حضرت مولانا سمیع الحق شہید

مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی

2نومبر2018بروز جمعۃ المبارک بعد از نماز عشاء معلوم ہوا ہے کہ قائد جمعیت حضرت مولاناسمیع الحق مہتمم جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر چھریوں کے وار سے شہید کردیا۔ اناللہ واناا لیہ راجعون!

 مجسمہ اخلاق، پیکرِ صداقت، عالم باعمل، شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، استاذالمحدثین واستاذالمجاہدین، محسن پاکستان، فخرِ انسانیت، پیکر صبر و استقلال، شانِ عظمت انسان، مثل ایثار، شان فقر، افتخار آدمیتحضرت اقدس مولانا سمیع الحق شہیدرحمۃ اللہ علیہ18 دسمبر 1937 ؁ء کواکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ مولاناشہید رحمۃ اللہ علیہ نے1366 ہجری بمطابق سال 1946 ؁ء میں دارلعلوم حقانیہ میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم حضرت مولاناعبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی۔

       مولانانے درس نظامی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہی کیا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ 1988؁ء میں مولانا عبدالحق ؒکی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق شہیدؒدارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بنے۔ مولانا سمیع الحق شہیدؒنے جمعیت علمائے اسلام کے دو گروپ بننے پر سمیع الحق گروپ کی بنیاد رکھی۔ وہ 1985؁ء سے 1997؁ء تک سینیٹ کے رکن رہے۔

مولانا سمیع الحق شہیدرحمۃ اللہ علیہ کا شمار پاکستان کی ان چند ممتاز شخصیات میں تھاجنہیں بیرون ملک بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

2013 ؁ء جولائی میں اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر نے اپنی ذاتی خواہش پرجامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک جاکرمولانا سمیع الحق شہیدؒ سے خصوصی ملاقات کی تھی اوران سے افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کاوقتی خاتمہ ہوچکا تھا اور وہاں طالبان نے دوبارہ اپنے آپ کو منظم کرکے افغانستان کی سر زمین سے امریکیوں اور نیٹوافواج کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا تھا چونکہ افغانستان میں اس وقت امریکی سرپرستی میں نیٹوافواج افغانستان میں اترچکی تھیں اور شہید مولانا سمیع الحقؒ کھل کر ببانگ دہل طا لبان کی حمایت کررہے تھے امریکی سفیرنے اپنی اس ملاقات میں مولانا سمیع الحق شہیدؒسے کہا کہ وہ افغانستان کوخوشحال ملک بنانے کے لیے امریکا اورنیٹو افواج کی مدد کریں امریکا کو بخوبی علم تھا کہ مولانا سمیع الحق شہید ؒہی وہ واحد ممتازشخصیت ہیں جن کوطالبان اپنا ولی اوراپنا سرپرست سمجھتے ہیں اوریہ ایک درست بات تھی امریکی سفیر نے انتہائی مئودبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے مولاناسمیع الحق شہیدؒ سے التماس کی تھی کہ ہمیں صرف ایک سال دیدیں ایک سال کے اندر افغانستان کودنیا کا خوشحال ترین ملک بنادیاجائے گا یہ سن کر مولانا نے امریکیوں کو جوجواب دیا وہ شاید ہی کوئی دے سکتا ہے مولانا شہید ؒنے دنیاوی حرص ولالچ سے ماورا ہوکر ٹھوس دلائل سے امریکی سفیر پر واضح کردیا کہ مسٹر ایکسی لینسی !افغانستان میں امریکا نے اپنے ٹروپس اتارکر تاریخ کی بہت بڑی غلطی کی ہے وہاں آزادی کے لئے ایک جنگ کا آغاز ہوچکا ہے یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک افغانستان کی سرزمین سے آخری غیر ملکی سپاہی چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو وہ واپس نہیں چلا جاتا۔ حق کو پوری ایمانداری کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا حق کی پہچان کا ایک خاص امتیازہوتا ہے مولاناسمیع الحق ؒاس اعتبار سے واقعی ایک جید حقیقی عالم دین تھے، وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے علمبردار تھے انسانیت کی بقا اور تحفظ پر مکمل یقین رکھتے تھے

اگر یہ کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مولاناسمیع الحق شہید ؒ محسن پاکستان تھے کہ جس وقت تحریک طالبان پاکستان نے پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کو غیر اسلامی قرار دیاتھا اور لوگوں کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پولیوکے حفاظتی قطرے نہ پلائیں تو حکومت وقت نے مولانا سے فتویٰ طلب کیا تو مولانانے اس مشکل وقت میں 9 دسمبر، 2013 ؁ء کو پولیو کے حفاظتی قطروں کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کیا۔

مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ نہایت عقلمند اور فہم و فراست کے مالک تھے۔ طبیعت سادہ اور نرم تھی۔ لیکن حق گوئی میں بے باک تھے۔ عقیدہ کے معاملہ میں کوئی رو رعایت نہیں رکھتے تھے۔ شہادت سے چند دن پہلے ایک مظاہرے کا بیان ان کی تڑپ اور حق گوئی کا منہ بولتا ثبوت ہے

  ؎رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے

تم سے تھے جتنے استعارے تھے

مولاناسیاسی میدان کے ساتھ ساتھ درس وتدریس سے بھی منسلک تھے، جامعہ حقانیہ کا مسند حدیث آج بھی مولانا کی راہ تک رہاہے، مولانا جس دن اسباق مصروفیات کی بنا پر نہ پڑھاتے توطبیعت خراب رہتی اورکہتے آج روحانی غذا سے محروم ہوں۔

مولاناشہید ؒ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مولاناشہید ؒ کے شاگرد آج پوری دنیا میں بالعموم اور خاص کر افغانستان کے ہر صوبے میں موجود ہیں۔

مولاناشہیدؒ عالم اِسلام کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جن کی آب و تاب سے ایک جہاں منور ہے۔ کسی کی رحلت پر لکھنا سہل نہیں ہوتا، لفظوں کاانتخاب سوچ پر حاوی ہوتا ہے اور زندگی بھر کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا، جب مرحوم عالم با عمل اور مفسر قرآن استاذالاساتذہ حضرت مولاناسمیع الحق شہید ؒ ہوں تو ان کی روشن زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی سعی بمشکل ہی پایہ تکمیل کوپہنچ سکتی ہے۔

مولاناشہید ؒ کو جس بے دردی سے درندوں نے شہید کیا اس کی مثال خلفاء راشدین کے دور میں تو ملتی ہے آج کے دور میں نہیں ملتی، خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو شہر نبی میں باغیوں نے اسی انداز سے جمعۃ المبارک کے دن شہید کیا، چھریوں کے وار حضرت شہید ؒ کے جسم پہ شہادت عثمان ذوالنورین کی یاد تازہ کر رہے تھے۔

آج حضرت کی اس مظلومانہ شہادت نے ہر آنکھ اشکبار، ہر دِل مغموم اور ہر روح کو بے چین کردیا۔

   ؎موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

موت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے یہ قدرت کا ایسا فیصلہ ہے نہ اس سے انکار ممکن ہے اور نہ فرار، یہ سلسلہ حضرت آدم ؑسے چلا آ رہا ہے اور قیامت تک ایسا ہی چلتا رہے گا۔ موت کے سامنے سب بے بس اور لاچارہیں مگر ایک عام آدمی کی موت سے محض اہل خانہ اور رشتہ دار متاثر ہوتے ہیں جبکہ ایک عالم دین کی موت سے ایک جہاں متاثر ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ موت العالم موت العالم یعنی ایک عالم دین کی موت پورے عالم کی موت ہے۔ حضرت شہید ؒ نے اپنے پیچھے صرف نسبیاولاد نہیں بلکہ روحانی اولادبھی کثیرتعداد میں چھوڑی ہے۔

 مولاناسمیع الحق شہیدؒ کی شہادت سے پاکستان و عالم ِ اسلام نے ایک عظیم قائد، شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، مفکر، مدبر، سرپرست اورشریعت کا ترجمان کھو دیا ہے، ان کی وفات علمی دنیا میں ایک بڑا خسارہ ہے۔ مولاناکا اس وقت دنیا سے چلاجانابالعموم عالم اسلام اور بالخصوص علم، دعوت اور جہاد کی راہ میں عظیم اور ناقابل ِ تلافی نقصان ہے۔

 ؎جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا

مولاناشہید ؒ ایک بہت بڑے عالم دین اور خادم دین و ملت تھے، ان کی پوری زندگی دعوتی ومجاہدانہ زندگی تھی۔ ان کا خاص امتیازی وصف معتدل فکر کو عام کرنا تھا، ایک مضبوط و مستحکم آواز کا نام مولاناسمیع الحق شہید ؒ تھا۔ مولاناشہید ؒ کی کامیاب زندگی کی گواہی مولانا کا نمازِ جنازہ دے رہاتھا کہ جس میں علماء ومشائخ، اولیاء اللہ و مجاہدین اسلام، طلباء، سیاستدان، عوام الناس کثیر تعداد میں شریک تھے۔

ان کی نمازِ جنازہ شہادت کے دوسرے دن ان کے صاحبزادے اور جانشین مولاناحامد الحق حفظہ اللہ نے پڑھائی۔

تاریخی اعتبار سے یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔ بالاخرحضرت مولاناسمیع الحق شہید ؒ بھی والد کے پہلو میں چلے گئے اور یہ اعلان کر گئے

   ؎ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں

   ہمیں خبر ہے عزیزو! یہ کام کس کا ہے

اللہ تعالیٰ حضرت شہید ؒ کی دینی وملی سیاسی وسماجی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اورحضرت کے متعلقین و خاندان حقانی کو صبرجمیل عطا فرمائے

تبصرے بند ہیں۔