حسرت موہانی کی زندگی کی مختلف جھلکیاں

چودھری امتیاز احمد

  حسرت قصبہ موہان ضلع انائو کے ایک سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت امام علی موسیٰ رضا تک پہنچتا ہے حضرت امام موسیٰ رضا کی اولاد میں سے ایک بزرگ سید محمود نیشاپوری جو حسرت کے جداعلیٰ تھے 611ھ (1214-15ء) میں وطن ترک کر کے 615ھ (1218-19ء) میں التمش کے زمانہ میں ہندوستان وارد ہوئے۔ اور موہان میں سکونت اختیار کی۔ شمالی ہند کے صوبہ اترپردیش ضلع انائو میں ایک مشہور و مردم خیز قصبہ موہان ہے سیئی ندی اس کے دامن میں بہتی ہے سیئی ندی پر ایک پل بنا ہوا ہے جس پر بُر جیاں بنی ہوئی ہیں ان سے گزرنے کے بعد تھوڑی دوری پر موہان ہے موہان کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ رام اور لچھمن بن باس کے لیے روانہ ہوئے تو ستروگھن ان کو رخصت کرنے کے لیے اسی بستی تک آئے تھے ’’موہ‘‘ کے معنی محبت اور ’’ہان‘‘ کے معنی ترک یا نقصان۔ ستروگھن کو اپنی محبت کو یہیں پر ترک کر کے واپس اجودھیا جانا پڑا تھا اسی لیے اس مقام کا نام موہان پڑا۔

حسرت کے پر دادا سید مظہر حسن نے موضع کھونٹا تحصیل کجھوا (بند کی) میں ایک نومسلم مگر معزز اور دولتمند گھرانے میں شادی کی تھی اور وہیں آباد ہو گئے تھے۔ لیکن حسرت موہانی کے دادا سید مہرالحسن کی شادی موہان میں اپنے خاندان میں ہوئی تھی سیدمہرالحسن کی دو اولاد تھیں ۔ ایک لڑکا سید ازہر حسن اور دوسری لڑکی منصورالنساء۔

  سید مہرالحسن نے اپنے بیٹے سید ازہر حسن کی شادی موہان میں ہی نیاز حسن کی صاحبزادی شہربانو بیگم سے کرادی۔ سید ازہر حسن کی کل سات اولادیں ہوئیں ۔ ان میں چار لڑکے سید روح الحسن سید فضل الحسن (حسرت موہانی) سید کریم الحسن اور سید مبین الحسن اور تین لڑکیاں سلیمۃ النساء، نسیمۃ النساء اور منیبۃ النساء تھیں ۔

حسرت کے سن پیدائش کے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ حسرت کی سوانح حیات پر سب سے پہلی کتاب ’’حالاتِ حسرت‘‘ ہے جس میں ان کا سن پیدائش 1298ھ دیا ہوا ہے۔ جو 1880-81کے مطابق ہے حسرت کے دیوان کے انگریزی ترجمے کے پیش لفظ میں رحم علی ہاشمی نے بھی حسرت کا سن پیدائش 1298ھ بتایا ہے۔

 رحم علی ہاشمی لکھتے ہیں :

"Hasrat was born in 1298AH at Mohan district unnao, Oudh.”

((Rahm Ali Hashmi. "English Translation of Selected poems of Maulana Syed Fazl-ul-Hasan Hasrat Mohani” PT1, Mercentile press Cawneore 1922, P-II.)

ضمیر احمد ہاشمی ’’اوراق گل‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’سید فضل الحسن نام اور حسرت تخلص ہے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1298ھ میں پیدا ہوئے۔ ‘‘( ضمیر احمد قریشی (مرتب) اوراق گل: کتاب خانہ رامپور1944ء، ص161)

’’رحم علی ہاشمی اور ضمیر احمد قریشی کے برعکس عبدالشکور صاحب اپنی تالیف ’’حسرت موہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حسرت 1295ھ میں بمقام موہان پیدا ہوئے تھے۔ ‘‘(  عبدالشکور، حسرت موہانی، ص3)

   نیاز فتح پوری رقم طراز ہیں :

’’1295ھ میں حسرت پیدا ہوئے۔ ‘‘(  نیاز فتح پوری، مقالہ ’’تذکرۂ حسرت‘‘ نگار، حسرت نمبر، ص7)

  رابعہ بیگم لکھتی ہیں :

’’انھیں مکانوں میں سے ایک جس کوبارہ دری کہتے ہیں 1295ھ

کوہمارے شاعر اعظم نے جنم لیا۔ ‘‘(   رابعہ بیگم، مقالہ ’’حسرت کی خانگی زندگی‘‘ اردو ادب، حسرت نمبر، ص92(رابعہ بیگم کا تعلق حسرت موہانی کے خاندان سے ہے)

حسرت کے چند دوسرے سوانح نگاروں اور نقادوں مثلاً جلیل قدوائی مرتب ’’انتخاب حسرت‘‘ عبدالقادر سروری مؤلف ’’جدید اردو شاعری‘‘ ڈاکٹر سید اعجاز حسین مؤلف ’’مختصر تاریخ ادب اردو‘‘ اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی مؤلف ’’لکھنؤ کا دبستان شاعری‘‘ وغیرہ میں حسرت کا سن پیدائش 1875ء ہے جو 1290-91ھ کے مطابق ہے۔ حالات حسرت میں دیے گئے سن پیدائش کو صحیح تسلیم کرنے کے زیادہ قرائن موجود ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے لیے بیشتر مواد بیگم حسرت موہانی نے فراہم کیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کو حسرت اپنے رسالہ ’’اردوئے معلی‘‘ کے شمارہ جولائی تا دسمبر 1926ء کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع کیا گیا تھا۔ اگر وہ اس میں دیے گئے سن پیدائش سے متفق نہ ہوتے تو اس کی تصدیق ضرور کرتے۔

حسرت کا نام فضل الحسن تھا۔ مگر تخلص نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔ خود ان کے شعر میں اس بات کا اعتراف ملتا ہے   ؎

عشق نے جب سے کہا حسرتؔ مجھے

کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

  حسرت موہانی کو وطن سے ایسا لگائو تھا کہ اس طرف نسبت نام کا جز بن گئی اور حسرت موہانی مشہور ہوئے۔

حسرت موہانی تین سال کے تھے کہ چیچک نکل آئی اور چودہ روز تک آنکھ نہ کھول پائے چہرہ مثل آبلہ نظر آتا تھا مگر اللہ کا فضل واحسان تھا کہ آپ کی بصیرت میں کوئی فرق نہ آیا۔ حسرت کو جنگی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ چھٹیوں میں حسرت جب علی گڑھ سے موہان آتے تو اپنی پھوپھی سے رزمیہ کہانیاں سنانے کا اصرار کرتے تھے اس کے علاوہ ان کے مشاغل میں تیراکی، شطرنج کھیلنا، پتنگ

اڑانا، بانسری اور ستار بجانا بھی تھا۔

 حسرت کے گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ حسرت زندگی بھر مذہب پر سختی سے کاربند رہے اور لڑکپن سے صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو گئے موہان میں آج بھی حسرت کا گھرانا مولوی گھرانے سے مشہور ہے۔ حسرت موہانی کی ابتدائی تعلیم ایک خانگی مکتب میں ہوئی۔ قرآن مجید ختم کرنے کے بعد حسب دستور عربی و فارسی کی تحصیل شروع کی اس کے بعد قصبہ کے ایک اسکول میں داخل ہو گئے۔ مڈل امتحان 1894ء میں اول درجہ میں پاس کیا اس پر انہیں وظیفہ بھی ملا۔

 حسرت مڈل پاس کرنے کے بعد فتح پور چلے گئے اور گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ فتح پور میں وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ فرصت کے وقت میں مولانا سید ظہورالاسلام بانیٔ مدرسہ اسلامیہ سے عربی اور مولانا نیاز فتح پوری کے والد مولانا محمد امیر خان سے فارسی پڑھتے تھے حسرت انٹرنس کا امتحان اول درجے میں پاس کیا ڈاکٹر ضیاء الدین نے حسرت کو اعلیٰ کامیابی کی خبر سن کر علی گڑھ بلا لیا۔ حسرت نے علی گڑھ پہنچ کر علاوہ اور مضامین کے پروفیسر چکرواتی کے کہنے پر ریاضی کو اپنا خاص مضمون منتخب کیا۔

حسرت نے 1903ء میں ریاضی اور عربی مضامین لے کر بی۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا۔ بی۔ اے۔ کرنے کے بعد انہوں نے ایل۔ ایل۔ بی۔ میں بھی داخلہ لیا لیکن بعد میں ایل۔ ایل۔ بی۔ کرنے کا خیال ترک کر دیا۔

 حسرت کا شمار علی گڑھ کے ممتاز طلبہ میں تھا۔ انھوں نے یونین کے جلسوں میں بارہا انگریزی اور اردو تقریریں کیں اور بعض مواقع پر قصیدے اور نظمیں پڑھ کر سنائیں ۔ جن کی کالج کے سکریٹری نواب محسن الملک نے بھی خوب تعریف کی۔

  مجنوں گورکھپوری کے الفاظ میں :

 ’’کالج کے جتنے اعزاز تھے وہ سب حسرت کو حاصل تھے۔ انجمن اردوئے معلی کے معتمد وہ تھے۔ یونین کے سکریٹری وہ تھے اور فوڈ مانیٹر وہ تھے۔ اور فوڈ مانیٹر کی حیثیت سے انھوں نے جس دیانت داری اور بے لاگ فرض شناسی کا ثبوت دیا اس کا نقش ہر ایک دل پر ثبت تھا۔ ‘‘( مجنوں گورکھپوری، مقالہ ’’حسرت موہانی‘‘ اردو ادب، حسرت نمبر، ص81)

  ’’انجمن اردوئے معلی‘‘ کی بنیاد تو سید سجاد حیدر یلدرم نے ڈالی تھی مگر حسرت اس کے بانی ممبروں میں سے تھے۔ اور یلدرم کے بعد وہ اس کے ناظم مقرر ہوئے۔ انجمن کی ترقی میں مولانا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اساتذہ کے علاوہ علی گڑھ کالج میں حسرت کو ساتھی بھی اچھے ملے۔ سید سجاد حیدر یلدرم، مولانا شوکت علی، خان بہادر سیدابومحمد، پروفیسر ظریف دہری، محمد حیات گوالیاری، شمس الضحیٰ، اجگر قاضی پوری اور قاضی تلمذ حسین گورکھپوری جیسے مشاہیر ان کے ہم درس اور احباب میں شامل تھے۔ جن کی وجہ سے اکثر شعر و سخن کی محفلیں گرم رہتی تھیں ۔

  بچپن سے ہی حسرت کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا درسی کتابوں کے علاوہ وہ بالائی کتابیں بھی پڑھتے رہتے تھے جب کوئی دلچسپ کتاب ہاتھ آجاتی تو انھیں کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ کتاب پڑھنے میں مشغول رہتے اور والدہ انھیں نوالہ بنا بنا کر کھلاتی جاتیں ۔

 حسرت کی پہلی شادی 1901ء میں اپنے ہی خاندان میں سید شبیر حسین موہانی کی صاحبزادی نشاط النساء بیگم سے ہوئی۔ نشاط النساء کے بطن سے ایک لڑکی نعیمہ بیگم پیدا ہوئیں ۔ حسرت موہانی کی پہلی بیوی نشاط النساء بیگم کا 8اپریل 1937کو انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات کے بعد حسرت نے اپنے خاندان کی ایک بیوہ حبیبہ بیگم سے 1938ء میں دوسری شادی کی ان سے بھی ایک لڑکی مسمی خالدہ بیگم یادگار ہیں ۔ حسرت نے بی۔ اے۔ کرنے کے بعد سرکاری ملازمت کی طرف جانے کے بجائے ملک و قوم اور زبان وادب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا۔

عبدالشکور صاحب کے الفاظ میں :

’’بی۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکٹوریہ کالج گوالیار میں ریاضی اور عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے بلائے گئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن تھا کہ تھوڑی سی دوا دوش کے بعد کوئی اچھی سرکاری ملازمت مل جاتی۔ ‘‘( عبدالشکور، حسرت موہانی، ص13)

 حسرت کی خودداری نے یہ ذلت گوارہ نہیں کی اور انھوں نے صحافت کا آزاد پیشہ اختیار کیا تاکہ اپنے نصب العین کو پورا کر سکیں وہ علی گڑھ شہر میں آباد رہے اور وہیں سے جولائی 1903ء سے اردوئے معلی کے نام سے ایک ماہنامہ نکالنا شروع کیا جو بہ یک وقت ادبی اور سیاسی جریدہ تھا۔ اس ماہنامے نے بہت جلد ملک کے نامور جریدوں میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ اردوئے معلی پہلا اردو جریدہ ہے جس نے ملک میں اور خصوصاً مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ اس نے اس وقت مسلمانوں کی گانگرس دشمنی اور حکومت کی بیجا خوشامد کی پالیسی کے خلاف آواز بلند کی جب کہ انگریز پرستی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز تھی اور کانگرس کی ہمنوائی کفر سے کم نہ سمجھی جاتی تھی۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے اور علی گڑھ کے صاحب اقتدار طبقے کی طرف سے ’’اردوئے معلی‘‘ کی شدید مخالفت کی گئی۔ علی گڑھ کے طلبہ کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ ’’اردوئے معلی‘‘ نہ خریدیں اور حسرت کی دوکان پر نہ جائیں ۔ انکے پریس مین کو بہکا کر نکلوا دیا گیا تاکہ پرچہ بند ہو جائے باوجود ان تمام مخالفتوں کے حسرت کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ وہ اپنے مسلک پر قائم رہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اردوئے معلی‘‘ نہ کسی ذات کے بھروسے پر نکالا گیا ہے اور نہ طلبہ کے سہارے پر یہ محض اللہ کے بھروسے پہ نکالا گیا ہے اور انشاء اللہ بند نہیں ہو سکتا۔ ‘‘(  نعیمہ بیگم، حسرت کی کہانی نعیمہ کی زبانی، ص21)

حسرت نے طالب علمی کے زمانے سے ہی سیاسی تحریکوں سے دلچسپی لینا شروع کر دی حسرت جس زمانے میں علی گڑھ آئے ہیں اس وقت ملک دو الگ الگ راہوں پر گامزن تھا۔ ایک راہ کانگرس کی تھی اور دوسری علی گڑھ تحریک کی۔ کانگرس کا مطمح نظر صرف یہ تھا کہ کسی قسم کا خطرہ مول لیے بغیر محض قرار دادوں کے ذریعہ انگریزوں سے جو کچھ مراعات حاصل ہو سکیں وہ حاصل کرے۔ کانگرس کی اس نرم روی اور مصلحت اندیشی کے خلاف ہندوئوں میں بھی آہستہ آہستہ ایک ایسا طبقہ پیدا ہو رہا تھا جو اس طریقۂ کار کے سخت خلاف تھا۔ بالآخر کانگرس دو گروہوں میں منقسم ہو گئی ایک اعتدال پسند گروہ جس کے رہنما دادا بھائی نور وجی، گوپال کرشن گوکھلے اور سریندر ناتھ برجی وغیرہ تھے۔ دوسرا انتہا

پسند گروہ جس کے قائد بال گنگا دھرتلک، بین چند رپال اور لالہ لاجپت رائے تھے۔ انتہا پسند گروہ قراردادیں منظور کرنے کے بجائے احتجاج کرنے کا قائل تھا اور حقوق مانگنے کے بجائے چھین لینے پر زور دیتا تھا۔ علی گڑھ تحریک اگرچہ خالصتاً سیاسی تحریک نہیں تھی لیکن چونکہ اس کے مقاصد میں مسلمانوں کا سیاسی اور سماجی مفاد شامل تھا اس لیے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی بھی اس کے سرآپڑی تھی۔ علی گڑھ تحریک کے رہنمائوں نے مسلمانوں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھیں انگریزوں کی طرف جھکا دیا تھا۔

  حسرت علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود علی گڑھ تحریک سے متاثر نہ ہو سکے علی گڑھ تحریک کی مصلحت پسندی کے خلاف انھوں نے بغاوت کی اور کانگرس میں شامل ہو گئے۔ 1904میں وہ بمبئی کانگرس میں بحیثیت ڈیلیگیٹ شریک ہوئے اور سوت کانگرس 1907تک برابر کانگرس کے سالانہ اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ انھوں نے ’’اردوئے معلی‘‘ میں بمبئی (1904ء)، بنارس (1905ء) اور کلکتہ (1906ء) کانگرس کی رپورٹیں بھی بطور ضمیمہ شائع کیں ۔

  حسرت کے ہاں شروع سے ہی حق گوئی اور حریت پسند تھی۔ اس کا ثبوت انھوں نے علی گڑھ میں طالب علمی کے زمانے ہی میں دیا۔ حق گوئی اور حریت پسندی کی بنیاد پر انھیں تین مرتبہ کالج سے نکالا گیا۔ آخری دفعہ جب وہ کالج سے نکالے گئے تو بی۔ اے۔ کے امتحان کا زمانہ بہت قریب تھا۔ ایسے موقع پر اگر کالج کے سکریٹری نواب محسن الملک جو حسرت کی ذہانت اور قابلیت سے تھے شفارس نہ کرتے تو حسرت کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی’’اردوئے معلی‘‘ میں ایک مضمون ’’مصر میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی‘‘ (شمارہ اپریل 1908ء) شائع ہوا۔ جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تنقید کی گئی تھی۔

  حسرت تین بار جیل گئے پہلی مرتبہ حسرت کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر کے دو سال کی سزا اور پانچ سو روپے جرمانہ عائد کیا گیا یہ واقعہ 23جون 1908ء کا ہے جرمانے کی رقم وصول کرنے کے لیے پولیس نے ان کی ذاتی لائبریری نیلام کر دی تھی۔ ہائی کورٹ میں اپیل پر سزا میں ایک سال کی تخفیف ہو گئی۔ چونکہ حسرت کی مالی حالت سقیم تھی۔ اس لیے وہ زرجرمانہ ادا نہ کر سکے۔ زرجرمانہ کے عوض چھ ماہ قید سخت کا اضافہ ہو کر سزا کی مدت ڈیڑھ سال ہو گئی۔ حسرت کی قید کے دوران ہی میں ان کے والد سید ازہر حسن کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بڑے بھائی نے اس خوف سے کہ کہیں ان کی جائداد بھی زرجرمانہ کے عوض نیلام نہ ہو جائے۔ زرجرمانہ ادا کر دیا۔ اس طرح صرف ایک سال کے بعد حسرت رہا ہو گئے۔

مئی 1916ء میں مسلم یونیورسٹی فائونڈیشن کمیٹی کے جلسہ منعقد لکھنؤ سے واپس آنے کے دو تین روز بعد ہی ان کے گھر کی تلاشی ہوئی اور پھر قانون تحفظ ہند کے تحت نظر بندی کا حکم صادر ہوا حسرت نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس حکم کے خلاف صوبائی حکومت سے خط و خطابت کرنے لگے۔ مگر مقامی حکام نے صوبائی حکومت کے جواب کا انتظار کیے بغیر انھیں ان کی مرضی کے خلاف للت پور بھیج دیا اور مجسٹریٹ نے محض چند گھنٹوں میں تین مختلف الزامات کے سلسلے میں دو سال قید محض کا حکم سنا دیا۔ حسرت نے اس فیصلے کے خلاف سیشن جج کے یہاں اپیل کی جو منظور نہ ہوئی اور انہیں ہائی کورٹ جانے کی بھی اجازت نہیں ملی۔ حسرت دو سال قید کی مدت گزارنے کے بعد جب 22مئی 1918ء کو رہا ہوئے تو اس کے بعد چند مہینوں کے لیے میرٹھ اور موہان میں نظر بند رہے بالآخر دسمبر 1918ء میں انھیں ان پابندیوں سے نجات ملی۔ اور پھر پہلے کی طرح اپنے معمولات میں سرگرم نظر آنے لگے۔

 حسرت نے مسلم لیگ کے اجلاس میں جو خطبہ صدارت پڑھا تھا اسے حکومت نے باغیانہ قرار دے کر ضبط کر لیا۔ حسرت نے انھیں خیالات کا اظہار کانگرس اور خلافت کمیٹی کے جلسوں میں بھی کیا تھا۔ اسی جرم میں وہ 15اپریل1922ء کو گرفتار ہوئے اور ان پر بغاوت اور بادشاہ کے خلاف اقدام جنگ کے الزام میں مقدمہ چلا۔ جس میں دو سال قید سخت کی سزا ہوئی۔ سزا کی پوری مدت گزرنے سے کچھ ہی پہلے ہی وہ 12اگست 1924ء کو رہا کر دیے گئے رہا ہونے کے بعد یعنی 29دسمبر1924ء کو کانگرس سے مستعفی ہوگئے۔ اس طرح حسرت اپنی زندگی میں تین بار جیل گئے اور کل ملا کر تقریباً چھ سال قید فرنگ کی سختیاں برداشت کیں ۔

حسرت نے 1928ء میں کانپور سے ایک اخبار ’’مستقل‘‘ کے نام سے نکالنا شروع کیا۔ جو روزنامہ کی حیثیت سے 1929ء تک نکلتا رہا بعد میں یہ اخبار روزہ، سہ روزہ اور ماہوار کی حیثیت سے ایک عرصہ تک نکلتا رہا اردوئے معلی کو بھی انھوں نے 1925ء سے دوبارہ جاری کیا تھا جو مارچ 1942ء تک مسلسل نکلتا رہا۔

’’1931ء میں کانپور میں بہت زبردست ہندو مسلم فساد ہوا تھا۔ اس زمانے میں حسرت نے چودھری خلیق الرحمن، حافظ ہدایت حسن، ڈاکٹر جواہر لال روہتگی اور پنڈت دیا شنکر نگم وغیرہ کے ساتھ مل کر شہر میں ہندومسلم اتحاد اور امن و امام قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ ‘‘(  Pathway to Pakistan, P-72)

  حسرت موہانی 1932ء میں پہلا حج کیا۔ کمونل ایوارڈ کے بعد اور 1935ء کے آئین کی منظوری سے قبل حسرت نے شیخ مشیر حسین قدوائی، سید ذاکر علی اور سید حسن ریاض کے ساتھ مل کر آزاد پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی۔ اس جماعت کا نصب العین آزادی کامل اور ہندو مسلم اتحاد تھا۔ مگر یہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکی۔ 1936ء میں مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں ایک نیا جنم لیا بمبئی اجلاس منعقدہ اپریل 1936ء میں اس نے عوامی جماعت کی حیثیت اختیار کی۔ اسی سال حسرت مسلم لیک کی جدید تنظیم سے وابستہ ہوئے اور یوپی مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے سرگرم رکن بنے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کو عوام میں مقبول بنانے میں حسرت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

1937ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ جس میں حسرت نے نمایاں حصہ لیا انھیں کی سعی سے اس اجلاس میں مسلم لیگ کا نصب العین آزادی کامل اور ایسا وفاقی طرز حکومت قرار پایا۔ جس کے صوبے اندرونی طور پر خود مختار ہوں اور جس کے آئین میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں یہ قرار داد خود حسرت نے پیش کی تھی۔ اسی اجلاس میں وہ صوبائی مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے ممبر نامزد ہوئے۔ اس اجلاس کے بعد حسرت مسلم لیگ کے ہر سالانہ اجلاس اور آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے ہر نشست میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔ لیکن بقول سید سلیمان ندوی:

’’یہاں بھی ان کی شان نرالی تھی قائد اعظم مرحوم کسی اختلاف کو کم برداشت کر سکتے تھے مگر ایک حسرت موہانی کی ذات تھی جو اپنے خیال میں جس کو حق سمجھتے اس کے اظہار میں کسی سے مرعوب نہیں ہوئے۔ ‘‘( سید سلیمان ندوی، ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘ نگار، حسرت نمبر، ص117)

 اپریل 1939ء کے وسط میں حسرت کراچی سے بصرہ، بغداد، بیروت اور مارسلز ہوتے ہوئے لندن گئے تاکہ اکابر انگلستان کے روبرو مختلف سیاسی مسائل کے متعلق مسلمانانِ ہند کا نقطہ نظر پیش کریں لندن میں دوماہ کے قیام کے دوران انھوں نے لارڈ زٹلینڈ، مسٹر میکڈانلڈ اور کرنل میورہیڈ وغیرہ سے حکومت نظام حیدرآباد، مسلئہ فلسطین، البانیااور حجاز ریلوے کے متعلق گفتگو کی۔ علاوہ ازیں انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی مطالبات کے متعلق دارالعلوم میں تین گھنٹے تک تقریر بھی کی۔

 1946ء میں حسرت مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یوپی اسمبلی اور ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 9دسمبر 1946کو دستور ساز اسمبلی کی پہلی نشست ہوئی تو مسلم لیگ نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کے لیے ایک الگ دستور ساز اسمبلی قائم کی جائے حسرت اس فیصلے کے خلاف تھے قائد اعظم سے ان تمام اختلافات کے باوجود حسرت ان کی عزت کرتے تھے۔ قائد اعظم بھی ہمیشہ ان کا احترام ملحوظ رکھتے تھے۔ قائد اعظم کی وفات پر حسرت نے اپنے روزنامچے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہے لکھتے ہیں :

’’12ستمبر1948ء آج صبح گھر سے نکلنے پر قائد اعظم جناح کے انتقال کی خبر معلوم ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم اپنا مقصد پورا کر کے دنیا سے اٹھے۔ ایسی کامیابی بہت کم لیڈروں کو حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘

  جب ملک کی تقسیم کا اعلان ہوا تو حسرت مسلم لیگ سے کنارہ کش ہو گئے جیسا کہ اس سے قبل ذکر آچکا ہے حسرت ملک کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسا دستور چاہتے تھے جس میں مسلم اکثریت کے صوبے اندرونی طور پر خود مختار ہوں ۔ حسرت کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔

 حسرت کی طبیعت 1949ء سے ہی خراب رہنے لگی۔ انھوں نے آخری بار1951ء میں فریضہ حج ادا کیا۔ اس سفر کے دوران انھیں اپنی موت کے قریب آجانے کا احساس ہو گیا تھا مولانا جمال احمد فرنگی جو سفر میں حسرت کے ساتھ تھے لکھتے ہیں :

’’مدینہ طیبہ میں دو تین دفعہ کی حاضری کے بعد انھوں نے واپسی کا قصد ظاہر کیا اور مجھ سے فرمایا کہ وہ جلد از جلد کراچی اور لاہور ہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچ جائیں گے کیونکہ اب انھیں زیادہ دن جینا نہیں ۔ ‘‘( جمال میاں فرنگی محل، کلیات حسرت موہانی (اشاعت سوم) مقدمہ، ص33)

  حج سے لوٹنے کے بعد حسرت کانپور آئے اور وہاں سے فوراً ہی لکھنؤچلے گئے زندگی کے آخری ایام انھوں نے اپنے مرشد کے آستانے پر یعنی فرنگی محل میں گزارے۔ ان کو اسہال کبدی کی شکایت ہو گئی تھی جس نے رفتہ رفتہ ضعیف و ناتواں کر دیا آخر 13مئی 1951ء کو اتوار کے روز ساڑھے بارہ بجے دن میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ بعد نماز مغرب فرنگی محل کے قبرستان میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں دفن ہوئے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔