حضرت ہاجرہ – پیکر ِ اطاعت واستقامت خاتون

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

   اسلامی تاریخ جن خواتین پر فخر کرتی ہے اور جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کی دلچسپ اورولولہ انگیز تاریخ رقم کی ان میں حضرت ہاجرہ ؓ کا  نام اہم ہے۔ جن کی زندگی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے بالعموم اور عورتوں کے لئے بالخصوص ایک پیغام اور سبق ہے۔ حضرت ہاجرہ ؓ حضرت ابراہیم ؑ کی وفاشعار اہلیہ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم ترین ماں تھی، ابنیاء کرام ؑکی فہرست میں یہ ایسا قابل ِ رشک گھرانہ ہے جس کا ہر فرد جذبہ ٔ عشق و محبت سے سرشار اور تسلیم ورضا کا پیکر تھا، اللہ تعالی کی محبت اور فنائیت میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ ؓ نے عجیب وغریب امتحانات دئیے اور رہتی دنیا تک ایک مثالی خاندان ہونے کی یادگار چھوڑگئے۔ حج جیسی عظیم عبادت میں انجام دئیے جانے والے بہت سے اعمال کا تعلق انہیں حضرات کی یادوں کو تازہ کرنا ہے اور بالخصوص صفا و مروہ کی بے تابانہ سعی تو حضرت ہاجرہ ؓ کی اداؤں کی نقالی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت ہاجرہ ؓ کی یہ بے قراری نے شرف ِ قبولیت حاصل کیا اور ہمیشہ کے لئے عبادت کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ حضرت ہاجرہ ؓ کی ایمان افروزکی زندگی سے یہاں ایک دوواقعے ذکر کیے جاتے ہیں۔

     اللہ تعالی نے جب حضرت ابراہیم ؑکو وفا شعار بیوی او ر شیر خوار بچہ حضرت اسماعیل ؑدو نوں کو لے جاکر ایک ایسی سرزمین پر چھوڑآنے کا حکم دیا جو ابھی غیر آباد تھی اور چاروں طرف صحرا وجنگل کا سناٹاتھا، چرند وپرند کا کوئی پتہ نہیں اور انسانوں کی آمد ورفت کا کوئی گمان نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑبے چوں چرا کچھ سامان ِ سفر لے کر ان دونوں کے ساتھ چل دئیے، وہ جگہ آگئی، حکم ہوا کہ ان دونوں کو یہیں چھوڑکر واپس ہوجاؤ، حضرت ابراہیم ؑپلٹ گئے، حضرت ہاجرہ پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی آنے لگی کہ:اے ابراہیم ؑ! آپ کہاں جارہے ہیں اور ہمیں ایسی وادی میں کیوں چھوڑرہے ہیں جہاں کوئی انسان اور شئی نہیں ؟حضرت ابراہیم ؑبرابر چلے جارہے ہیں، کوئی التفات ہی نہیں فرماتے۔ بالاخر ہاجرہ ؓنے پوچھا کہ : کیا یہی اللہ کا حکم ہے؟آپ نے کہا:ہاں !تب حضرت ہاجرہ ؓنے نہایت ایمان افروز جملہ کہاکہ: اذا لا یضیعنا: ٹھیک تب تواللہ ہم کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ جب حضرت ابراہیم کی نگاہوں سے وہ دونوں اوجھل ہوگئے تو آپ نے رقت انگیزدعافرمائی۔ (بخاری؛ حدیث نمبر:3136)حضرت ہاجرہ ؓکے ساتھ جو زاد ِ راہ کھجور اور پانی تھا وہ ختم ہوگیا، اور ان دونوں ماں اور بیٹے کو پانی کی شدت ہونے لگی، شیر خوار بچہ شدت سے بے قرار ہوجاتا اور رونے لگتا۔ حضرت ہاجرہ ؓاسماعیل ؑکے رونے کو دیکھ بے چین ہوجاتی، اسی بے چینی کے عالم میں آپ سب سے پہلے صفا پہاڑی تک گئی کہ کوئی نظر آجائے، لیکن دور دور تک صرف ریت اور صحرا کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا، ادھر بچے کی فکر میں دوڑ کر واپس آجاتی اور دوسری جانب مروہ پہاڑی پرجاتی اور اپنی نگاہوں کو دوڑاتی لیکن یہاں بھی کوئی نظر نہیں آتا، اس طرح آپ نے سات چکر پورے کئے، اسی حالت اضطراب میں تھی ایک آواز آپ نے سنی، آپ نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ کوئی آپ سے مخاطب ہے۔ وہ جبرئیل امین تھے، حضرت ہاجرہ ؓسے جبرئیل نے پوچھا کہ تم کون ہو؟حضرت ہاجرہ ؓنے فرمایا کہ میں ابراہیم ؑکے بیٹے اسماعیل ؑکی ماں ہاجرہ ؓہوں۔ جبرئیل نے پوچھا کہ ابراہیم ؑنے یہاں آپ دونوں کو کس کے سپرد کیا ہے ؟حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا کہ اللہ کے، جبرئیل نے کہا کہ پھر وہ تم دونوں کے لئے کافی ہے، پھر جبرئیل نے اپنی ایڑی سے زمین کو کریدا تو پانی ظاہر ہو گیا۔ ( فضائل ز م ز م و ذکر تاریخہ: ۳۱)یہی وہ مبارک پانی ہے جسے آب زم زم کہتے ہیں اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل ؑوہاجرہ ؓکو سیراب کرنے کے لئے اسے جاری فرمایا۔ پانی بڑی  تیزی سے نکلنے لگا، حضرت ہاجرہ ؓنے نوش فرمایا اور سیراب ہوئی، اور حضرت اسماعیل ؑکو دودھ پلایا۔ حضرت جبرئیل ؑیہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ تم اطمینان اور سکون سے رہو، اللہ تمہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا، تمہاری اس نشست گاہ پر تمہارے نونہال اسماعیل ؑاور اس کے والد کے ہاتھوں خدا کا گھر تعمیر ہوگا۔ ( تاریخ مکۃ المکرمہ :۸۳)نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ اسماعیل ؑکی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زم زم کو چھوڑدیتی یا وہ پانی کو چلوؤں سے نہ روکتی تو زم زم جاری چشمہ ہوتا۔ (بخاری:حدیث نمبر؛2206)

      حضرت اسماعیل جب چلنے پھرنے اور والد حضرت ابراہیم ؑ کا ساتھ دینے کے لائق ہوگئے، تقریبا ۱۳ سال کی عمر کو پہنچ گئے(روح المعانی:۲۳/۱۲۸بیروت)اور ماں باپ کے لئے ایک سہارا بن کر ابھرنے لگے اسی دوان پہلے دن حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں، صبح اٹھے توبڑی تشویش ہوئی اور تذبذب کا شکار رہے، دوسرے دن بھی اسی طرح دکھائی دیا، اب آپ سمجھ گئے کہ انبیا ء کے خواب جھوٹے نہیں ہوتے، یہی اللہ کا حکم ہے، صبح بیدار ہوئے تو حقیقت سمجھ میں آگئی تھی، اس خواب کا تذکرہ کرنے آپ اسماعیل ؑکے پاس آئے اور اپنے خواب کو بیان کیا۔ جیسا اطاعت گزارباپ تھا ویسا فرماں بردار بیٹا بھی، حضرت اسماعیل ؑنے فرمایاکہ:اباجان! آپ کو جوبھی حکم دیا جارہا ہے آپ اس کو پورا کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( الصٰفٰت :۱۰۱)حضرت ابراہیم ؑنے بیٹے اسماعیل  ؑکو تیار کروالیااوردونوں مل کر گھر سے چل پڑے، شیطان جو اب تک خاموشی سے اب تک کی کاروائی کو دیکھتا رہا، اور اس خوش گمانی میں تھا کہ باپ اپنے بیٹے کو کیسے ذبح کرنے لے جاسکتا ہے۔ کیوں باپ تو آخر باپ ہے؟لیکن جب اس نے حکم خدا کو پورے کرنے والے ابراہیم ؑکو یہاں تک کامیاب پایا اور آگے بھی اللہ تعالی کی مرضی کو پورا کرنے کا یقین ہوچکا۔ حضرت ہاجرہ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے خاوند بیٹے کو لے کر کہاں گئے ؟حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ جنگل میں کام سے لے گئے ہیں، اس نے کہاکہ نہیں بلکہ بیٹے کو ذبح کرنے، حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ وہ تو اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتے ہیں ایسا کیسے کرسکتے ہیں ؟شیطا ن نے کہا کہ ابراہیم ؑکا گمان ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے، جوں ہی حکم الہی کی بات آئی حضرت ہاجرہ نے بھی فرمایا کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو میں بھی اس کو تسلیم کرتی ہوں، شیطان اس اطاعت گزار و وفاشعار خاتون کو بہکانے سے نامراد لوٹ گیا۔ ( تاریخ الطبری:1/274مصر)شیطان کاخیال تھا کہ حضرت ہاجرہ کو عورت ذات ہونے کی وجہ سے بآسانی بہکالوں گا مگر حضرت ہاجرہ نے ایسا جواب دیا کہ اس کی ساری کوششیں ناکا م ہوگئیں۔

    حضرت ہاجرہ نے قیامت تک آنی والوں عورتوں کو یہ سبق اور پیغام دیا کہ اللہ کی محبت میں ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے، ایک سعادت مند خاتون کی سعادت مندی یہی ہوگی کہ حکم ِ الہی کو پورا کرنے میں وہ کسی قسم کا تذبذب کا شکار نہ ہو، اور اپنے خاندان کو بھی اس کے لئے ہمیشہ تیار رکھے، اس راہ میں کبھی رکاوٹ آنے نہ دے اور اللہ کی مرضی کو پورا کرنے میں شوہر کا ساتھ دے، ان کی یہی قربانیاں ہیں کہ اللہ تعالی نے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ان کے تذکروں کو زندہ رکھا اور ان کے ذکر میں ایک عجیب حلاوت اور ایمان افروزی کاسامان رکھا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔