حسین حق کا نشانِ منزل

عائشہ صدیقی عائش ؔ

 تاریخ اسلام میں ایک ایسا دردناک واقعہ پیش آیا کہ زمین تھرتھرا اٹھی۔ فلک اشکبار ہوگیا۔ کائنات کی ہر شے غم و رنج والم سے بھر گئی۔ ایسا الم ناک واقعہ کہ آج سے پہلے ایسا ظلم کسی پر نا ہوا تھا۔ 10محرم الحرام کو اہل کوفہ نے دھوکے سے ابن حیدر، نواسہ رسول کو بلایا ابھی وہ کربلا میں تھے کہ ان بدبختوں نے ظلم وستم کی انتہا کو پار کرتے ہوئے حضرت حیسن رضی اللہ عنہ کا سر قلم کرکے ان کے جسم مبارک کی بے حرمتی کی۔ یہ بدبخت نواسہ رسول اللہﷺ کو شہید کرنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن قاتلین حسین خدا کے غضب سے بچ نا سکے۔ اللہ پاک نے انہیں رہتی دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنادیا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضائل ومناقب بیشمار ہیں۔ حضرت حسین نوجوانان جنت کے سردار، محمد مصطفیﷺ کے دل کا چین و قرار، فاطم الزہرا رضی اللہ عنھا کے لخت جگر، علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے نور نظر، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، فاروق و عثمان رضی اللہ عنہما کے دل وجان، گلستان نبوت کے پھول،جگر گوشہ ابن بتول ہیں۔

ولادت باسعادت

 حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الفضل فرماتی ہیں کہ” میں نے نبی پاکﷺ سے عرض کیا کہ : آج میں نے ایک بہت برا خواب دیکھا ہے کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا میری گود میں آگیا ہے ” آپﷺ نے فرمایا ” تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فاطمہ کے ہاں لڑکا ہوگا جسے تم اپنی گود میں لو گی۔ ”  ( مشکوۃشریف)

چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ماہ شعبان العظم میں ہوئی۔ آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا نام کیا رکھا ہے؟ فرمایا حرب یعنی جنگجو۔ آقا مدنیﷺ فرمایا اس کا نام حسین ہے۔ حسن اور حسین یہ دونوں نام اللہ رب العزت نے میرے بچوں کے لئے رکھے تھے۔ ولادت کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے شہدچٹایا اور اپنی زبان مبارک حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں کر کے لعاب دہن عطا فرمایا۔ دعاں سے نوازا اور بالوں کے ہم وزن چاندنی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔

 فضائل ومناقب

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا  چہرہ مبارک رسول اللہﷺ کے چہرہ انور کے مشابہ تھا۔ نبی کریمﷺ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت تھی۔ محبت اور شفقت کا عالم تو دیکھیے کہ یہ دونوں بھائی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں حالت نماز میں آپ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے۔ کبھی ٹانگوں کے بیچ میں سے گزرتے  اور آپﷺ نماز میں بھی ان کا خیال کرتے۔ جب تک وہ کمر پر چڑھے رہتے آپ سجدہ سے سر نہیں اٹھاتے۔ (سیر اعلام النبلاج۳)

امام ترمذی نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ میں کسی ضرورت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ گھر کے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ رسول اللہﷺ کے دونوں کولھوں پر کچھ رکھے ہوئے تھے اور چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نے جب دیکھا کہ ایک جانب حسن اور ایک جانب حسین ہیں ، اور فرمایا:اے اللہ….! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت کرے اس کو بھی اپنا محبوب بنا لیجیے۔ (ترمذی شریف)

ایک مرتبہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے۔ خطبہ جاری تھا کہ دونوں نواسے حسن اور حسین آگئے۔ آپ نے خطبہ روک کر ان دونوں کو اٹھا لیا۔ اور اپنے پاس بٹھایا۔ پھر خطبہ پورا کیا۔ آنحضرت ﷺ کو اپنے تمام اہلبیت میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ محبت تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ اہلبیت میں مجھ کو حسن اور حسین سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (ترمذی فضائل حسن و حسینؓ)

امام ترمذی نے حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا”حسین منی و انا من الحسین۔ احب اللہ من احب حسین سبط من الاسباط۔ "

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے حسین میرے ایک نواسے ہیں۔

یہ کلمات انتہائی محبت، اپنائیت، قلبی تعلق کے اظہار کے ہیں۔ یہ محبت کا وہ درجہ ہے جہاں انسانی دماغ بڑی مشکل سے پہنچتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو اتنی محبت تھی دونوں بھائیوں کو سیداشباب اھل الجنۃ فرمایا اور ان کی والدہ یعنی اپنی دختر کو سید ۃ نساء اھل الجنۃ فرمایا۔

ایک مرتبہ سرور کائنات ﷺ دونوں کو اپنی دوش مبارک پر بیٹھا کر کھلانے کی نیت سے باہر نکلے۔ ایک صحابی نے کہا۔ دیکھو تو کتنی اچھی سواری ہے جس پر یہ سوار ہیں یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا

 دیکھو سوار بھی تو اچھا ہے۔

 حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو مبارک دوش پر سوار کر کے خدا سے دعا فرماتے تھے کہ۔ "خداوندا میں اس کو محبوب رکھتا ہوں۔ اس لئے تو بھی اس کو محبوب رکھ”(ترمذی فضائل حسن و حسین رضی اللہ عنہ)

 حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ” ایک روز رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حسن و حسین دونوں آپ کی صدر مبارک پر چڑھے ہوئے کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا۔

 یارسول للہ۔ ۔ ۔ ۔ !!!کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں۔ ؟ فرمایا ” کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔ "(الطبرانی)

 آپ اکثر انہیں گود میں لیتے، کبھی کندھے پر سوار کرتے، کبھی اپنی دوش مبارک کو ان کی سواری بناتے، ان کا بوسہ لیتے، سونگتے اور فرماتے:    ” تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو”(جامع ترمذی)

شہادت حسین

  قصہ مختصر یہ کہ حضرت معاویہ اور حضرت علی کے درمیان جنگ ہوئی۔ حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کروائی۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ دوران خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خواہش کا اظہار کیا کہ یزید کو ان کہ حیات میں خلیفہ بنایا جائے۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے منع کیا۔ اور خلافت راشدہ کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں خلیفہ نہیں بنائے البتہ رائے دی تھی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  نے آخری ایام زندگی میں یزید کی حکومت کے لئے بیعت لینا شروع کردی۔ ابھی بیعت جاری تھی کہ معاویہ رض وفات پاگئے۔ اور والد کا منصب یزید کو مل گیا۔ ادھر اہل کوفہ نے حسین ابن علی کے نام خطوط بھیجے کہ آپ تشریف لائیں ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ اہل کوفہ کے جب تقریبا 900خطوط جمع ہوگئے تو حسین رضی اللہ عنہ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ صحابہ نے مکہ میں روکا کہ یہ جھوٹے ہیں۔ آپ کو دھوکہ دیں گے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ کہیں اہلبیت نبیﷺ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ لیکن آپ نہ رکے۔ ایک یہ بھی واقعہ ہے کہ دوران سفر ایک شخص ملا۔ اس نے آپ کو بہت روکا۔ آپ نے تھیلا الٹا دیا اور 900خطوط دیکھائے کہ کوفیوں نے مجھے آنے پر مجبور کیا ہے اور پھر وہی ہوا جسکا صحابہ کرام کو خدشہ تھا کوفیوں نے بد عہدی کی اور بڑی سنگ دلی سے نواسہ رسول کو شہید کردیا۔

 حسین کے مقام کا جو اعتراف نہ کرے

کبھی بھی اس لعین کو خدا معاف نہ کرے

یہ کہہ دو صائم اس یزید و شمر کے حواری کو

حسین کی وفائوں سے تو انحراف نہ کرے  

(ملک مبشرصائم علوی)

اللہ پاک ہمیں بھی جذبہ حسینی عطا فرمائے(آمین)

تبصرے بند ہیں۔