7۔ اپنی شادی کا بہانہ

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی جب تک شادی نہ ہوجائے، اس وقت تک اس پر حج فرض نہیں ہوتا، خوا ہ وہ عاقل بالغ ہی کیوں نہ ہو، یہ بھی کوئی عذر نہیں ، جہالت اور شریعت سے عدم واقفیت ہے، اگر کوئی مستطیع عاقل بالغ ہو اور وہ غیر شادی شد ہ ہو تب بھی اس پر حج فرض ہے، بلکہ بعض احادیث میں حج کو شادی پر مقدم بتایا گیا ہے ؛لہٰذا شادی کے انتظار میں حج کو مؤخر کرنا درست نہیں ، اگر سنت کے مطابق شادی کی جائے تو شادی کی سنت بھی ادا ہوجائے گی اور فریضہ حج کے لئے بھی کوئی رکاوٹ نہ رہے گی، اگر شادی کے انتظار میں ادائیگی حج سے رہ گیا اور خدانخواستہ بغیر حج کے فوت ہوگیا تارک حج کے عقاب کا مستحق ہوگا، پھر اگر شادی اور حج سے بھی پہلے ہی مرگیا تو خدا ہی ملا نہ وصال صنم کی صورتحال ہوجائے گی۔

8۔ بچوں کو کس کے حوالے کریں؟

بعض لوگ یہ بہاناکرتے ہیں کہ خصوصا عورتیں کہ ابھی بچے چھوٹے ہیں ، انہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے جائیں ، یہ بھی کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے، اس لئے اگر کسی جگہ کا سفر درپیش ہو یا کسی مرض کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑے تو بچوں کے رہنے کا نظم کر دیا جاتا ہے، پھر جب ان احوال میں نظم ہوسکتا ہے تو حج کے لئے کیوں نہیں ؟اس لئے بچوں کی رہائش اور دیکھ ریکھ کاصحیح نظم کر کے حج ادا کرلینا چاہئے (اگر واقعۃ مجبوری ہو بالکل بچو ں کی دیکھ ریکھ کا نظم مشکل ہو تو پھر حالات کے مطابق علماء سے رجوع کر کے نوعیت مسئلہ بتا کر ان سے دریافت کرنا چاہئے )۔

9۔ کاروبار کا کیا ہوگا ؟

بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں اگر حج پر چلے جاتے ہیں تو پھر کاروبار کی دیکھ ریکھ کون کرے گا، جب بچے بڑے ہو کر کاروبار کو سہار نے کے قابل ہوجائیں گے تو پھر حج پر جائیں گے، یہ نہیں معلوم بچے کب بڑے ہوں گے اور کب ان کے اندر یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ کاروبارکو سنبھالیں ، اگر خدانخواستہ بچوں کا پہلے انتقال ہوگیا یا بڑے میاں ہی بچوں کے کاروبار سنبھالنے سے پہلے دنیا سے چل بسے تو فریضہ حج کے ادائیگی کے تارک ہونے کا عقا ب انہیں لاحق ہوگا۔اس لئے کاروبار کسی قابل اعتماد آدمی کے سپرد کر حج کے لئے چلے جائیں ، یا چند دنوں کے لئے دکان بند کر لیں ۔

10۔ گھر میں حج کا ماحول نہیں یا حج کے متبادل شکلوں کا رواج

بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں ہمارے خاندان میں حج کا رواج ہی نہیں ، اسلام رواجی دین نہیں ، یہ شرعی دین ہے، جو اپنے آپ کو مسلمان گردانتے ہیں وہ اسلام کی تابعداری کا حلف لیتے ہیں ، رواجوں اور رسموں کی پابندی کا نہیں ، ہر جگہ شریعت ایک ہوتی ہے، ہر جگہ کے رواج مختلف ہوتے ہیں ، یہ لوگ سیر سپاٹے، تفریح کے لئے مسوری، ننیتال، لند ن، امریکہ، سنگاپور ضرو ر جائیں گے لیکن حج کے لئے نہیں جائیں گے، ایسے لوگ اپنا اخروی انجام سوچ لیں ، گھر کے ماحول کی خرابی کوئی وجہ عذ ر نہیں بن سکتی، گھر کے ماحول مطابق شریعت بنانا بھی ضروری ہے اور حج بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ کسی درگاہ یا کسی ولی کی مزار کے پاس کئی دفعہ چلے جانے کو حج کے مماثل تصور کرتے ہیں ، یہ سب جہالت ہے اور نادانی ہے، ولی کی قبر کی زیارت علاحدہ چیز ہے، حج تو ارکانِ اسلام میں سے اہم رکن اور اسلام کے بنیادی امور میں سے ہے، یہ سب شیطانی ہتھکنڈے ہیں جو انسان کو ایک رکن اسلامی کی ادائیگی سے روکنے کے لئے اس نے لوگوں کو باور کرائے ہیں ۔

11۔ حج کے بجائے عمر ے

بعض لوگوں پر حج فر ض ہوچکا ہوتا ہے، وہ عمروں پر عمرے کرتے ہیں ؛ لیکن حج کی ادائیگی نہیں کرتے، حالانکہ جس پر حج فرض ہے، ان کو اس فریضہ کی ادائیگی کرنا چاہئے، عمرہ بھی اپنی جگہ ایک سعادت کی چیز ہے ؛ لیکن یہ حج کا بالکل متبادل نہیں، لہٰذا عمروں پر عمرہ کرنا اور اس کے مقابلے میں فرضیت کے باوجود حج کرنے کا اہتمام نہ کرنا بہت غلط بات ہے۔

اب جب کہ حج کا فریضہ مکمل ہوچکا ہے، یہ گذارشات ان لوگوں کی خدمت میں پیش کی جارہی جو امسال تو حج کے لئے نہیں جاسکے، اور انہوں جانے یا انجانے میں مذکورہ بالا اعذار کو اعذار شرعی شمار کر لیا یا ان وجوہات کو حج کو نہ جانے کا بہانہ بنا کر ادائیگی حج سے رہ گئے، وہ اس تحریر کو پڑھ کر تارک حج کا انجام اور اپنے اعذار اور حیلوں بہانو ں کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھ کر آئندہ حج کے لئے درخواست دیں اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے بالکل مستعد اور تیار رہیں اور اپنے اغوائے نفس اور اغوائے شیطان میں نہ آئیں ۔ وباللہ التوفیق

تبصرے بند ہیں۔