شہناز رحمٰن کے ’نیرنگ جنوں‘ کی فسوں کاری

ڈاکٹر سلیم خان

شہناز رحمٰن  اپنے عہد اور اپنی عمر کی کہانی لکھتی ہیں۔ ادیب ویسے تو  اپنے زمانے کا آئینہ دار  ہوتا ہے لیکن تلخ  عصری حقائق کا بیان کبھی کبھارآئینے کو داغدار کر دیتا ہے۔ اس آزمائش کے موقع پر کئی لوگ    راہِ فرار اختیار کرجاتے ہیں لیکن وہ فنکار قابل مبارکباد ہیں جو اپنی تخلیق کی حرمت و عفت  کوپامال کیے بغیرحقیقی آئینہ دار بن جائے۔ اس باب میں شہناز رحمٰن کے  کمالِ فن  کا ثبوت  ان کا افسانہ ’خونچکاں‘  ہے۔ اس کہانی میں ہم جنسی کی حمایت میں ہونے والے جس احتجاج کا ذکر ہے اس کا تصور آج سے ۲۰ سال قبل محال تھا لیکن اب عدالت عظمیٰ اس کے حق میں فیصلہ سنانے جارہی ہے اور بی جے پی کی سنسکاری سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ ماحول  چونکہ  اس وقت موجود نہیں تھا اس لیے ایسے افسانے کا عالم وجود میں آنا  ممکن نہیں تھا۔  اس کہانی کے اندر کامکالمہ ’’ بجیا ؛؛تم نے ویڈیو کال کیوں کیا؟ تمہاری شکل دیکھ کر امی جان بہت پریشان ہیں‘‘آج سے دس سال پہلے بھی نہیں لکھا جاسکتا تھا۔

 یہ تو عہد کی بات ہے لیکن عمر کی بابت یہ عرض ہے کہ آج سے ۲۰ سال بعد وہ خود   بھی شاید ایسے  افسانے نہیں لکھ سکیں گی  مثلاً ’وہ ایک لمحہ ‘ کے موضوع سے وابستہ  احساسات و جذبات  کا تعلق ایک خاص عمر سے ہے۔ خالق کے  احساسات وجذبات ہی  سے کہانی میں جان  پڑتی ہے ورنہ حادثات و واقعات تو اخبار  بھی بیان کرتے ہیں۔ شہناز رحمٰن کے ہر افسانے میں ان کے دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ اس لیے کہانی دل میں اتر جاتی ہے۔ افسانہ ’ ساغر ہو صراحی ہو‘ میں وہ اپنے دل کی بات اس طرح لکھتی ہیں ’’لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ ۔ ۔ مادیت کے اس دور میں کوئی مخلص نہیں رہا۔ اس دور میں کوئی منٹو جیسا بے نیاز اور ممتاز شیریں جیسا بے ضررجذبہ رکھنے والا نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا اس دور کی تحریریں ہوس پرستی کا شکار ہوگئی ہیں۔ لوگوں نے جسم پرستی کی ہوس میں حسن کو رسوا کیا۔ ۔ ۔ اور اب شہرت کی چاہت میں قلم کی رسوائی‘‘۔

  کہانی کا معاملہ پکوان کی مانند ہوتا ہے۔ کھانا بنانا ایک صلاحیت ہے اور اسے خوش اسلوبی سے  پروسنا دو سرا  فن ہے۔ شہناز کو دونوں میں مہارت حاصل ہے۔ اسی لیے ان کے افسانے کسی خاص لگے بندھے اسلوب کے اسیر نہیں ہیں۔ تجریدی آرٹ کی طرح  بظاہر بکھرے ہوئے واقعات کہانی کے ساتھ ساتھ باہم  منظم ہوجاتے ہیں۔ قاری اس جال میں جکڑ لیا جاتا ہے  اور اس اسیر ِ بے نوا کو افسانے کے خاتمہ پر ہی رہائی نصیب ہوتی ہے۔ ان کے بیشترافسانوں پر یہ شعر صادق آتا ہے  ؎

ہماری زندگی ایسی ہے جیسے گیسوئے جاناں 

پریشاں ہے مگر کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے

نیرنگ جنوں کے افسانوں کی انفرادیت ان کے کرداروں کے حسب حال  مکالمے ہیں۔ افسانہ ’ستیہ وان ‘میں قاضی شمس الدین کا نستعلیق لب و لہجہ اورنوکر کھیتالایادو کی ٹھیٹھ دیہاتی بولی۔  ٹمکور کی رہنے والی سرکس کی مالکن  اور اداکارہ ریتا کےزبان وبیان    کا فرق۔ کناڈا میں پرورش پانے والے رکن الدین کے بیٹے کا انداز اور اس کی دائی کے الفاظ کا تلفظ بالکل مختلف ہے۔ اتر پردیش میں تعلیم حاصل کرنے والی مصنفہ کے لیے بھوجپوری لکھنا قدرے سہل ہے لیکن  خونچکاں میں  ساس کی   خالص مارواڑی  زبان  حیرت زدہ کردیتی ہے۔ اقتباس دیکھیں’’ سونی بیٹا۔ ۔ ۔ کھٹے گئی چھوری؟۔ ۔ ۔ جا دیکھ  بیندڑی  کے کمرے میں مالی نے کون کون سا پھول سجایا ہے‘‘۔ ان کے کئی افسانوں میں  کالج کی نئی نسل  انگریزی ملی اردو بولتی ہے۔ اس  طرح زبان کے تنوع سے کہانی کا ماحول  بن  جاتا ہے اور قاری ان کرداروں کے ساتھ نت نئے جہان کا سفر کرتا پھرتا ہے۔

شہناز رحمٰن نے کچھ کہانیوں میں روایتی بیانیہ ہے ہٹ کر علامتی انداز اختیار کرتے ہوئے علامت نگاری کا حق ادا کردیا ہے۔ افسانہ ’انجانی تشنگی ‘ میں نومی نامی کُتے سے متعلق  زمرد بیگم فرماتی ہیں ’’     ارے پکڑ کر نہیں لائی ہوں۔ یہ برسوں سے حویلی میں رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہ وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ فرمانبردار بھی ہے۔ بلا اجازت کبھی قدم باہر نہیں رکھتا اور اگر کبھی کبھار چلا بھی جاتا ہے تو مطمئن رہتی ہوں کہ  ابھی تو واپس آہی جائے گا‘‘۔ اس ابتدا ء کے بعد کہانی اختتام دیکھیں ’’ نئے سال کی مبارکباد دینے زمرد ولا پہنچی تو نومی غائب تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو زمرد بیگم نے بہت ہی پژمردگی سے کہا کہ حویلی کی بچھی کچھی نشانی ہوا میں دھند بن کر اڑگئی۔ نومی رات کو موقع پاکے ہمارا امید و یقین توڑ کر چلا گیا !!!۔ زمرد کی بیٹی تانیہ اور نومی کا استعارہ لاجواب ہے۔

منفرد لب و لہجے کی مالک شہناز رحمٰن کے افسانوں میں علم و عرفا ن کے لعل و  گہر جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں  مثلاً’’بے پردہ حسن کو پوری دنیا لطف لے کر دیکھتی ہے مگر جب قیمت لگانے کی بات آتی ہے تو بے نقاب حسینہ کی قیمت گرجاتی ہے اور مستور حسن کی قیمت بڑھ جاتی ہے‘‘۔ شہناز کے افسانے بہت جلد اردودنیا کے معتبر جریدوں میں شائع ہوئے اور وہ اردو فکشن کاجانا پہچانا نام بن گئیں۔ ان کی کتاب ’نیرنگ جنوں‘  جن لوگوں کی نظر سے گذری ہے انہیں شہناز رحمٰن کو  ساہتیہ اکادمی کے پروقار ’یوا ساہتیہ اعزاز‘ سے نوازے  جانے پر قطعی حیرت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انہوں  نے اپنے فن کا لوہا چاردانگ عالم میں منوا لیا ہے۔ نیرنگ جنوں کے ۲۳ افسانوں  میں سے بہت کم ہم رنگ ہیں۔  موضوع اور اسلوب بیان کا تنوع شہناز رحمٰن کے  تابناک مستقبل کی روشن دلیل ہے۔  نیرنگ جنوں کے بعد شہناز رحمٰن کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’اردو فکشن: تفہیم،  تعبیر اور تنقید‘ بھی منظر عام پر آکر دادِ تحسین حاصل کرچکا  ہے۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کی مبارکباد کے ساتھ دعا ہے ’ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ‘۔

1 تبصرہ
  1. شہناز رحمن کہتے ہیں

    بہت شکریہ

تبصرے بند ہیں۔