حضرت مولانا علی میاں ندویؒ: یادوں کے جھروکے سے! (قسط 5)

محمد شاہد خان ندوی

حضرت مو لانا ایک مکمل اسلامی نظام زندگی کے قائل تھے، ان کی شدید خواہش تھی کہ طلبہ کے اندر صحیح اسلامی اسپرٹ پیداہو وہ اپنی زندگی پوری کی پوری اسلامی تشخص کے ساتھ گزاریں ، اساتذہ کی عزت کریں ، نمازوں کا اہتمام کریں ، عصری تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم میں اصالت پیدا کریں ، دنیا کے کسی بھی گوشے میں جائیں تو داعیانہ صفات کے ساتھ جائیں ، اپنے علم اور اپنے کردار کی بنیاد پرپہچانے جائیں ، حضرت مولانا طلبہ کے سامنے اکثر اپنے ان خیالات کااظہارفرماتے، مو لانا علم دوست انسان تھے اسلئے علماء کی بڑی قدر کیا کرتے تھے، ہند اور بیرون ہند کے نامور علماء اور اسلامی اسکالرس سے مو لانا کے روابط تھے، مو لاناان کے مقام ومرتبہ کے مطابق ان کا احترام کرتے اور ان کا تذکرہ فرماتے، مو لانا مودودی رحمہ اللہ کا تذکرہ بڑی عزت سے فرماتے اور مغربی تہذیب کے حوالے سے ان کے کارناموں کو سراہتے، خود مو لانا اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر’ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف فرماتے کہ ایک دفعہ انھوں نےمو لانا مودودی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ جب دنیا کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تو دنیا کو اس سے کیا نقصان پہونچا ؟ تو مولانا مودودی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ دنیا شتربےمہار ہوگئی، اسکے بعد حضرت مولانا نے اس کو اپنے غوروفکر کا موضوع بنایا اوروہ شہرہ آفاق کتاب تصنیف کی جو بعد میں ایک طرح سے ان کا وزیٹنگ کارڈ بن گئی۔

حضرت مولانا علامہ اقبال کے بڑے شیدائی اور مداح تھے اور ہر مسلمان میں اقبال کا ‘ مرد مومن ‘تلاش کرتے تھے، مو لانا کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ عالم عربی رابندر ناتھ ٹیگور سے توواقف ہے لیکن وہ اتنے بڑے مفکر اور شاعر اسلامی سے ناواقف ہے، چنانچہ مولانا نے عربی میں ‘ روائع اقبال ‘ نامی کتاب لکھی جو اردو میں ‘نقوش اقبال ‘کے نام سے مشہور ہوئی اور اس طرح سے مو لا نا نے علامہ اقبال سے عالم عربی کوروشناس کروایا۔ مو لانا علماء و مشایخ کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کرتے اور ان کی دینی غیرت و حمیت اور خدمات کو سراہتے، کسی تاتاری بادشاہ کا واقعہ اکثر بیان فرماتے کہ ایک دفعہ اس نے ایک مسلمان عالم دین کو اپنے دربار میں بلاکر پوچھا کہ تم اچھے یا میرا کتا اچھا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں دین اسلام پر مرا تو میں اچھا اور اگر میں کفر پر مرا تو یہ کتا اچھا، اس واقعہ سے وہ بہت متاثر ہوا اور پھر آگے چل کر اس نےاپنی پوری قوم کے ساتھ اسلام قبول کرلیا (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حضرت مولانا کی کتا ب ‘ تاریخ دعوت وعزیمت ‘میں موجودہے )۔

حضرت مولانا اپنی مجلسوں میں اکثرمولانا احمد علی لاہوری اورشیخ عبد القادر رائے پوری کا تذکرہ فرماتےاور ان سے اپنی گہری وابستگی کا اظہارفرماتے، ہمارے زمانہ میں مشائخ میں مو لانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمہ اللہ، قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ اور اکابر علماء دیوبند ومظاہر العلوم برابر ندوہ تشریف لا تے اور حضرت مو لانا طلبہ کو برابر ان سے استفادہ کی ترغیب دیتے، عالم عربی کےچوٹی کے علماء وادباء سے مولانا کے مراسم تھے، ان سے مسلسل خط وکتابت رہتی، عالم عربی کے علمی وادبی حلقوں میں مو لانا کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا اور مو لانا کی کتابیں حوالہ کے طور پر استعمال کی جاتیں ، مو لانا کے مزاج میں اعتدال پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ہم نے کبھی بھی کسی بھی فروعی مسئلہ میں مو لانا کو گفتگو کرتے ہوئے نہیں سنا، یہاں تک کہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بعض معروف اور متنازعہ فقہی مسائل میں اکثریت کو مو لانا کے موقف کا علم نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے لوگ برابر مو لانا کے پاس آتے، ان سے مشورے لیتے اور انھیں اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جماعت اہلحدیث اور جمعیۃ العلماء کے ذمہ دار ان حضرات برابر مو لانا سے ملنے ندوہ تشریف لاتے، اہلحدیث علماء میں مولانا مختار احمد ندوی،مو لانا عبدالرؤف جھنڈانگری اور مو لانا مقتدی حسن ازہری رحمہم اللہ برابر ندوہ تشریف لاتے، مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دفعہ مو لانا مختار احمد ندوی صاحب سابق امیر جمعیت اہلحدیث ہند نے جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں اپنے ایک خطاب میں ندوہ اور دیوبند کے سلسلے میں کچھ نامناسب بیان دے دیا تھا جو وہاں کے ترجمان ‘صوت الحق ‘میں شائع بھی ہوگیا تھا اس بیان کو لےکر ندوہ میں کافی ہنگامہ برپا تھا، مو لانا مرتضی صاحب مرحوم تو اس بیان سے کافی چراغ پا تھے، اتفاق سے اسکے چند ہی دنوں کے بعد ندوہ میں مجلس شوری کی میٹنگ ہونی تھی جس میں شرکت کیلئے مو لانا مختاراحمد ندوی صاحب مرحوم کو بھی آنا تھا بہرحال وقت مقر پر جب وہ تشریف لائے تو حضرت مولانا علی میاں صاحب نے ان سے اس سلسلہ میں ایک لفظ بھی نہیں کہا،ان کی یہی ادا تھی جو نظریاتی اختلاف کے باوجود ساری جماعتوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوئی تھی، مو لانا کا مزاج ندویت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا وہ نزاعی امور میں کرید کے بجائےمتفقہ امور پرزور دینے کے قائل تھے، یہاں تک کہ معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب صادق صاحب برابر حضرت مو لانا سے ملنے ندوہ تشریف لا تےوہ مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر بھی تھے اسلئے صلاح ومشورہ کیلئے اکثر دونوں میں گفتگو ہوتی، انھیں دونوں کی قائدانہ بصیرت کی وجہ سے لکھنؤ میں شیعہ سنی فساد پر کافی کنٹرول ہوگیا تھا،جب بھی کوئی بڑے عالم دین ندوہ تشریف لا تے تو مو لانا ان کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے اپنے پاس جگہ دیتے اور اسی کے مطابق ان کی توقیر فرماتے، اکثر لوگ جب مو لانا کو ندوہ میں نہیں پاتے تو شوق ملا قات میں کشاں کشاں تکیہ رائے بریلی پہونچ جاتے، یہ مو لانا سے ان لوگوں کی بے انتہا محبت کی دلیل تھی۔

مو لانا کے مزاج میں درویشی تھی، وہ تصوف بمعنی احسان کےقائل تھے، کچھ لوگوں نے تصوف کو موضوع بناکر جب مولانا پرتنقید کی تو مو لانا نے ‘ربانية لا رهبانية ‘ نامی بڑی معرکۃ الآراء کتاب لکھی اور اس کتاب میں ایک بڑا خوبصوت سا عنوان لگایا ‘ جناية ا لمصطلحات علی الحقائق والغايات ‘ مو لا نا نے بتایا کہ آپ اسے جو بھی نام دیں لیکن دین کی اصل غرض وغایت تو احسان ہی ہے، مو لانا نے کبھی بھی کسی پر کھل کر تنقید نہیں کی، البتہ جب کبھی مو لا نا کو یہ محسوس ہوتا کہ شریعت یا فکر اسلامی کی تعبیر وتشریح کے تئیں غلط فہمی پیدا ہورہی ہے یا غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے اور مصلحین امت ومشائخ دین و ملت کی کردارکشی کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہورہی ہے تب مو لانا اس موضوع پر مجبورا قلم اٹھاتے اور بڑے علمی اور مثبت انداز میں اس کا جائزہ لیتے۔

مولانا مسعود عالم ندوی صاحب سے کون واقف نہیں ہے، وہ ایک انتہائی قابل ندوی فرزند تھے اور حضرت مو لانا علی میاں صاحب سے سینئر تھے، مو لا نا ان کی علمی صلاحیتوں کی بڑی تعریف کرتے اور اکثر تصوف کے حوالہ سے حسرت سے کہا کرتے کہ کاش مو لانا مسعود عالم ندوی صاحب اس طرف بھی توجہ کرتے تو انھیں محسوس ہوتا کہ یہ بھی ایک دنیا ہے، حضرت مو لا نا علامہ اقبال کے ان اشعار کو اکثر گنگناتے:

دل کی دنیا دل کی دنیا، سوز ومستی جذب وشوق تن کی دنیا تن کی دنیا، سودوسودا مکروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

مو لا نا دوران طالب علمی ان کے ساتھ اپنے علمی مذاکروں اور استفادہ کا بھی حوالہ دیتے، مو لانا اپنے بارے میں فرماتے کہ میں ذہین طالبعلم کبھی نہیں تھا بلکہ میں ایک متوسط درجے کا طالبعلم تھا لیکن اخلاص اور امتیاز کی وجہ سے اللہ تعالی نے یہ مقام ومرتبہ نصیب فرمایا۔
( جاری)

تبصرے بند ہیں۔