میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا

احمد کمال حشمی

وہ مرے غم کی کہانی کے مزے لیتا رہا
میں بھی اپنی خوش بیانی کے مزے لیتا رہا

میرے دل کو اس کی باتوں پر یقیں آنے لگا
میں بھی دل کی خوش گمانی کے مزے لیتا رہا

زخمِ دل کے پھول مرجھائے نہیں میرے کبھی
عمر بھر میں باغبانی کے مزے لیتا رہا

داستانِ درد میں نے کہہ تو دی احباب سے
اور پھر انکی شادمانی کے مزے لیتا رہا

چاہتا تو تیر کر ساحل پہ جاسکتا تھا میں
پر میں دریا کی روانی کے مزے لیتا رہا

جب کسی کا ساتھ تھا تو ہر سفر آسان تھا
میں تو صحرا میں بھی پانی کے مزے لیتا رہا

اس نے میرے بارے میں کیا کیا نہ کی باتیں مگر
میں بس اس کی ہر کہانی کے مزے لیتا رہا

تبصرے بند ہیں۔