حضرت عیسیٰ علیہ السلامؑ قرآن و حدیث کی روشنی میں

عظمت علی

حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی، رسول اور اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں ۔آپ کا اکرام و احترام عیسائی بھی کرتے ہیں اور مسلمان بھی۔ بلکہ قرآن کی روسے آپ پر ایمان و اعتقاد واجب و لازم ہے۔ آپ کی شخصیت کا ذکر قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ ملتاہے اور اسی طرح انجیل میں بھی آپ کا تذکرہ موجودہے۔انجیل اور اسرائیلیات سے متاثر ہوکر بعض مسلم کتابوں میں آپ کے سلسلے سے کچھ ایسے واقعات و حالات بیان کئے گئے ہیں کہ جس سے مقام نبوت و رسالت کی کسر شان ہی نہیں بلکہ توہین انبیا ء شمار ہوتی ہے۔ ایسے عالم میں صحیح منابع اور ماخذ کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر معلوم ہوتاہے۔ رسول اور ان کے اہل بیت سے بہتر کون ہماری رہنمائی کرسکتاہے۔ ۔۔!لہٰذا، ہم یہاں پر جناب عیسیٰ کی صحیح شناخت اور آپ کے درست حالات زندگی کو قارئین کی نذر کرتے ہیں ۔

ولادت

ابو بصیر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا :میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا:کیا عمران نبی تھے ؟
ٓٓآپ نے فرمایا:ہاں ! وہ اپنی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔ حنہ زوجہ عمران اور حنا زوجہ زکریا دونوں بہنیں تھیں ۔ حنہ سے جناب مریم کی ولادت ہوئی اور حنانہ سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے۔ مریم نے جناب عیسیٰ کو جنم دیا۔ اس طرح آپ جناب یحییٰ کی خالہ کی بیٹی کے بیٹے ہوئے اور جناب یحییٰ، جناب مریم کی خالہ کے بیٹے تھے اور ماں کی خالہ، خالہ کے مانند ہوتی ہے۔ (بحارالانواز ج۱۴،ص ۲۰۲)

یعقو ب بن جعفر بن ابراہیم کا بیان ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ وہاں ایک عیسائی آیا، اس وقت ہم عریض نامی مقام پر تھے۔ عیسائی نے آپ سے عرض کیا کہ میں دوردراز سے بڑی مشقت کا سفر طے کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ میں اللہ سے تیس برس سے بہترین دین اور بہترین بندوں کی طرف ہدایت کی دعاکررہاتھا۔ ایک رات عالم خواب میں ایک شخص آیا اور وہ ایک ایسے شخص کا پتہ بتا رہاتھا جو دمشق میں مقیم ہے۔ میں اس شخص کے پاس گیا اور گفتگو کی۔اس نے کہا:میں اپنے دین کا اعلم (سب سے بڑا عالم) ہوں لیکن یہاں پرا یسا شخص بھی ہے جو مجھ سے زیادہ علم رکھتاہے۔

میں نے کہا:مجھے اس آدمی کا پتہ بتاؤجو تم سے زیادہ علم رکھتاہے ؟

اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا :میں نے انجیل اور صحیفہ داؤ د کا بخوبی مطالعہ کیاہے اور توریت کی چاروں اسفار کا بخوبی مطالعہ کرچکا ہوں اور ظاہر نظر سے قرآن کا بھی مطالعہ کرچکاہوں تاکہ سرسری طور پر اس کا بھی علم حاصل کرلو۔ اس کے بعد اس عالم نے کہا:اگر تم عیسائیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوتومیں عرب و عجم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ۔اگر تم یہودیت کے سلسلے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوتو باطل بن شرحیل السامری اس دور کا سب سے بڑا یہودی عالم ہے۔ اگر تم علم اسلام، علم توریت، علم انجیل،علم زبور،کتاب ہود اورہر اس شے کے بارے میں جاننا چاہتے ہو جو تمہارے دو ر کے انبیاء اور اس کے علاوہ انبیاء پر نازل ہوئی ہے تو میں تمہیں بتاتاہوں ۔ اگر تم جا سکتے ہوتو؟

۔۔۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:میں تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں گا کہ جس کو کتاب پڑھنے والوں میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔ یہ بتاؤ مادر مریم کا نام کیا تھا ؟کس روز آپ کے رحم میں روح پھونکی گئی ؟وہ دن کا کون سا حصہ تھا اور کس روز جناب مریم نے حضرت عیسیٰ کو جنم دیا؟

عیسائی نے عرض کیا:میں نہیں جانتا۔

اما م نے فرمایا :جہاں تک مادر مریم کی بات ہے تو آپ کا نام مرثاتھا۔ جناب مریم جمعہ کے روز زوال کے وقت حاملہ ہوئیں ۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے تھے اور مسلمانوں کے لئے اس بہتر کوئی خوشی کا دن نہیں ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس دن کو روز عیدقرار دیاہے۔ جس دن جناب عیسیٰ کی ولادت ہوئی، وہ منگل کا دن اور عصر کا ہنگام تھا۔

کیا تم جانتے ہو کہ جناب مریم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کو کس نہر کے پاس جنم دیا ؟

اس نے عرض کیا:نہیں !

آپ نے فرمایا:وہ فرات ہے۔ اس کے کنارے کھجور کا درخت اور انگور کی بیل تھی۔ نہرفرات کے قریب کھجور کا درخت اور انگور کی بیلوں سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔(الکافی، ج۱ص۴۷۸)

اسماعیل جعفی سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:اس وقت کو یاد کروجب عمران کی زوجہ نے کہا:پروردگار! میں نے اپنے شکم کے بچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے۔ کہاگیا ہے کہ جب جناب مریم حاملہ ہوئیں تو مسجد میں تشریف لے گئیں اور مسجد سے باہر نہیں نکلیں ۔ جب جناب مریم کی ولادت ہوئی تو مادر مریم نے خدا کی بارگا ہ میں

عرض کیا :رب انی وضعتھا انثیٰ۔ ۔۔الرجیم۔

پروردگا ر ! یہ تو لڑکی ہے حالانکہ اللہ خوب جانتاہے کہ لڑکا اس لڑکی جیسانہیں ہوسکتاہے اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اوراس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔(سورہ آل عمران ۳۶)

اس کے بعد جناب مریم کی کفالت کی سلسلے میں اس دور کے انبیاء کے درمیان قرعہ اندازی ہوئی جس میں جناب زکریا کا نام نکلا۔آپ مادر مریم کی بہن کے شوہر تھے اورانہوں نے کفالت کی ذمہ داری لی۔ وہ مسجد میں داخل ہوئے۔ ان کا وقت معینہ آچکا تھا۔ وہ ایک خوبصورت خاتون تھیں ۔ جب آپ نماز اداکرتیں تو محراب عبادت آپ کے نورسے منور ہوجایاکرتی۔ جب جناب زکریا وہاں تشریف لے گئے تو سردی کے موسم کے پھل گرمی میں اور گرمی کے موسم کے پھل سردی میں دیکھتے تھے اور سوال کرتے کہ یہ پھل کہاں سے آئے ؟

جناب مریم جواب دیتیں :یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ہے وہ جسے چاہتاہے بے حساب روزی دیتاہے۔
یہ دیکھ اور سن کر جناب زکریا نے اپنے رب کی بارگاہ میں دعاکی :خدایا ! مجھے اپنی خاندان والوں سے خطرہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ (بحارالانوار ج ۱۴،ص۲۰۴)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    نزول عیسی و دجال کا موضوع مسلمانوں کے لئیے ایک ایسی میٹھی گولی ہے جو ناجانے کونسی صدی میں امت کو چوسنے کے لئیے دی گئی اور ہم بھی باکمال لوگ کہ جو مزے سے اسے چوس رہے یہ جانے بغیر کہ اصل میں اس عقیدہ کے پیچھے کونسی سوچ کارفرما ہے

    مسلمانوں کے عقیدہ کی بنیاد ایک کلمہ پر استوار ہے جس کا پہلا حصہ لا الہ ال الّٰلہ یعنی الّٰلہ کی وحدانیت اور دوسرا حصہ محمد رسول للّٰہ سیدنا محمد صلی علیہ وسلم کی حقانیت اور خاتمیت پر دلالت کرتا ہے ۔ اگر بادی نظر میں دیکھا جائے تو دجال و مسیح کا عقیدہ کلمہ طیبہ کی صریح و واضح توہین کرتا نظر آتا ہے ۔۔ ساری روایات اٹھا کر دیکھ لیں ایک ایسا دجال سامنے آئے گا جو الوہیت کا دعوی کرے گا اور طاقتیں بھی وہی رکھے گا ، چاہے بارش برسانا ہو، زمین کے خزانے ہوں ، مردہ کو زندہ کرنا ہو یا جنت و جہنم ہو جبکہ ایک مسلمان کا قطعی یقین ہونا چاہئے کہ یہ سب طاقتیں صرف الّٰلہ کے پاس ہیں ۔ جب کوئی یہ یقین کرلیتا ہے کہ ایسا دجال آئے گا جس کے پاس یہ ساری طاقتیں ہونگی تو کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ اس شخص کے لئیے بے معنی ۔
    پھر سیدنا مسیح کے نزول پر عقیدہ رکھ کے نا صرف اپ سیدنا محمد صلی علیہ وسلم کی حقانیت کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ ان کی خاتمیت کو بھی شبہ میں ڈال دیتے ہیں ۔ سیدنا عیسی ایک نبی ہیں اور اگر وہ سیدنا محمد کے بعد آتے ہیں تو خاتم النبیین وہ ہوئے نہ کہ محمد صلی علیہ وسلم اور اسی طرح اگر وہ قیامت سے پہلے دجال کو مار کر اسلام کی حقانیت کو واضح کریں گے تو سیدنا محمد صلی علیہ وسلم کی قیامت تک کی حقانیت بھی ختم ہوگئی اور عیسی علیہ السلام کی قائم ہوگئی۔ اپ اس عقیدہ کی جتنی مرضی توجیحات کرلیں اس کا نتیجہ کسی نہ کسی طور خلاف توحید و رسالت نکلتا ہے ۔
    لوگ توجیح دیتے ہیں کہ دجال کے پاس سسٹم ہوگا بارش برسانے کا تو سسٹم اس وقت بھی موجود ہے اور کوئی اُسے خدا نہیں مانتا بلکہ روایات پر غور کریں تو وہاں سسٹم کا کوئی ذکر نہیں بلکہ طاقت کااطلاق ہے ، اسی طرح سیدنا عیسی پر بیٹھے بٹھائے فتوی جاری کردیا جاتا ہے کہ وہ نبی نہیں امتی ائیں گے ۔ یہ اُس سے بھی خطرناک بات کیونکہ قران کی ایک ایک ایت اُن کو نبی کہتی ہے اور ہم نے اُن کو امتی کردیا ۔ یعنی پھر قران تبدیل کرنا پڑے گا ؟؟

    اس عقیدہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ کوئی مسیح دجال آئے گا جو اپنے اپ کو مسیح کہ کر نبوت کا دعوی کرے گا اور وہ غالبا” مرزا قادیانی کی صورت میں آچکا اور نبی پاک کے پشین گوئی پوری ہوگئی۔

    سیدنا محمد آخری نبی ہیں لانبی بعدی ، ان کے بعد کوئی نبی نہیں

تبصرے بند ہیں۔