حرف یاب (شعری مجموعہ) 

وصیل خان

شعر و شاعری اگر چہ موجودہ دور میں تفریح اور تفنن طبع کا محض ایک ذریعہ بن کے رہ گئی ہے اس کے باوجود اچھی اور معیاری شاعری کی ضرورت جس طرح کل تھی آج بھی ہے اور اس کی وقعت اہمیت اور افادیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔اچھی اور بامقصد شاعری وہی ہے جو قاری کو جھجھوڑدے اور خود احتسابی پر مجبور کردے۔ ظاہر ہے جو کلام اپنی تاثیر سےانسان کو خوابیدگی سے باہر لے آئے اور قاری کو متحیر کردے اور اس کے اندر ایک تلاطم برپا ہوجائے تو پھر اس کے منھ سے لفظ واہ کس طرح نکل سکتا ہے۔

ماضی سے اٹوٹ تعلق، حال سےپوری ہم آہنگی اور مستقبل پر گہری نظر زندہ اور متحرک قوموں کی علامت تسلیم کی گئی ہے اور یہ صفت معنی خیز اور اچھی شاعری میں پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اس لئے ایسی شاعری کا مستقبل ہر دور میں روشن و تابناک رہا ہے نہ وہ کمزور ہوسکتی ہے نہ ہی اس کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی آسکتی ے۔ مگردور جدید کا المیہ یہی ہے کہ شاعری تو موجود ہے بلکہ کمیت کے اعتبار سے اس میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوا ہے لیکن جہاں تک کیفیت کا معاملہ ہے آج کی شاعری کا ایک چوتھائی حصہ لغویات او ر بے معنی خیال آفرینی کی نذر ہورہا ہے اور حدتو یہ ہے کہ یہ سلسلہ اب لامتناہیت کی حدوں کو چھوتا نظر آرہا ہے۔

خیر جو بھی ہویہی کیا کم ہے کہ  اچھی اور بامقصد شاعری خال خال ہی سہی اپنی جلوہ سامانیاں دکھاتی رہتی ہے۔ عین الدین عازم کی شاعری اسی سلسلۃ الذہب کی کڑی کہی جاسکتی ہے۔ ایک عرصے کے بعد ہی سہی ’ حرف یاب ‘  کی صورت میں عین الدین عازم کا معیاری اور معنی خیز مجموعہ کلام اس احساس کو تقویت پہنچانے میں کامیاب ہے کہ اچھی شاعری ہوتی رہے گی اور اس کے اثرات لوگوں کے ذہنوں کو صیقل کرتے رہیں گے۔ نپے تلے جملوں اور فکری وسعت کی سنجیدہ آمیزش کے سبب ان کے یہاں ایسی سحر انگیز وجد آفرینی ابھرتی ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔

مسائل اور مصائب سے بھری اس دنیا میں موضوع کی تلاش تو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ گیا ہے جدھر نگاہ اٹھائیں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں ایسے میں رومان خیز بیانئے کے برعکس پیامی شاعری کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔ عین الدین عازم پورے وثوق اور استقامت کے ساتھ اسی شاہراہ پر کھڑے ہیں اور مسلسل تغیر پذیرمعاشرے کو آوازدے رے ہیں کہ تمہارا ماضی مرحوم نہیں ، حال بھی موہوم نہیں اور مستقبل بھی نامعلوم نہیں ہے۔

ان کےیہاں کہیں کہیں فلسفیانہ موشگافیاں بھی ملتی ہیں لیکن سیدھے سادے اور سرل انداز نےجوشگفتگی اور اثر انگیزی پیدا کی ہےوہ نہایت قابل قدر ہے۔ وہ اپنے سینے میں ایک حساس دل رکھتے ہیں اور ظاہر ہے شاعری احساس کے بغیر کہاں ، یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تہذیب و معاشرت کا پہلو نمایاں ہے وہ بار بار معاشرے کو اسی اقدار کا خوگر بننے پر زور دیتے ہیں جس کی عدم موجودگی نے آج پوری انسانی تہذیب کو ہی پامال کرکے رکھ دیا ہے۔

ماضی سے ربط، حال کی آگہی اور مستقبل پر گہری نظر نفیس و معیاری ادب کی تخلیق کیلئے ضروری ہے، اس کے بغیر جو بھی خلق ہوگا وہ ادب تو ہوسکتا ہے ادب عالیہ نہیں ۔بطور تمثیل ہم کچھ اشعار یہاں نقل کررہے ہیں ، امید ہے کہ آپ کو بھی پسند آئیں گے۔

سکون دل ترا اسم گرامی 

  تری رحمت ہمہ گیرو دوامی 

تری معراج، معراج دوعالم 

 مری معراج بس تیری غلامی 

مجھی میں جیتا ہے سورج تمام ہونے تک   

  میں اپنے جسم میں آتا ہوں شام ہونے تک 

برہنہ لاش پہ چادر ضرور ڈالیں گے 

  ذرا ہجو م تو چھٹ جائے پارساؤں کا 

جھوٹ میں کتنی لطافت ہوگئی ہے 

  ہر حقیقت بے حقیقت ہوگئی ہے 

سر عام قصہ ٔ عام سا تجھے بے حجاب کیا گیا 

 ترے راویوں کے سلوک پر مری روح کتنی دکھی ہوئی 

جنگل جیسی رات کہاں تنہا کٹتی 

  تیرا غم بھی ہاتھ بٹانے آیا تھا 

کتاب کی قیمت 150/-روپئے  ہے۔ شاعر سےاس پتے اور نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔480،نزد ڈبل بورنگ، مادھو نگر، دھامنکر ناکہ بھیونڈی، ضلع تھانہ۔ موبائل : 9763832201 

تبصرے بند ہیں۔