حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

آج 31؍ مارچ 2019ء مطابق 23؍رجب المرجب 1440ھ کوشام پانچ بجے کے آس پاس، استاذ الاساتذہ، حضرت مولانا جمیل احمد صاحب سکروڈوی، طویل علالت اور مسلسل امراض کے بعد ہم خدام کوداغ مفارقت دےکر ہمیشہ کے لیے خلد آشیاں ہو گئے۔ آپ کے وصال کی خبر سے علمی دنیا سکتے میں آگئی، رنج وغم، کرب والم اور اضطراب وبے چینی کاماحول  پیداہو گیا، انتقال کی خبر آنا فاناًچہار جانب پھیل گئی، مختلف تنظیموں، تحریکوں، اور دینی اداروں سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا، چند گھنٹوں کے اندر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارانظام درہم بر ہم ہو چکا ہے، زندگی تھم گئی ہے، سانسیں رک گئی ہیں، فضائیں سوگوار  ہیں، ہوائیں ماتم کناں ہیں، کیا مغرب کیا مشرق، کیا شمال، کیا جنوب، ہر جگہ انھیں کے تذکرے ہیں، ہر زبان پر انھیں کے مناقب ہیں، ہر دل میں انھیں کی یادیں ہیں۔ کوئی اس سانحہ ارتحال کو ایک عہد کا خاتمہ بتارہاہے، کوئی فقہ وفتاوی کا ناقابل تلافی نقصان کہہ رہاہے، کوئی  دارالعلوم دیوبند کے اہم ستون  کا انہدام قراردےرہاہے۔ غرض فیضی دکنی کی زبانی ہر کوئی زبان حال سے یہ کہتا جارہاہے؎

اے ہم نَفَسانِ محفِلِ ما

رفتید ولے نہ از دِلِ ما

سوانحی نقوش:

آپ کی ولادت باسعادت  1946ء کو اپنے آبائی  وطن سکروڈہ ضلع ہریدوار میں ہوئی۔ وطن ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاشف العلوم چھٹمل پور اور مظاہر علوم سہارنپور میں متوسطات تک تعلیم حاصل کی پھراعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور سن 1390ھ مطابق 1970ء میں دورہ حدیث شریف سے اعلی نمبرات کے ساتھ فراغت حاصل کی۔ قرب وجوار کے مختلف مدارس میں چند سال تدریسی خدمات کی انجام دہی کے بعد 1397ھ مطابق 1977ء میں آپ باضابطہ دارالعلوم کے مدرس بنائےگئے۔ متحدہ دارالعلوم میں ہی آپ کی تدریس انتہائی مقبول اور مشہور تھی پھر جب تقسیم کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا تو آپ نےوقف دارالعلوم کا اپنے لیےانتخاب فرمایا۔ وہاں سالہا سال تک دیگرعلوم و فنون کے ساتھ حدیث شریف کی مختلف کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ ترمذی شریف تو آپ سے متعلق تھی ہی، وقتافوقتا بخاری  اور مسلم جیسی اہم ترین کتابوں کی تدریس بھی آپ کے حصہ میں آئی۔ 1420ھ مطابق 2000ء میں حضرت مولانا سید ارشدمدنی دامت برکاتہم کی تحریک پر آپ کی دارالعلوم دیوبندواپسی ہوئی اور اس کے بعد سے تسلسل کے ساتھ دارالعلوم دیوبند میں مختلف کتابوں اور امہات فن کی کامیاب تدریس فرماتے رہے۔ گزشتہ تین سالوں سے دورہ حدیث شریف کی کتاب موطا مالک بھی آپ سے متعلق تھی۔ اور اس طرح دورہ حدیث شریف کے طلبہ کو بھی آپ سے انتساب اور استفادے کی سعادت ملتی رہی۔

مختصر یہ کہ آپ عالم باعمل، شارح بے بدل، محدث العصر، واعظ شیریں بیاں اور محقق دوراں تھے۔ آپ کی علمی شخصیت کے احاطے کے لیے تو کئی صفحات درکار ہوں گے، زمانے پر آپ کے کام کے انداز اب کھلیں گے، آپ کی گراں قدرشخصیت کے فقدان کا اب احساس ہوگا۔ سچ تو ہے کہ  ایسی ہی شخصیت کے بارے میں موت العالم موت العالم کا صحیح اطلاق ہوتاہے۔ راقم نےآپ  سے فقہ حنفی کی شہرہ آفاق کتاب ہدایہ(ثانی) پڑھی، آپ  کا اسلوب تدریس بڑا ہی دل کش اور دل کو بھا جانے والا ہوا کرتا، پڑھنے والا ہر طالب علم آپ سے بہت جلد متاثر ہوتا اور علمی رسوخ و پختگی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہتا۔ آپ  بولتے  تو یوں لگتا  جیسے آبشار بہہ رہاہے، تلفظ کی ادائیگی میں خوبصورتی، سادہ سی بات میں معلومات کا سمند ر، کسل مندی پربرمحل ڈانٹ ڈپٹ، موقع بہ موقع ظرافت آمیز طرز گفتگو آپ کی نمایاں خصوصیات میں سےہیں ۔

مادر علمی دارالعلوم دیوبند کےچارسالہ تعلیمی سفرکے دوران جو مختصر سا عرصہ حضرت الاستاذ کی خدمت میں بسر ہوا، احقر  اسے اپنی یادوں کا حسین سرمایہ اور کتاب زندگی کا اہم ورق تصورکرتاہے۔ کم علمی وبے مائیگی کے باوجودآپ جیسی عبقری شخصیت سےقلت استفادہ  پراب رہ رہ کے افسوس ہوتاہے کہ  کاش کچھ اور زمانہ  میسر آجاتا اور چشمہ علم سے سیرابی کا مزید موقع ملتا؛لیکن  ؎ائےبسا آرزو  کہ خاک شدہ۔

آپ کس طرح کے انسان تھے؟ کن عناصر سے آپ کی عظیم شخصیت  تشکیل پائی تھی؟ کن خصوصیات و امتیازات کے آپ  حامل رہے؟اس حوالے سے اپنی مختصر معلومات کی روشنی میں کچھ سبق آموزپہلو سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کروں گا۔ واللہ ولی التوفیق

ضبط اوقات:

کہاجاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کی زندگی کا اصل راز پابندیٔ وقت اور ضبط میعاد ہے، جوکوئی اس تعلق سے حساس و باشعور ہوتاہے وہ بہت جلد زندگی کے ہرمیدان میں ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ معروف مفسر و تاریخ داں امام ابن جریر طبری ( 224ھ تا 310ھ) نے 76 برس کی عمر پائی، ان کی عادت تھی کہ وہ ہر روز چودہ ورقے لکھ لیا کرتے تھے، ان کی مشہور عالم تفسیر اور تاریخ کے صفحات کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہوگی۔ ان کے شاگرد قاضی ابو بکر بن کامل ان کے نظام الاوقات کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں۔ ’’ابن جریر طبری ظہر کی نماز گھر میں پڑھ کر عصر تک تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد نمازِ عصر پڑھنے مسجد میں چلے جاتے‘ نماز سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مغرب تک منہمک رہتے پھر عشاء تک فقہ کا درس دیتے اور نماز ادا کرنے کے بعد گھر چلے آتے اس طرح انہوں نے اپنے اوقات کو دین اور خلق خدا کی خدمت میں تقسیم کر رکھا تھا۔

حضرت الاستاذ میں بھی وقت کی قدردانی کا یہ وصف بدرجۂ اتم پایاجاتاتھا، آپ وقت کے نہایت پابند اور کام کو اس کے وقت میں انجام دینے کے پرزور داعی تھے۔ قبل از وقت درس گاہ سے باہر آکر گھنٹی لگنے کا انتظارکرنا، اپنا وقت مکمل ہوجانےکےبعد فوراً سبق موقوف کردینا، تفہیم درس کے دوران اکتاہٹ میں ڈالنے والی طوالت  اور ادائے مقصد میں مخل بننے والے اختصار کے بجائے رعایت وقت کےساتھ نپے تلے جملوں میں اپنا ما فی الضمیر اداکرنا، آپ کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کی ذات گرامی سے درس نظامی کی متعددکتابوں بالخصوص ہدایہ  جیسی اہم ترین شرح کا وہ عظیم القدر  کام لیا جو خال خال ہی کسی کے حصہ میں آسکا۔

طرز تدریس:

تصنیف و تالیف سے ہٹ کر آپ کی صلاحیت واستعداد کااصل محوردرس وتدریس تھا، بلامبالغہ آپ کے ہر تلمیذکا یہ خیال ہوتا کہ آپ کی وضع ہی تدریس کےلیے ہوئی ہے، آپ کی تدریسی خصوصیات کا جہاں تک تعلق ہے تو حق بات یہ ہے کہ آپ مباحث  فن کا مربوط انداز میں تجزیہ کرتے یعنی ہر بحث کو دوسرے سے جدا اورممتاز کر کے پڑھاتے، سبق میں موجود مضامین کو حسن ترتیب کے ساتھ اس طرح بیان فرماتے کہ سارا سبق درس گاہ ہی میں ذہن نشیں ہوجاتا، کتاب کے مشکل مباحث کو سادے الفا ظ میں، اختصار کے ساتھ حل کرنے کا اہتمام فرماتے، تعبیر کے لئے عمدہ، دل نشیں اور ایسا واضح طریقہ اختیار کرتےجس میں ذرہ برابرجھول نہ ہوتا، کتاب کے حل کرنےاور مراد مصنف کی تفہیم میں قطعاً تسامح سے کام نہ لیتے، اہم مسائل کو ایک سے زائد مرتبہ انداز بدل کر دہراتےاور طلبہ میں نشاط پیدا کرنے کے لیے دوران درس مختلف سوالات  بھی قائم فرماتے پھر ہردن  اختتام درس پر اپنے مخصوص انداز میں "بس یا اور”کہتے اور طبیعت باغ باغ ہوجاتی۔

اصول پسندی:

وہ تمام افراد جنہوں نے دنیا میں اہم کارنامےانجام دیے ہیں، ان میں کچھ ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو انہیں باقی لوگوں سے ممتاز کردیتی ہیں۔ حضرت الاستاذ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ کو ایک نیا رخ دیا، اپنی اصول پسندی، پختہ عزم و یقین، راستی و صاف گوئی، خوش مزاجی وملنساری جیسی عظیم خوبیاں آپ کی زندگی کا حصہ تھیں۔ کسی کہنے والے نے سچ کہا کہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کے پاس سلطنت یا پیسہ ہو؛ بلکہ بڑا آدمی وہ ہے جو اصول پسند اور وقت کا پابند ہو۔

آپ  کا معمول تھا کہ آپ کسی طالب علم کوبغیر کتاب کے درس گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے، اگر کوئی بھولے سے خالی ہاتھ آجاتا تو جماعت سے باہر کھڑا ہونا پڑتا۔ جس طرح وہ بروقت حاضری کا غیر معمولی اہتمام فرماتے، طلبہ پر بھی لازم تھاکہ بالکل تاخیر سے نہ پہنچیں۔

نزاعات واختلافات سے نفورتھا۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم بہ غرض خدمت وزیارت گھر پر آیااور اہتمام دارالعلوم سے متعلق مختلف سوالات کرنے لگا(یہ اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ کی وفات کے بعد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی مدظلہ کو مہتمم نام زد کیاگیا تھا)چوں کہ آنے والا حضرت الاستاذکے مزاج ومذاق سے ناواقف تھا، اس لیے ہم خدام اشارے کے ذریعہ مسلسل منع کرتےجا رہےتھے؛مگر وہ اپنی ہی لن ترانی  میں مگن تھا، بالآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھاکہ زبردست پھٹکار لگائی گئی، آئندہ نہ آنے کی تاکید کی گئ اور حاضرین کو نصیحت و وصیت کی گئی کہ میرے سامنےاس قسم کے کسی بھی سیاسی موضوع پر گفتگو کے اجتناب  ضروری ہے۔

صفائی معاملات:

حضرت الاستاذ جہاں مذکورہ بالا بہت سے اوصاف حمیدہ سے متصف تھے، وہیں صفائی معاملات کا عنصر بھی آپ میں بہت نمایاں تھا۔ اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہےکہ تقریباً آٹھ دس سال قبل  جب اختتام بخاری کےلیے بنگلہ دیش  تشریف لےگئے اور وہیں ایک خوف ناک کار حادثے کا شکار ہوئے تو  چندیوم زیر علاج رہنے کےبعد دیوبند اپنی رہائش گاہ تشریف لائے، غالباً ہاتھ کی ہڈی کا بڑا مسئلہ تھا؛جس کی بناء پر مقامی معالجین و اطباء سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک مرتبہ مظفر نگر کے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشاورت کےلیے جانا تھا تو احقرسے فرمایا کہ کل جمعہ ہے، ڈاکٹر سے مشورے کےلیے مظفر نگر چلنا ہے، ٹھیک آٹھ بجے گھر آجانا!

راقم تعمیل حکم میں بروقت در دولت پر حاضر ہوگیا، اہتمام سےخود بھی ناشتہ کیا مجھے بھی کروایا، پھرجی ٹی روڈ سے ایک آٹو میں سوار ہوکر مظفر نگر کےلیے روانہ ہوئے۔ کافی دیر کے بعد منزل مقصود پر پہونچے تو سواری سے اترنے کے بعد حضرت والا نےکرایہ کی رقم دینی چاہی؛مگر آٹو والے نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ کھلے چھٹے چاہیے!احقر کے پاس چھٹے موجود تھے کرایہ دینےکےلیے آگے بڑھاتو نہایت سختی سے منع فرمایا، کھلے مانگنےکے لیے خود ہی ادھر ادھر دوڑتے رہےاور میں لجاجت سے عرض کرتا رہاکہ حضرت بعد میں واپس فرمادیجیے فی الحال دینے دیجیے؛لیکن اس  پیشکش کو ہرگز قبول نہیں فرمایا اور بلا کسی ضرورت کے قریبی ٹھیلے سے دوسوروپیے کے سیب خریدے اور باقی رقم سےکرایہ ادا کیا۔

اس وقت روا روی میں لکھی ہوئی ان  چند منتشر یادوں پر اکتفا کرتاہوں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ حضرت الاستاذ کی مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور دارالعلوم کو نعم البدل عطافرمائے۔ آمین

اک شخص تھا جو راہ وفا سے گزرگیا

جی چاہتاہے نقش قدم چومتے چلوں

تبصرے بند ہیں۔