حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

ڈاکٹر محمد حسین خان ندوی

سعودیہ عربیہ کو مسلم دنیا اوربین الاقوامی پیمانہ پردینی، اقتصادی، سیاسی، سماجی اور جغرافیائی لحاظ سے جو مرکزیت حاصل ہے وہ کسی پر مخفی نہیں۔ حرمین شریفین کی وجہ سے تمام تر فکری ومسلکی اختلافات کے باوجود وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آماجگاہ  اور مرکز عقیدت ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ برصغیر ہند وپاک نیز نیپال بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ کے غریب مسلمانوں کو وہاں پر روزگار کے مواقع ملنے کی وجہ سے ان کے اندر کافی خوشحالی اور اقتصادی مضبوطی آتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں مسلم کاز کے لئے سعودیہ نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں مساجد کی تعمیر، دینی مدارس کی مالی مدد، اسلامی مراکز اور اداروں کے قیام سے لے کر قرآن کے اعلی اور عظیم الشان طباعتی نسخوں کی تقسیم اس کا ایک اہم دینی ودعوتی کارنامہ رہا ہے۔ گوکہ ان تمام دینی ودعوتی خدمات اورمذہبی سرگرمیوں کو پوری پلاننگ کے ساتھ امریکہ اور مغربی ممالک کے اشارہ پر صرف ایک خاص مسلک اور خاص فکر کی ترویج واشاعت کے لئے کیا جاتا رہا ہے تاہم(رب ضارۃ نافعۃ کے مصداق) نیت اور مقاصد جو بھی رہے ہوں اس سے اسلام کے فروغ اور اشاعت میں کافی مدد ملی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ سعودیہ کا قیام 1744میں محمد بن سعود کے ہاتھوں آل سعود کی سیاسی جد وجہد اور کوششوں اور مصلح وقت شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دینی واصلاحی مجاہدانہ کاوششوں کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے یہ بات عام کی گئی کہ مملکت سعودیہ عربیہ کی بنیاد قرآن وسنت اورخدمت اسلام کی بنیادی اصولوں پر ہے اور عملی طور پر کافی عرصہ تک اس کو ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی تاہم مرحوم شاہ فیصل کی شہادت کے بعدسے ہی سعودیہ کا دوسرا چہرا سب کے سامنے نظر آنے لگا۔ ایک طرف تو عوام کیلئے شریعت اور اسلامی قانون کے نفاذ کی ڈھکوسلہ بازی کی جاتی رہی اور دوسری طرف  تمام اسلامی اصول وقوانین کو پش پشت ڈالتے ہوئے شاہی خاندان کے سعودی شہزادگان کیلئے  یورپ وامریکہ میں عیاشی کے تمام تر ساز وسامان فراہم کئے جاتے تھے۔ گویا سعودی اسلام صرف سعودی عوام کے لئے تھا عیاش امراء اور شہزادگان کے لئے نہیں۔ اس طرح توحید ورسالت کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کی حقیقت دھیرے دھیرے عوام کے سانے آنے لگی۔

یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا کہ سعودی عرب میں امریکن کمپنی کے ذریعہ پٹرول کے انکشاف کے بعد سے ہی سعودیہ امریکی استعمار کی طرف بڑھنے لگا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف سعودیہ ہی نہیں بلک دھیرے دھیرے سارے خلیجی ممالک امریکہ کے چنگل میں آ چکے تھے تاہم 2اگست  1990میں امریکہ کے اشارہ پر صدام حسین کے ذریعہ عراقی فوجوں کا کویت پر قبضہ کروانے اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی خلیجی جنگ نے اس کی رہی سہی کسر کو بھی پورا کردیا چنانچہ کویت سے عراقی فوجوں کے انخلاء کوبہانہ بناکر امریکہ نے اس خطہ میں بڑی تعداد میں اپنی فوجیں اتار دیں اور صرف سعودیہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس نے اس پورے خطہ کو یرغمال بناتے ہوئے عملی طور پر اپنی کالونی بنالی۔

یہ صحیح ہے کہ کسی بھی ملک کی داخلہ وخارجہ پالیسی نیز سیاسی واقتصادی اتحاد وتحالف اس کا خالص ذاتی معاملہ ہے لہذا کسی شخص یا جماعت یاملک کو اس میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ تاہم مملکت سعودیہ عربیہ حرمین شریفین کی وجہ سے دنیا کے تمام مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ لہذا اگر وہاں کچھ ایسی بے اعتدالیاں ہوتی ہیں جن سے اسلام اور پوری امت مسلمہ کو نقصان پہونچ سکتا ہے تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا اور ان کا یہ احتجاج کسی ملک کے داخلی امور میں مداخلت نہیں سمجھا جائیگا۔

سعودی عرب اپنے تمام ترغیر منطقی تصرفات اور غیر معتدل مذہبی افکار وخیالات کے باوجود 21جون 2017کو شہزادہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کے اعلان سے پہلے تک پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز عقیدت تھااور ہر جگہ بڑے احترام سے اس کانام لیا جاتا تھا لیکن اس نا تجربہ کار اور ڈکٹیٹر شہزادہ کے زمام اقتدار سنبھالتے ہی داخلی وخارجی دونوں سطح پر اس نے اپنے ملک کی ساری عزت خاک میں ملا دیا۔ اس کے غلط فیصلوں اور غلط بیانات سے جہاں ایک طرف داخلی وخارجی سطح پر ملک کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہونچا تووہیں دوسری طرف سعودیہ کی دینی ڈھکوسلہ بازی بھی دنیا کے سامنے نمایاں ہو گئی اور اس کے چہرہ سے اس کا دینی مکھوٹا بھی اترگیا۔

نا تجربہ کا ر شہزادہ  ولی عہد نے اقتدار میں آتے ہی اپنے آباء واجداد کی عظیم سطوت اوردو صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی شاندار وراثت کو تار تار کردیا۔ بلومبرغ اور واشنگٹن پوسٹ کو دئیے جانے والے اپنے انٹرویوز میں سعودیہ کی قدیم روایات اور آباء واجداد کی سیاست کی کھلم کھلا تنقید کی جس سے سعودیہ کے امیج کو کافی نقصان پہونچا۔ کہتے ہیں کہ (گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے) یا (وشھد شاھد من اھلہ) کے مصداق خود شہزادہ ولی عہدمحمد بن سلمان نے اندر کی ساری باتیں اگل دیں جس سے دنیا کے سامنے سعودیہ کی مذہبی ڈھکوسلہ بازی کا اصلی چہرہ نمایاں ہوگیا۔

22 مارچ 2017 کو واشنگٹن پوسٹ کو دئیے جانے والے اپنے ایک طویل انٹرویو میں انھوں صاف طور پر اعتراف کیا کہ امریکہ اور روس (سویت یونین) میں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعدان کے آباء واجداد کے ذریعہ دنیا بھر میں وہابیت کو فروغ دینے کی تمام کوششیں اور اس کی ترویج واشاعت کی خاطر مساجد ودینی مدارس کا قیام امریکہ اور اپنے دیگرحلفاء کے اشارہ پرمسلم ممالک سے سویت یونین کے اثر ات کو بے دخل کرنے کے مقصد سے تھا۔

Asked about the Saudi-funded spread of Wahhabism, the austere faith that is dominant in the kingdom and that some have accused of being a source of global terrorism, Mohammed said that investments in mosques and madrassas overseas were rooted in the Cold War, when allies asked Saudi Arabia to use its resources to prevent inroads in Muslim countries by the Soviet Union.

Successive Saudi governments lost track of the effort, he said, and now "we have to get it all back.” Funding now comes largely from Saudi-based "foundations,” he said, rather than from the government.

اپنے آقا کے اس بیان کے بعد سلفیت ا ور وہابیت پوری طرح ننگی ہوگئی اور ساری دنیا کے سامنے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ اس کے فروغ کے پیچھے کو ن سی طاقتیں کام کر رہی تھیں اور ان کا مقصد کیا تھا اور اس پردہ زنگاری کے پیچھے کون معشوق پنہاں تھا۔ یہ درا صل اسلام کا مکھوٹا لگائے ہوئے یورپ اور امریکہ کی خدمت کررہے تھے اور انھیں اسلام کی خدمت یا اس کی ترویج اشاعت سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحوم شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سے بیشتر سعودی حکمرانوں کو اسلام سے کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی بلکہ ان میں سے بعض تو ہر گز یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی طرح اسلام کی بالا دستی ہو ورنہ ان کی کرسیاں خطرہ میں پڑ جائیں گی۔ انھوں نے جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لئے بے تحاشہ مال ودولت خرچ کرکے مصر کے فرعون عصر سیسی کی مدد کی اور صدر مرسی کا تختہ پلٹوایا اور میدان رابعہ عدویہ میں ہزاروں نہتے مسلمانوں کو شہید کروایا وہ ان کی اسلام دشمنی کی ایسی کھلی ہوئی دلیل ہے جو کسی صاحب نظر پر مخفی نہیں۔

اسلام پسند اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دینا اور ان کا وحشتناک طریقے سے قتل کروانا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے جس کی تازہ مثال خود اپنے شہری اور مشہور صحافی جمال خاشقجی کا استنبول کے سعودی کونسلیٹ میں انتہائی وحشت و بربریت کے ساتھ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کے محافظ دستے کے ذریعہ بہیمانہ قتل ہے۔ تاریخ عالم نے آج کے اس مہذب دور میں کم ازکم قتل کا ایسا وحشت ناک منظر نہیں دیکھا جس طرح سے کہ اس نہتے مسکین کو دھوکہ سے کونسلیٹ میں بلایا گیا اور پھر انتہائی بے رحمی سے اس کا قتل کرکے اس کی تلاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے گئے اور پھر قاتل درندوں نے اپنے جرم کا نشان مٹانے کے لئے لاش کی حرمت کو بھی پامال کرتے ہوئے اسے کیمیکل کے ذریعہ پگھلا دیا۔ اس گھناؤنی حرکت کے بعد جب عالمی میڈیا حرکت میں آئی اور پوری دنیا میں سعودیہ کی رسوائ ہوئی اور خود اس کے آقا امریکہ نے بھی اسے آنکھیں دکھانا شروع کیا تو امریکی غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بے تحاشہ مال ودولت کی داد ودہش کے ساتھ( واشنگٹن پوسٹ کی یکم نومبر کی رپورٹ کے مطابق) شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنیر اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیرجون بولٹون کو فون کرکے کہتے ہیں کہ مقتول صحافی (جمال خاشقجی) خطرناک اسلام پسند تھا گویا اسلام پسند ہونا شہزازہ ولی عہد محمد بن سلمان کی نظر میں ایسا جرم ہے جس کی سزا بدترین قتل ہے۔

Saudi crown prince described slain journalist as a dangerous islamist in call with White House

Saudi crown prince Mohammad Bin Salmam described slain journalist Jamal Khashoggo as a dangerous islamist days after his disappearance in a phone call with president Trump, son in law Jared Kushner and national security advisor Jhon Bolton, according to people familiar with the discussion. (Washington Post 1 November 2018)

شہزادہ ولی عہد کا یہ بیان ان کی اسلام دشمنی کا کھلا ہوا ثبوت ہے گویا واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے مطابق وہ امریکہ سے کھلے لفظوں میں یہ کہ رہے ہیں کہ چونکہ خاشقجی اسلام پسند تھے اس لئے واجب القتل تھے لہذا ان کے اقتدار میں کسی اسلام پسند کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ اسی کی ساتھ دبے لفظوں میں یہ درخواست بھی کررہے ہیں کہ تم ہمیں اس مصیبت سے بچالو اس لئے کہ ہم نے ایک اسلام پسند کوبے رحمی سے قتل کراکے تمھارا کام کیا ہے اور ضرورت پڑی تو آئندہ بھی تمہارے لئے ایسے کام کرتا رہوں گا۔

آج بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ عظیم ملک ایک نا تجربہ کار شہزادہ ولی عہد کے ہاتھ کا کھلونا بن چکاہے جس کے نت نئے فرمانوں اور عجیب وغریب احکامات نے اس ملک کو داخلی وخارجی دونوں سطح پر بحران میں مبتلا کردیا ہے۔

صبر کرتا ہوں،  تو آتا ہے،  کلیجہ منہ کو

آہ کرتا ہوں،  تو ظالم، تری رسوائی ہے

جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل اور خود اپنے خاندان کے پچاسوں شہزادوں، ہزاروں شہریوں اور سیکڑوں علماء وصلحاء ودعاۃ وائمہ حرم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید وبند میں رکھنے اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دینے سے لے کریمن پر فرضی جنگ تھوپ کرکے وہاں کے لاکھوں بے گناہ مردوں عورتوں بوڑھوں اور بچوں کے وحشیانہ قتل وخونریزی نیز مصر کے میدان رابعہ عدویہ میں اپنے حقوق کئے پرامن احتجاج کررہے ہزاروں بے قصور مسلمانوں کے اجتماعی قتل تک ا ن کے ظلم بربریت کی ایک طویل وناقابل فراموش خونی داستان ہے جس کے خون کو کبھی دھویا نہیں جاسکتا۔

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے، تو مٹ جاتا ہے     

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا، تو جم جائے گا

خاک صحرا پہ جمے، یا کف قاتل پہ جمے       

فرق انصاف پہ، یا پائے سلاسل پہ جمے

تیغ بیداد پہ، یا  لاشئہ  بسمل  پہ جمے

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا، تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئ، چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں       

خون خود دیتا ہے، جلادوں کے مسکن کا سراغ

شازشیں لاکھ اڑاتی رہیں،  ظلمت کی نقاب

لے کے ہر بوند، نکلتی ہے،  ہتھیلی پہ چراغ

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا،  تو جم جائے گا

ظلم کی قسمت ناکارہ،  ورسوا سے کہو   

جبر کی حکمت پرکار، کے ایماء سے کہو

محمل مجلس اقوام کی، لیلی سے کہو      

خون دیوانہ ہے، دامن پہ ٹپک سکتا ہے

شعلہء تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے 

تم نے جس خون کو، مقتل میں،  دبانا چاہا

آج وہ،  کوچہ وبازار میں،  آ نکلا ہے    

کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر  

خون چلتا ہے، تو رکتا نہیں،  سنگینوں پہ

سر اٹھاتا ہے، تو دبتا نہیں،  آئینوں سے

ظلم کی بات ہی کیا،  ظلم کی اوقات ہی کیا       

ظلم بس ظلم ہے، آغاز سے انجام تلک

خون پھر خون ہے، سوشکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ، مٹاو تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلہ کہ بجھائو، تو بجھائے نہ  بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ،  تو دبائے نہ بنے

ظلم وجبر اور بربریت کی ان ناقابل فراموش داستانوں کے علاوہ انفتاح اور کھلے پن نیز ملک کے موڈرنائزیشن کے نام پر شہزادہ ولی عہد نے وژن ۲۰۳۰ کی تکمیل کیلئے جن نئے نئے پروجیکٹس کا اعلان کیا ہے ان میں بعض انتہائی قابل تشویش ہیں جن کا مقصد توحید وسنت کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت خداداد میں عریانیت، اختلاط مرد وزن، فحاشی و بے حیائی اور طرح طرح کی برائی کو عام کرنا ہے۔ ان پروجیکٹس میں سعودی شہروں میں سینما گھروں کا قیام، گانے بچانے اور رقص سرود کی محفلوں کا انعقاد، جگہ جگہ اختلاط مرد وزن، اور ان میں سب زیادہ خطرناک سعودیہ کے مغربی شہر املج اور وجہ کے درمیانی علاقہ میں بحراحمر کے پچاس سے زیادہ جزیروں پردنیا کے ایک ایسے عظیم ترین سیاحتی مرکز کا قیام ہے جس میں شراب وشباب کے ساتھ دنیا بھر کے ہر طرح کے عیاشی کے وسائل وذرائع فراہم کئے جائیں گے۔ افسوس صد افسوس  (چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی)

ان تمام پروجیکٹس کی تکمیل کا ایک حصہ اسرائیل سے مکمل دوستی ہے جس کے نتیجہ میں سعودیہ نے اسرائیل جانے والے اور اسرأیل سے آنے والے طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود کھول دی ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ غیر موثوق ذرائع سے خبریں یہ بھی ہیں کہ (آو صنم جاؤ صنم گھر ہے تمھارا) کہتے ہوئے اسرائیلی کمپنیوں کو سعودیہ میں کام کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دینے منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہیں۔ اس طرح آج سعودی حکام نے کھلے دل سے اپنا قبلہ اول بیت المقدس ان غاصب اور سفاک اسرائیلی یہودیوں کے حوالے کرنے پر رضا مند ی ظاہر کرتے ہوئے انھیں خیبر تک پہونچنے کے لئے ان کی تمام راہیں ہموار کرنے اور ان کے اسرائیل عظمی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا کام بھی شروع کردیاہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیل کے تئیں سعودی کے کسی فرمانرواں کا اتنا بڑا اقدام اب تک کا سب سے بڑا انقلابی اقدام تھایہی وجہ تھی کہ (واشنگٹن پوسٹ کی یکم نومبر کی رپورٹ کے مطابق) جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں پھنسے ہوئے سعودی شہزادہ کے دفاع کیلئے شکران نعمت کے طور پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتنیاہو میدان میں آگئے اور انھوں نے اس سلسلہ میں ٹرپ انتظامیہ کے امریکی عہدیداران سے رابطہ کرکے ان پر دباؤ بناتے ہوئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس مصیبت سے نکالنے کی شفارش کرڈالی اور انھیں ا س خطہ میں اسرائیل کا ایک اسٹراٹیجک پارٹنر بتایا۔ واشنگٹن پوسٹ کی یکم نومبرکی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں :

Officials spoke on the condition of anonymity to discuss a sensitive topic.

Other Middle East leaders have also come to the crown prince’s defense. In

 recent days, Egyptian President Abdel Fatah al-Sissi and Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu have reached out to senior officials in the Trump administration to express support for the crown prince, arguing that he is an important strategic partner in the region, said people familiar with the calls.

اسرائیلی وزیر اعظم کا شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کی دفاع کے لئے سامنے آجانا اور انھیں اسرائیل کااسٹراٹیجک پارٹنر بتانا آخر کس چیز کا غماز ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

یوں تو پردہ میں سبھی پردہ نشیں اچھے ہیں

کوئی معشوق ہے اس پردئہ زنگاری میں

مملکت سعودیہ عربیہ ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن ہے اس لئے کوئی بھی مسلمان نہیں چاہے گا کہ اس ملک کو کسی طرح کا نقصان پہونچے یا اس کا مذہبی تقدس پامال ہو اور خود سعودی معاشرہ بنیادی طور پر اسلام پسند ہے لہذا وہاں کی اکثریت ان تبدیلیوں کو برداشت نہیں کرپارہی ہے مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ اگر ان میں کسی نے صدائے احتجاج بلند کرنے یا مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام جمال خاشقجی کی طرح یا کم ازکم سلاخوں کے پیچھے قید بند کی صعوبتیں برداشت کررہے شیخ سلمان عودہ اور کئی ائمہ حرم نیز ہزاروں دوسرے سعودی قیدیوں کی طرح ہوگا۔

خاکم بدہن ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں سعودیہ موڈرنائزیزشن کی آڑ میں ترکی کے کمال اتاترک کی راہ پر نہ چل پڑے جس نے کہ اصلاحات اور ترقی کے نام پر خلافت اسلامیہ کے مرکز کو الحاد ولادینی کے دلدل میں ڈھکیل دیا تھا۔ کل ترکی خلافت اسلامیہ کا مرکز تھا آج سعودیہ اسلام کا مرکز ہے لہذا  اسلام کے اس مرکز کو سعودیہ کے نئے کما ل اتاترک سے بچانا ہر مسلمان کی مذہبی ذمہ داری ہے۔

ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی 

کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

آج سعودی عرب میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے پوری امت مسلمہ بے چین ہے۔ لہذا ہمیں ایک طرف اس ناتجربہ کار اور ناعاقبت اندیش شہزادہ ولی عہد کے بچکانے فیصلوں پر تنقید کرنا اور اس کے خلاف پرامن طریقہ پر آواز اٹھانا اپنا دینی وملی فریضہ سمجھنا چاہئے اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم حکمراں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کو افضل جہاد قراردیا ہے۔ نیز دوسری طرف ہمیں اسلام کے اس مرکز کی تعمیر وترقی اور اسے دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہنے اور اس کے حکمرانوں کی ہدایت کیلئے مخلصانہ طور پر دعائیں بھی کرنی چاہئے۔

اجڑا ہوا در  تیرے حوالے مرے  اللہ 

اس گھر کو تباہی سے بچانا مرے اللہ

تبصرے بند ہیں۔