انسان اور زمین کی حکومت (قسط 17)

رستم علی خان

جب انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ تم ہمیں معجزہ دکھاو کہ یہ خاص نبیوں کے لئیے ہوتا تب ہم مانیں گے
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو خود بھی عاجز ہوں ہاں اگر اللہ چاہے تو ضرور دکھا سکتا ہے- تم بتاو کہ کونسا معجزہ لاوں کہ تم اللہ پر ایمان لے آو-

تب قوم ثمود کے سرداروں اور کاہنوں نے سوچی ہوئی بات کے مطابق (کہ صالح کو کوئی ایسا معجزہ دکھانے کا کہیں گے جو کسی طور ممکن ہی نہ ہو گا اور اس کی تبلیغ سے بھی ہماری جان چھوٹ جائے گی) کہا کہ وہ جو ہمارا فلاں پہاڑ ہے نا جس کا نام "تبہ” ہے اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکلے جو دس مہینہ کی گابھن (حاملہ) ہو اور ہمارے سامنے نکل کر بچہ جنے اور قوی الجثہ اور تندرست ہو اور مزید یہ کہ دودھ اتنا دے کہ ہم سب کے لئیے کافی ہو- اور کچھ اور صفات جو کم کم پائی جاتی ہیں گنوائیں-

اللہ کے پیغمبر سچے داعی ہوتے ہیں اور ان کے سینے میں لوگوں کے لئیے درد ہوتا ہے کہ ہر شحص اللہ کے عذاب اور نافرمانی سے بچ کر اس کی فرمانروائی میں آجائے اور اس کی رحمتوں کا حقدار بن جائے– تبھی حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا اللہ ایسا کر دکھائے اور تم دیکھو کہ پہاڑ میں سے ایک تندرست اور دس ماہ کی حاملہ اونٹنی نکلے اور بچہ جنے اور اس کا دودھ بھی سب کو کافی ہو تو کیا تب تم ایمان لے آو گے اور اپنی کہی بات سے نہ پھرو گے-

قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہاں اگر ایسا ہو جائے تو ہم تجھ پر اور تیرے رب پر ایمان لے آئیں گے- اور معاہدہ کر لیا-  بعد اس کے حضرت صالح علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ آپ کے لئے تو کوئی کام دشوار نہیں ان کا مطالبہ پورا فرما دیں۔ دعا کرتے ہی پہاڑی کے اندر جنبش پیدا ہوئی اور اس کی ایک بڑی چٹان پھٹ کر اس میں سے ایک اونٹنی اُسی طرح کی نکل آئی جیسا مطالبہ کیا تھا۔ اور ایک بچے کو جنم دیا-

صالح علیہ السلام کا یہ کھلا ہوا حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر اُن میں سے کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے اور باقی قوم نے بھی ارادہ کر لیا کہ ایمان لے آئیں۔ مگر قوم کے چند سردار جو بتوں کے خاص پجاری اور بت پرستی کے امام تھے انھوں نے ان کو بہکا کر اسلام قبول کرنے سے روک دیا۔ اور کہا کہ بیشک اس نے کوئی بڑا جادو سیکھ لیا ہے اور اب یہ ہمیں بہکا کر ہم پر حکومت کرنا چاہتا ہے-
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ قوم نے عہد شکنی کی اور خطرہ ہوا کہ ا ن پر کوئی عذاب آجائے تو پیغمبرانہ شفقت کی بناء پر ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ اس اونٹنی کی حفاظت کرو، اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ تو شاید تم عذاب سے محفوظ رہو ورنہ فرراََ تم پر عذاب آجائے گا یہی مضمون قرآن کریم کے ان جملوں میں ارشادہ ہوا ہے۔

ھزہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ فذروھا تاکل فی ارض اللہ ولا تمسوھا بسوء فیا خذکم عذاب الیم

یعنی یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمھارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرا کرے۔ اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ تم کو عذاب الیم آپکڑے گا-

اس ناقہ کو ناقتہ اللہ اس لئے کہا گیا کہ اللہ کی قدرتِ کاملہ کی دلیل اور صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر حیرت انگیز طریق سے پیدا ہوئی۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ فرمایا گیا کہ ان کی پیدائش بھی معجزانہ انداز سے ہوئی تھی۔ ناکل فی ارض اللہ میں اس کی طرف کچھ اشارہ ہے کہ اس ناقہ کے کھانے پینے میں تمھاری ملک اور تمھارے گھر سے کچھ نہیں جاتا۔ زمین اللہ کی ہے اس کی پیداوار کا پیدا کرنے والا وہی ہے اُس اونٹنی کو اُس کی زمین میں آزاد چھوڑ دو کہ عام چراگاہوں میں کھاتی رہے۔
قوم ثمود جس کنوئیں سے پانی پیتے پلاتے تھے اسی سے یہ اونٹنی بھی پانی پیتی تھی مگر یہ عجیب الخلقہ اونٹنی جب پانی پیتی تو پورے کنوئیں کا پانی ختم کردیتی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے باذن ربانی یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ ایک دن یہ اونٹنی پانی پیئے گی اور دوسرے دن قوم کے سب لوگ پانی لیں گے اور جس روز یہ اونٹنی پانی پئے گی تو دوسروں کو پانی کی بجائے اونٹنی کا دودھ اس مقدار میں مل جاتا کہ وہ اپنے سارے برتن اس سے بھر لیتے تھے۔ قرآن میں دوسری جگہ اس تقسیم کا ذکر اس طرح آیا ہے-
اور (صالح علیہ السلام) آپ اپنی قوم کو بتلا دیں کہ کنوئیں کا پانی ان کی اور ناقتہ اللہ کے درمیان تقسیم ہوگا ایک دن اونٹنی کا اور دوسرے دن پوری قوم کا اور اس تقسیم پر اللہ کی طرف سے فرشتوں کی نگرانی مسلط ہوگی کہ کوئی اس کے خلاف نہ کرسکے-
اور ایک دوسری آیت میں ہے-یہ اللہ کی اونٹنی ہے ایک دن پانی کا حق اس کا اور دوسرے دن کا پانی تمھارے لئے معین و مقرر ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی دُعا سے پہاڑ کی ایک بڑی چٹان شق ہو کر اس سے ایک عجیب و غیرب اونٹنی پیدا ہوگئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو بھی اس قوم کے لئے آخری امتحان اس طرح بنادیا تھا کہ جس کنویں سے ساری بستی کے لوگ اور ان کے مویشی پانی حاصل کرتے تھے یہ اس کا سارا پانی پی جاتی تھی اس لئے صالح علیہ السلام نے ان کے لئے باری مقرر کردی تھی کہ ایک دن یہ اونٹنی پانی پیئے دوسرے دن بستی والے- اور بعد ایک مدت کے وہ لوگ اس تقسیم سے تنگ آ گئے اور اونٹنی سے جان چھڑانے کے بارے سوچنے لگے۔

شیطان کا سب سے بڑا وہ فریب جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنی ہوش و عقل کھو بیٹھتا ہے وہ عورت کا فتنہ ہے- جس شخص نے اونٹنی کو قتل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی اس کا نام قدار بن سالف بن جندع تھا- وہ سرخ فام اور نیلی آنکھوں والا تھا- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سالف کی بیوی کے صیان سے ناجائز تعلق پر پیدا ہوا تھا- اس نے ان سب لوگوں کے متفقہ فیصلے سے اونٹنی کو قتل کیا تھا اس لئیے اس کام کی نسبت ان سب کی طرف کی گئی-

بہت سی روایات میں مذکور ہے کہ قوم ثمود میں دو عورتیں تھی ایک نام صدوق بنت محیا بن زھیر بن مختار جو مالدار اور اونچے خاندان کی تھی اس نے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی سے شادی کی تھی لیکن پھر طلاق لے لی- اس نے اپنے چچا ذاد مصداع بن مخرج بن محیا کو بلا کر کہا؛ اگر تم اونٹنی کو قتل کر دو تو میں تم سے شادی کر کوں گی- دوسری عورت کا نام عنیزہ تھا جو ایک کافر بڑھیا تھی- اس کا خاوند ایک رئیس تھا- اس نے قدار بن سالف سے کہا یہ میری چار بیٹیاں ہیں جو نہایت حسین و جمیل تھیں اگر تم اونٹنی کو قتل کر دو تو ان میں سے جس سے کہو گے میں تمہاری شادی کر دوں گی- چنانچہ یہ دو اور سات اور ان کے ساتھ یہ کل نو آدمی اونٹنی کو قتل کرنے کے لئیے گئے- اور ناقہ اللہ کے راستے میں ایک پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے- جب ناقہ سامنے آئی تو مصدع نے تیر کا وار کیا جو اس کی پنڈلی میں پیوست ہو گیا- عنیزہ اور اس کی بیٹیاں بھی وہیں آئی ہوئی تھیں انہوں نے ان لوگوں کو جوش دلانے کے لئیے اپنے چہروں سے نقاب الٹ دئیے- اور قدار نے تلوار سے اس کی ٹانگیں کاٹ کر قتل کردیا۔ اونٹنی کے بچے نے جب یہ دیکھا تو وہ دوڑا اور پہاڑ پر چڑھ کر تین بار بلبلایا اور غائب ہو گیا-

حضرت صالح علیہ السلام نے ناقہ کے قتل کا واقعہ معلوم ہونے کے بعد قوم کو بحکم خداوندی بتلا دیاکہ اب تمہاری زندگی کے صرف تین دن باقی ہیں۔ تمتعوافی دار کم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مکذوب۔ یعنی تین دن اور اپنے گھروں میں آرام کولو (اس کے بعد عذاب آنے والا ہے) اور یہ وعدہ سچا ہے اس میں خلاف کا امکان نہیں مگر جس قوم کا وقت خراب آجاتا ہے اس کے لئے کوئی نصیحت و تنبیہ کار گر نہیں ہوتی ۔ حضرت صالح علیہ السلام کے اس ارشاد پر بھی ا ن بدبخت لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کیا اور کہنے لگے کہ یہ عذاب کیسے اور کہاں سے آئے گا اور اس کی علامت کیا ہوگی۔

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ لو عذاب کی علامات بھی سن لو، کل جمعرات کے روز تم سب کے چہرے سخت زرد ہوجائیں گے مردو عورت، بچہ بوڑھا کوئی اس سے مستسنی نہ ہوگا، پھر پرسوں جمعہ کے روز سب کے چہرے سخت سرخ ہوجائیں گے اور ترسوں ہفتہ کو سب کے چہرے شدید سیاہ ہوجائیں گے۔ اور یہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ بدنصیب قوم نے یہ سن کر بھی بجائے اس کے توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہوجاتے یہ فیصلہ کیا کہ صالح علیہ السلام ہی کو قتل کردیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ سچے ہیں اور ہم پر عذاب آنا ہی ہے تو ہم اپنے سے پہلے ان کا کام تمام کیوں نہ کردیں اور اگر جھوٹے ہیں تو اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتیں۔ اور جب ان کے قبیلے والے پوچھیں گے تو ہم صاف مکر جائیں گے کہ ہم نے صالح اور اس کے گھر والوں کو نہیں مارا-
قوم کے اس متفقہ فیصلہ کے ماتحت کچھ لوگ رات کو حضرت صالح علیہ السلام کے مکان پر قتل کے ارادہ سے گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے راستہ ہی میں پتھر برسا کر ہلاک کردیا۔

یعنی انھوں نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی اور ہم نے بھی ایسی تدبیر کی کہ ان کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ اور جب جمعرات کی صبح ہوئی تو صالح علیہ السلام کے کہنے کے مطابق سب کے چہرے ایسے زرد ہوگئے جیسے گہرا زرد رنگ پھیر دیا گیا ہو۔ عذاب کی پہلی علامت کے سچا ہونے کے بعد بھی ظالموں کو اس طرف کوئی توجہ نہ ہوئی کہا اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اپنی غلط کاریوں سے باز آجاتے۔ بلکہ ان کا غیظ و غضب حضرت صالح علیہ السلام پر اور بڑھ گیا اور پوری قوم ان کے قتل کی فکر میں پھرنے لگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے قہر سے بجائے اس کی بھی علامات ہوتی ہیں کہ قلوب و دماغ اوندھے ہوجاتے ہیں نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع۔ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ بالآخر دوسرا دن آیا تو پیش گوئی کے مطابق سب کے چہرے سرخ ہوگئے اور ایک دوسرے سے کہتے مہلت کا دوسرا دن بھی ختم ہو- اور تیسرے دن سب کے چہرے سخت سیاہ ہوگئے۔

اور چوتھے دن وہ لوگ تیار ہو کر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کونسا عذاب آتا ہے- اسی حال میں زمین سے ایک شدید زلزلہ آیا اور اوپر سے سخت ہیبت ناک چیخ اور شدید آواز ہوئی جس سے سب کے سب بیک وقت بیٹھے بیٹھے مر گئے- اور فرمایا کہ اگر تم انہیں دیکھتے تو زندہ کا گمان ہوتا اور خوف طاری ہوتا تم پر یعنی ایسی بری حالت ہوئی ان کی اور ان میں سے ایک آدمی بچا جس کا نام ابورغال تھا اور وہ حرم کی سرزمین پر تھا اور جب وہاں سے نکلا تو وہ بھی ہلاک ہو گیا- تب حضرت صالح نے ان کی بربادی پر غم و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا- کہ اے قوم میں نے تمہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی پر تم نہیں مانے اور اللہ کے غذب کو آواز دی اور بیشک وہ سخت عذاب دینے والا ہے-  بعد اس کے آپ وہاں سے نکل آئے اور حضر موت کی طرف آ کر قیام کیا اور وہیں رحلت فرمائی واللہ اعلم الصوب۔

بعد اس کے اللہ تعالی نے بابل شہر والوں کو ترقی دی انہوں نے گارے کو آگ میں پکا کر اینٹیں بنائیں اور انہیں چونے سے جوڑا اور پکی عمارتیں اور شہر کے دونوں جانب بڑی بڑی فصیلیں بنائیں اور باغات لگائے- اور ان کا فرمانروا نمرود تھا- نمرود کا نسب نامہ یوں تھا- نمرود بن کنعان بن سام بن نوح علیہ السلام- موجودہ تورات میں حضرت نوح کے بعد اسی شہر بابل کا تذکرہ ہے عاد و ثمود کا تذکرہ نہیں ملتا- دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر- اوربابل کے سب لوگ بت پرست تھے اور ان کے علاوہ باقی کچھ علاقوں میں سورج کی پوجا کی جاتی کہیں بڑے سات ستارے معبود تھے اور کہیں چاند اور کسی جگہ آتش پرستی کی جاتی تھی- الغرض ہر طرف کفر و شرک کی ہوائیں عام تھیں-

تبھی شیطان نے نمرود کے دماغ میں ایک خلل پیدا کر دیا- کہ وہ دعوائی خدائی کا کرے کہ اسے زمین کی خدائی بخشی گئی ہے اور تمام لوگ اسے سجدہ کریں اور جو سجدہ نہ کرے اسے قتل کر دیا جائے- اور خوراک کا سارا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ اب خوراک بس انہیں ملے گی جو نمرود کو معبود اعلی اور بڑا خدا مانیں گے- چونکہ نمرود ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی، سرکشی اور تکبر، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا-

مفسرین کا بیان ہے کہ ”نمرود بن کنعان ”بڑا جابر بادشاہ تھا۔ سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا یہ لوگوں سے زبردستی اپنی پرستش کراتا تھا کاہن اور نجومی اس کے دربار میں بکثرت اس کے مقرب تھے۔ نمرود نے ایک رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند، سورج وغیرہ سارے ستارے بے نور ہو کر رہ گئے۔ وہ بڑا پریشان ہوا اور اپنے کاہنوں اور نجومیوں سے اس خواب کا ذکر کیا اور تعبیر پوچھی- کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک فرزند ایسا ہو گا جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ اور وہ تیری خدائی سے انکار کرے گا- یہ سن کر نمرود بے حد پریشان ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ وہ بچہ کب پیدا ہو گا- تب انہوں نے کہا کہ وہ آج سے تین راتوں میں باپ کے شکم سے ماں کے پیٹ میں داخل ہو گا- تب ملعون نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں کوئی آدمی آج سے تین راتوں تک عورت کے پاس نہ جائے گا-

جب تیسری رات ہوئی تو نمرود کے مصاحب خاص تارخ کی بیوی کو بحکم ربی شہوت نے گھیرا تب آزر خود نمرود کی خواب گاہ میں تھا- کہ وہ نمرود کے سرہانے کھڑا رہتا اور پہریداری کرتا اور علاوہ اس کے پہریدار دروازے پر ہوتے- جب آزر کی بیوی سے نہ رہا گیا تو وہ اٹھی اور گھر سے نکل نمرود کے محل کی طرف چلی اور دو فرشتے اس کے پہریدار ہوئے- جب وہ نمرود کے محل میں پنہچی تو سارے پہریداروں پر اللہ نے نیند طاری کر دی- اور عورت جب نمرود کی خواب گاہ میں پنہچی تو اللہ تعالی نے آزر کے دل میں بھی آگ بھڑکائی- تبھی انہوں نے وہیں خلوت کی اور وعدہ پورا ہوا- بعد اس کے آزر ڈرا کہ نمرود کو پتا چلا تو مجھے نہ چھوڑے گا- اور اس بات کو کسی سے زکر نہ کیا-

چوتھے دن کی صبح نمرود نے اپنے نجومیوں اور کاہنوں کو پوچھا تو انہوں نے خساب لگانے کے بعد کہا کہ وہ بچہ آج کی رات میں ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی شروعات کر چکا ہے- تب اس ملعون نے حکم جاری کر دیا کہ میرے ملک میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کردیا جائے۔ اور مرد عورتوں سے جدا رہیں۔ چنانچہ ہزاروں بچے قتل کردیئے گئے۔ مگر تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے ؟
جب آزر کی بیوی کے ہاں بچے کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آزر نے کہا کہ یہ بچہ ہمیں نمرود کے حوالے کرنا ہو گا تاکہ وہ اسے قتل کر سکے- لیکن ماں ڈری اور وہاں سے نکل گئی اور شہر سے دور دو پہاڑوں میں بچے کو جنم دیا اور وہیں ان پہاڑوں میں چھپا دیا اور اس ڈر سے شہر نہ لائی کہ کہیں نمرود کے حواری اسے قتل نہ کر دیں اور انہیں پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے غار میں چھپا کر آگے پتھر کر دئیے کہ نظر نہ آئے اور نشانی رکھ دی۔

تبصرے بند ہیں۔