ظالم ہی نہیں احمق اور جاہل بھی!

عالم نقوی

یہ حکمراں صرف فاشی اور ظالم ہی نہیں احمق اور جاہل بھی ہیں ! لوک سبھا  میں پاس ہونے والے تین طلاق  مخالف قانون نے یہ ثابت کر دیا ہے۔  اگر چہ ابھی راجیہ سبھا کا مرحلہ باقی ہے لیکن وہاں بھی اس کے پاس ہوجانے کے وافر امکانات موجود ہیں۔ لیکن دنیا میں دوام، ظلم و جہالت کو نہیں عدل و علم و یقین کو ہے، یقین اس رب کائنات کی ذات میں جس کے سامنے حاضر ہوکر سب کو ایک دن اپنے کیے کا حساب دینا ہے اور وہ دن بہت سخت ہوگا اور اس دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہوں اس کے مقابلے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ۔ ۔’’اللہ کی مدد چاہو اور صبر کرو۔ ۔زمین اللہ کی ہے۔ ۔اور وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اُس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری کامیابی اُنہی کے لیے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔ ۔قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم ہی کو زمین میں جانشین بنادے اور پھر دیکھے کہ تم کیا کرتے ہو (الاعراف۔ ۱۲۷۔۱۲۸ )

یہ وہ نصیحت ہے جو حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو اُس وقت کی تھی جب وہ فرعون کے مظالم سے تنگ آچکی تھی۔ اور وہی ہوا کہ با لآخر اللہ نے نے اپنا  وعدہ پورا کیا اور فرعون کو اس کے پورے لاؤ لشکر سمیت دریائے نیل میں غرق کر دیا۔ حضرت موسیٰ کی قوم کو نہ صرف مظالم سے نجات ملی بلکہ وہی اس سرزمین کے وارث بھی قرار پائے۔ اور ویسے بھی۔ ۔’’کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ (ابھی) تم کو ان لوگوں جیسی (بری ) حالت پیش نہیں آئی ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اُن پر سختیاں اور مصیبتیں آن پڑیں اور وہ ہلا دئیے گئے یہاں تک کہ( اُس زمانے کے) رسول  اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایہمان لائے تھے چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟خبر دار رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے (سورہ بقرہ۔ ۲۱۴)‘‘

درج ذیل اشعار کس کے ہیں ہمیں نہیں معلوم لیکن حسب حال ہیں کہ۔ ۔

آپ کی غلامی کا بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے

آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے

اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کیجے

آپ سے بہت آگے نقش ِ پا ہمارا ہے

غیرت ِ جہاد اپنی زخم کھا کے جا گے گی

پہلا وار تم کر لو، آخری ہمارا ہے !

ابھی حال ہی میں محترمہ پاروتی گوئنکا نے اپنی فیس بک وال پر بالکل صحیح لکھا ہے کہ ’’مسلمانوں کے عہد اقتدار میں ہندستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے متعددچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے  اِس ملک کو متحد کر کے ایک آزاد اور خود مختار ملک کی شناخت دی ورنہ مسلمانوں کی آمد سے قبل  قریب ایک ہزار سال تک یہ ملک  ایک دوسرے سے پیہم متحارب رہنے والے درجنوں ’ملکوں‘ سے پہچانا جاتا تھا ! یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ہندستان کو کچھ ایسی عظیم ا لشان تعمیرات دیں جو اپنے لازوال ملکوتی  حسن اور پر شکوہ فن تعمیر کے اعتبار سے آج بھی دنیا میں لاثانی  ہیں ! مسلمانوں ہی نے اس ملک کو ایک مربوط، مستحکم اور جامع نظام تعلیم دیا یہاں تک کہ فن تاریخ نویسی   بھی مسلمانوں ہی کی مرہون ِ منت ہے  ورنہ اس ملک میں چند’ لوک کتھاؤں ‘اور  ’قصے کہانیوں ‘کے سوا ’’تاریخ ‘‘نام کی کسی چیز کا وجود  نہیں تھا۔ گیارہویں  صدی عیسوی سے تیرہویں صدی  عیسوی تک بغداد  سمیت پوری دنیا منگولوں کے مظالم سے لرزہ بر اندام اور تباہ حال تھی لیکن یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ہندستان کو منگولوں کی اس عالمی   دہشت و بر بریت سے محفوظ رکھا، جو بذات خود  اس ملک اور تمام اہل ملک  کے لیے مسلمانوں کی  ایک عظیم خدمت ہے !

مسلمانوں کے عہد میں ’سونے کی چڑیا‘کہلانے والے  ہندستان کیمجموعی گھریلو پیداوار ( جی ڈی پی) ۲۷ فی صد تھی جو لٹیرے   سامراج  کے دو سو برسوں کے دور حکومت میں گھٹ کر ۴ فی صد سے کم رہ گئی۔ اور صرف اتنا ہی نہیں برطانوی پالیسیوں کے نتیجے میں چالیس لاکھ  ہندستانی  غیر فطری اموات کا شکار ہوئے۔ آج بی جے پی انگریزوں کی اسی ’لڑاؤ اور حکومت کرو ‘ کی انسان دشمن پالیسیوں پر عامل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی زریں تاریخ پر ناز ہے۔ وہ فی ا لواقع ہندستان کے معمار ہیں۔ ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔