حج و قربانی کے عظیم مقاصد

عبدالباری شفیق السلفی، ممبئی

ماہ ذی الحجہ ان أشھرالحرم میں سے ایک ہے جن میں رب کائنات نے دنیائے انسانیت کو جنگ و جدال، قتل و خونریزی، گالی گلو چ اور منہیات ومنکرات سے خصوصی طور پر منع فرمایا ہے اورنصوص شرعیہ سے اس کی حرمت و فضیلت کو واضح کیا۔ نیز ’وَالْفَجْرِ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ، وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ‘‘کہکر اس کی اہمیت کومزید اجاگرکیا، الغرض یہی وہ متبرک مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ سال کے تمام دنوں سے افضل و معتبرہے جس میں یوم عرفہ بھی ہے جس کا وقوف، حج کا اہم ترین رکن اور غیر حجاج کےلئے اس دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کےمغفرت کا ذریعہ ہے، اسی ماہ مبارک میں یوم النحراورعید قرباں بھی ہے جس دن بندہ مومن شکرانے کی دو رکعت نمازادا کرتے ہوئےرب کی رضاجوئی کی خاطرحسب استطاعت بہیمۃ الانعام میں سےاللہ کے نام کا ذبیحہ پیش کرتاہےجس کےگوشت سے خودمستفید ہوتا ہےاور اپنے اعزہ واقارب، دوست و احباب اورغرباءومساکین کوبھی کھلاتا ہے، جس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے دربارالٰہی میں مقبول ہوجاتاہےاسی کورب ذوالجلال نے ’’لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَادِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ ‘‘ کے مفہوم میں بیان فرمایا ہے۔
اسی ماہ مبارک میں حج جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کی جاتی ہے جو اسلام کا ایک اہم رکن، اکثر شعائر اسلام کا جامع اوراہل ایمان کا ایک عظیم الشان فریضہ نیز تقرب الٰہی کابہترین ذریعہ ہےجو پوری دنیا میں بسے کروڑوں مسلمانوں کی اجتماعیت، اتحاد و اتفاق، اخوت ومساوات، الفت و محبت اورآپسی بھائی چارگی کا عظیم مظہر ہے، یہ ایسا فریضہ ہے جو ہر مستطیع، آزاد، عاقل و بالغ مسلمان مرد وعورت پرزندگی میں ایک بار فرض ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ‘‘کے سنہرے الفاظ میں واضح فرمایاہے۔
خوش نصیب اور قابل مبارکباد ہیں وہ افراد جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقدس گھر کی زیارت اور حرم مکی میں حاضری کا شرف بخشا، جس کو روئے زمین پر بیت اللہ اور بیت عتیق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جسے اللہ کے دو برگزیدہ پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند اسماعیل ذبیح اللہ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیرکیا اور مرحلہ تکمیل سے گذرنے کے بعد بحکم الٰہی ’’وَأَذِّن فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘کی روشنی میں اپنی نحیف سی آواز میں ایک پہاڑ کی چوٹی پرچڑھ کر ندالگائی کہ اے لوگو!تم میں سے ہر وہ شخص جسے اس گھر کی زیارت کی طاقت اوراستطاعت ہو وہ ضرور اس کی زیارت کرے۔ آج اسی نحیف وکمزور صداکا ثمرہ ہے کہ ہرسال لاکھوں، کروڑوں کی شکل میں ضیوف الرحمٰن کا یہ قافلہ بڑی والہانہ وسرفروشانہ انداز میں ایک ہی لباس اور ایک ہی انداز میں نعر ہ تکبیر’’لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ‘‘ بلند کرتے ہوئے سوئے حجاز کی طرف رواں دواں ہوتاہےجہاں امیر و غریب، شاہ و گدا، کالے گورے اورعربی وعجمی کا فرق مٹ جاتاہے، جہاں لباس کا امتیاز ختم اورزبان کی حدبندیاں مٹ جاتی ہیں اور تمام انسان عملی طورپر یکساں اور برابر ہوجاتے ہیں گویا حج انسانی مساوات کا وہ مثالی علامتی اعلان ہوتاہے جو بندہ اپنے قول و فعل اور عمل وکردارسے انجام دیتاہے او راپنے مالک حقیقی کو راضی و خوش کرنے کا طریقہ اختیار کرتاہے۔
حج کےبے شماردینی، دنیاوی اور اخروی فوائدہیں جن سے براہ راست دنیا کے تمام مسلمان مستفید ہوتے ہیں کیونکہ اگر ایک طرف حج کا تلبیہ پڑھ کر بارگاہ خداوندی میں حاضری درج کرانے کا شرف حاصل ہوتاہے، اللہ کی وحدانیت و یکتایئت کی صدائیں بلند کرنے کا حو صلہ ملتاہے، عبادت و ریاضت میں انہماک و استغراق کا والہانہ شوق پید اہوتاہے جو گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ، جہنم سے آزادی کاسبب اور دخول جنت کا وسیلہ بنتاہے تودوسری طرف اس سےعالمی مارکیٹ میں تجارت کو فروغ دینے کا موقع اور عالمی سطح پر اتحاد بین المسلمین کا پیغام اور یہ درس ملتاہے کہ تمام مسلمان ایک ساتھ مل کرآپس میں بھائی بھائی بن کررہیں، تاکہ ’’وکونوا عباد اللہ اخوانا ‘‘کی عملی دیوار کو مضبوطی حاصل ہو سکے۔
حج کے مقاصد کو بیان کرتےہوئے صاحب حجۃ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہےکہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل؉ کے چھوڑے ہوئے ترکہ و میراث کی حفاظت کی جائے، اس لئےکہ یہ دونوں ملت حنیفی کے امام اور عرب میں اس کے موسس اور بانی کہے جاسکتے ہیں اور نبی محترم ﷺ کی بعثت بھی اسی لیے ہوئی تھی کہ ملت حنیفی آپ کے ذریعہ دنیا میں غالب ہواور اس کا پرچم بلند ہو، اسی وجہ سے آپﷺ کہا کرتے تھے کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں۔
جب ایک سیرت نگار ابراہیم خلیل اللہ کی حیات طیبہ اور سیرت مبارکہ اور ان کے خانوادہ کی موحدانہ و سرفروشانہ زندگیوں کا جائزہ لیتا ہے تو اس پریہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ان کی پوری زندگی إبتلاوآزمائش کے ہموم و غموم کابحربیکراں ہے، عہد طفولیت و عنفوان شباب میں قوم وخاندان سےبےشمار بتوں کی پرستش کو چھوڑکرصرف ایک اللہ کی عبادت و پرستش کی خاطر دشمنی مول لیتے ہیں اوراعزہ واقارب کو چھوڑ کر ملک شام کی طرف کوچ کرجاتےہیں لیکن وہاں بھی چین وسکون کی فضا رأس نہیں آتی چنانچہ وہاں سے بھی مجبوراًکوچ کرنا پڑتا ہے اور ایک ایسی سرزمین پر اپنی اولاد کو چھوڑناپڑتا ہے جو زمین تمام انسانی ضروریات سے عاری تھی، جہاں انسانی زندگی کا تصور نا ممکن تھا جس سرزمین کو قرآن نے’’ وادٍ غیر ذی زرع‘‘ سے تعبیر فرمایاہے آج جسےدنیامکہ مکرمہ کے نام سے موسوم کرتی ہے جو آج ہر قسم کی متنوع اشیا ءسے بھرا پڑاہے یہ بھی ابراہیم خلیل اللہ کی دعائوں کے طفیل ہے اسی وجہ سے رب ذوالمنن نے ان کو اسوہ بنانے کاحکم دیاہے۔
حج و قربانی اسی خانوادہ کی قربانیوں کی عظیم الشان یادگارہے کہ ایک باپ اپنے لخت جگر، نو ر نظر اور بڑھاپے کی لاٹھی کو بحکم الہٰی اس کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کرلیتاہے اوراپنےبیٹے سےصلاح و مشورہ کرتے ہوئے کہتاہے ’’ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ ‘‘کہ اے میرےبیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہےکہ تجھ کو ذبح کررہا ہوں ’’ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی‘‘توتم بتائو تمہاری کیا رائے ہے، قربان جایئے اس نور نظر پر کہ بیٹا باپ کی بات سن کر گویا ہوتاہے ’’ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْن‘‘ کہ اے ابا جان آپ وہ کام کر ڈالئے جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیاہے ان شاء اللہ آپ مجھے صابر و شاکر پائیں گے۔ چنانچہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے اور ایک بیٹا اپنے باپ کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لئےدونو ں ایک ہی جذبہ وعقیدت کے ساتھ منٰی کی طرف نکل پڑتےہیں، اورباپ ہے جواپنےلخت جگر کے حلقوم پرعزم وہمت اور صبر و استقلال کے ساتھ چھری چلادیتاہے لیکن چھری ہے کہ کام نہیں کررہی ہے، اس لئے نہیں کہ اس میں دھار نہیں تھی بلکہ اس لئے کہ عرش والے کو بیٹے کی جان مطلوب نہ تھی بلکہ اپنے خلیل کا امتحان مقصود تھا اور دونوں مقصود خداوندی میں کامیاب ہوتے ہیں اور آسماں سے ندا آتی ہے ’’قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ‘‘ اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ہم اسی طرح محسنین کو اچھا بدلہ دیتےہیں اور’’وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ ‘‘ لاڈلے بیٹے کی جگہ جنت سے ایک دنبہ اتار کر اسے ذبح کرنے کا حکم دیااور اس عظیم قربانی کو تاقیامت زندہ جاوید بنا دیا، جو ابراہیم خلیل اللہ او ران کے بیٹے اسماعیل ذبیح اللہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اس قربانی کے ذریعے ان برگزیدہ پیغمبروں کی سیرت سے استفادہ کرتےہوئے ان کے اوصاف حمیدہ سے اپنے آپ کو مسلح کریں تاکہ بوقت ضرورت اللہ کی رضا کی خاطر اپنےجان و مال کی قربانی پیش کرنے کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں، یہ قربانی صرف مال کی قربانی نہیں ہے یا اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ جانور ذبح کیا جائے اور اسکا گوشت کھایا اور کھلایا جائے بلکہ اس کا حقیقی مقصد نفسانی خواہشات کی، غلط جذبات کی اور برے خیالات و ارادوں کی قربانی ہے، یہ قربانی دراصل ایک مشق اور تمرین ہے اس عظیم قربانی کی جو ابراہیم خلیل اللہ نےاللہ کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں پیش کیا تھا۔ ہم سے بھی آج وہی جذبہ اور وہی ایثار و قربانی مطلوب ہے۔ یہ قربانی بندے اور اللہ کے درمیان ایک عہد وپیمان ہے کہ حکم خداوندی کی تعمیل میں اگر ہمیں اپنا سب سے قیمتی سرمایہ قربان کرنا پڑے اور اللہ کا نام لینے کی وجہ سے زندگی اور مال و اولاد کا تحفہ دینا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اگر یہ مقصد و مصلحت سامنے نہ ہو تو صرف خون بہانا اور گوشت کھانا وکھلانا رہ جائے گا اور ہماری قربانی ایک روایتی قربانی بن کر رہ جائے گی۔

حج وقربانی کا ایک بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ملت حنیفی کے امام ومو سس ابراہیم خلیل اللہ سے اپنا رشتہ استوار کیاجائے، ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے اعمال و افعال کی اصلاح کی جائے، ان کی سیرت او رجانثاری و فداکاری اور خلوص و للہیت کو سامنے رکھکر اپنی زندگی کا موازنہ و محاسبہ کیا جائے۔ حج ایک قسم کا سالانہ اجتماع ہےجو سارے انسان کو ایک کنبہ و خاندان ہونے کا پتہ دیتاہے۔
اگر یہ مقاصدکارفرماہیں تو یقینا ہماری قربانیاں رب کے دربار میں مقبول ہوں گی اور ہم اس اجر عظیم کے مستحق ہوں گے جس کا ہم سے وعدہ کیاگیا ہے۔ اور ہمارا حج فریضہ خداوندی کی ادائیگی کا مظہر ہوگا جو ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگا اور قوم مسلم کو وحدت کی شکل اختیار کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصرہو۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔