حقوقِ انسانی اور اسلام

اسامہ شعیب علیگ

موجودہ دور میں ’حقوق انسانی‘ کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور یہ آج کا ایک زندہ موضوع (Burning Topic) ہے۔انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں اور کمیشن قومی اور بین الاقوامی سطح پر کام کر رہی ہیں۔جہاں بھی بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے ان کی طرف سے اس کے ازالے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن ان سب کے باوجودانسانیت خودغرضی کی وجہ سے حیوانیت اور درندگی کی طرف بڑھ رہی ہے اور انسان باہمی محبت،اخوت اور ہمدردی کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق غصب کر رہا ہے ۔آج بعض واقعات کا سہارا لے کر مخالفینِ اسلام کی پوری کوشش ہے کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں اسلام اور اس کی تعلیمات کو کم زور اور کم تر ثابت کیا جا ئے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عطا کردہ حقوق ہی انسانیت کے لیے باعثِ رحمت ہے ۔
اسلامی انسانی حقوق کی خوبیاں
اسلامی انسانی حقوق انسانوں کے تیار کردہ حقوق سے زیادہ جامع اور مختلف پہلوؤں سے ممتاز ہے:
(1)اسلام نے بنیادی حقوق انسانوں کو بذاتِ خود عطا کیے ہیں،حقوق کے لیے ان کو حکمرانوں سے جنگ نہیں کرنی پڑی۔افراد کو حقوق اس لیے حاصل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا مستحق قرار دیا ہے اور ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان حقوق کا تحفظ کرے اوراس کے نفاذ کی ہر ممکن کوشش کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
فالامام الذی علی الناس راع، و ھو مسؤل عن رعیتہ۔‘‘(1)
’’امام جو لوگوں پر حکمرانی کررہا ہے وہ ان کا نگراں ہے،اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
(2)اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ بنیادی حقوق دائمی ہیں اور غیر متبدل ہیں۔جن امور میں اس نے انسان کو آزادی دی ہے ،ان میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ، حتیٰ کی خلیفہ وقت یا پوری امت بھی مل کر اس میں تبدیلی نہیں کر سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کے عطاکردہ دستور کو مستقل حیثیت (Permanent Constitution)حاصل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِکَلِمَاتِہِ۔(2)
’’تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے۔کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں۔‘‘
(3)اسلام نے انسانی حقوق کی بنیاد مذہب پر رکھی اورواضح کیا کہ ’اقتدار اعلیٰ‘ کا حق انسان کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔قرآن کہتا ہے:
إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہ۔(3)
’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ۔‘‘
(4)اسلام نے عوام کے سامنے حکمرانوں کو جوابدہ بنایا اور انہیں اس بات کا حق دیا کہ اگر وہ حکمرانوں کو حقوق و فرائض کی ادائیگی میں غافل پائیں تو ان کا محاسبہ کریں،ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی درست نہ ہوں تو انہیں معزول کرکے دوسرے کو منتخب کر لیں۔امتِ مسلمہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ خلیفۂ وقت کو ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ٹوکا گیا اور انہوں نے برا مانے بغیر اپنی اصلاح کی۔
بعض اسلامی انسانی حقوق
اس میں اسلام کے پیش کردہ بنیادی انسانی حقوق کی وضاحت کی جائے گی اوریہ وہ حقوق ہیں جو بلاتفریق ملت و عقائد سب کو حاصل ہیں۔
زندہ رہنے کا حق
اسلام نے تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق دیا ہے،خواہ وہ کسی بھی قوم،ملک،علاقہ، مذہب اور فکر سے تعلق رکھتا ہو۔اس کے نزدیک کسی ایک کو بلاوجہ قتل کرنا تمام انسانوں کو قتل کرنا ہے۔قرآن کہتا ہے:
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعا۔(4)
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا۔اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخش دی۔‘‘
آزادی کا حق
اسلام نے انسانوں کو شخصی آزادی،غلامی سے آزادی،عقیدے کی آزادی،اظہارِرائے کی آزادی اورنقل وحرکت اور سکونت کی آزادی وغیرہ بخشی اور اس نے آزاد انسان کو غلام بنانے اور اسے بیچ دینے سے بھی منع کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
انی مخاصم من أمتی ثلاثۃ یوم القیامۃ ومن خاصمتہ خصمتہ رجل باع حرّاً،أو أکل ثمنہ۔ (5)
’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کے خلاف قیامت کے روز میں خود مستغیث ہوں گا۔ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے کسی آزاد کو بیچا یا اس کی قیمت کھائی۔‘‘
اسلام نے ہر فرد کو عقیدے کی آزادی دی ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ۔(6)
’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے،صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘
اسلام نے انسانوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی دی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف حق بات بولیں اور ملّی وملکی مسائل پر رائے دیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس سے برائی نہ پھیلے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری اور نقصان ہو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔انسان میں یہ صفت اسی وقت پیدا ہوگی جب اسے اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہو۔
ذاتی زندگی کا حق
اسلام نے ہر فرد کو ذاتی زندگی گزارنے کا حق دیا ہے اور اس میں کسی کی مداخلت ،ٹوہ،گمان،تجسس اورشک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔اسلام پرائیویسی کا اس قدر خیال کرتا ہے کہ اس نے کسی بلااجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے سے منع کیا۔قرآن کہتا ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا ۔(7)
’’ائے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو ۔‘‘
مزید یہ کہ اسلام نے خلیفۂ وقت کو بھی لوگوں پر بلاوجہ شک وشبہ کرنے اور ان کی جاسوسی کرنے سے روک دیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
انک ان أتبعت عورات الناس أفسد تھم أو کدت أن تفسد ھم۔(8)
’’اگر تم لوگوں کے پوشیدہ امور کی ٹوہ میں رہو گے تو انہیں بگاڑ دو گے یا بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔‘‘
مساوات کا حق
اسلام نے تمام انسانوں کو بغیر کسی امتیاز نسل و رنگ اور علاقے کے بحیثیت انسان مساوی قرار دیا اور فضیلت کی بنیاد تقویٰ پررکھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ حجۃ الوداع میں بھی اسی پر زور دیتے ہوئے ارشادفرمایا :
یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علیٰ عجمی و لا لعجمی علی عربی،ولا لاحمر علیٰ اسود ولا لاسود علیٰ احمر الّا بالتقویٰ۔(9)
’’لوگو!خوب اچھی طرح سن لو،تمہارا رب ایک ہے،تمہارا باپ ایک ہے۔خوب اچھی طرح سن لو۔نہ عربی کو عجمی پر فضیلت حاصل ہے،نہ عجمی کو عربی پر،نہ گورے کو کالے پر،نہ کالے کو گورے پر،اگر کسی کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل ہو سکتی ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر۔‘‘
عہدِ نبوی،خلافت راشدہ اور بعد میں آنے والے خلفاء نے ان احکام پر سختی سے عمل کیااور خلیفہ اور عوام،آقااور غلام،امیر اور غریب اور مسلم اور غیر مسلم کے درمیان انصاف میں اصولِ مساوات کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر تاریخ میں ملنا بہت مشکل ہے۔
عزت کا حق
اسلام نے نہ صرف انسان کے جان و مال کو ایک دوسرے پر حرام قرار دیا بلکہ ان کی عزت و آبرو کو بھی تا قیامت حرام ٹھہرایا ہے۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بہت مال و دولت اور جاہ ومنصب والا ہوبلکہ معاشرے کا ہر فرد اپنی پیدائش سے ہی عزت دار ہے اور اس کو اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ۔(10)
’’ائے لوگو!جو ایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرواورنہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔‘‘
عورت کا حق
اسلام نے جتنے حقو ق عورتوں کو دیے ہیں اس سے زیادہ آج تک کسی بھی ملک کے قانون نے نہیں دیے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ ۔(11)
’’عورتوں کے حقوق بھی معروف طریقے پر ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں،لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔‘‘
شریعت نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا، انہیں معاشرے میں برابر کا حق دیا،ان کا نان نفقہ متعین کیا،جائیداد میں ان کا حصہ متعین کیا،حق مہراور حق خلع دیااوران کی عزت و ناموس کی خصوصی پاسداری کی تاکید کی گئی۔اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزا متعین کی۔
جنگی حقوق
اسلام نے ہمیشہ اعتدال پسند اصول جنگ کی تبلیغ کی ہے اورجنگ کی اجازت صرف فتنہ و فساد اور ظلم وزیادتی کو روکنے، بدامنی کے ماخذوں کو ختم کرنے،امن وامان قائم کرنے ،انسانی زندگی کی جائز حفاظت اور حقیقی اقدار کے لیے دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فوجوں کو روانہ کرتے وقت انسانی حقوق سے متعلق باقاعدہ ہدایات دی جا تی تھیں۔چناں چہ آپؐ سپہ سالار اور فوج کو پہلے تقویٰ اور خوفِ خدا کی نصیحت کرتے پھر ارشاد فرماتے:
اغزوا بسم اللہ، و فی سبیل اللہ،قاتلوا من کفر باللہ،ولا تغلّوا، و لا تغدروا، و لا تمثلوا، و لا تقتلوا ولیداً۔(12)
’’جاؤاللہ کا نام لے کر اور اللہ کی راہ میں،لڑو ان لوگوں سے جو اللہ سے کفر کرتے ہیں مگر جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرو،غنیمت میں خیانت نہ کرو،مثلہ نہ کرو اور کسی بچہ کو قتل نہ کرو۔‘‘
بحالتِ جنگ انسانی حقوق میں سے چند کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
سفراء کے قتل پر روک
اسلام نے سفیروں کو قتل کرنے سے بھی روکا ہے،خواہ وہ کتنا ہی گستاخانہ پیغام لائیں۔مسیلمہ کذاب کا سفیر عبادہ بن الحارث جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا:
لولا أنک رسول لضربت عنقک۔(13)
’’اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تیری گردن مار دیتا۔‘‘
حالتِ غفلت میں دشمن پر حملہ کی ممانعت
اسلام سے قبل دشمنوں پررات یا رات کے آخری پہر میں غفلت کی حالت میں حملہ کیا جاتا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ صبح سے پہلے حملہ نہ کیا جائے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :
کان اذا جاء قوماً بلیل لم یغر علیھم حتیٰ یصبح۔(14)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی دشمن قوم پر رات کے وقت پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی حملہ نہ کرتے تھے۔‘‘
تکلیف دے کر قتل کرنے پر روک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو باندھ کر یا تکلیف دے کر مارنے اور قتل کرنے سے منع فرمایا۔حضرت ایوب انصاریؓ سے مروی ہے:
ینھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الصبر۔(15)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتلِ صبر(باندھ کر مارنے) سے منع فرمایا۔‘‘
آگ سے جلا کر مارنے پر روک
اسلام سے قبل جنگ میں قیدیوں یا دشمنوں کوآگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا:
لا ینبغی ان یعذب بالنار الا رب النار۔(16)
’’آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے اور کسی کو سزاوار نہیں۔‘‘
قیدیوں کے قتل پر روک
اسلام نے قیدیوں کے ساتھ برا سلوک کرنے ، نامناسب سزا دینے اور قتل کرنے سے منع کیا ہے اور حکومت کو اختیار دیا ہے کہ چاہے تو انہیں بلا فدیہ آزاد کر دیا جائے یا فدیہ لے کر آزاد کیا جائے۔قرآن کہتا ہے:
حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا۔(17)
’’یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو،اس کے بعد(تمہیں اختیار ہے) یا تو احسان کر کے چھوڑ و یا فدیہ لے کر،تا آں کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘
اسلام کی طرف سے انسانی حقوق کی ان بے مثال تعلیمات نے دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا ۔اس انقلاب کے لیے کل 19اور بعض روایتوں کے مطابق 27 غزوات(امام بخاری نے غزوات کی تعداد زید بن ارقمؓ کے حوالے سے انیس (19)لکھی ہے۔(18) اور 54سرایا اور بعض کے مطابق 56سرایا 2ھ سے 9ھ کے درمیان آٹھ سال کی مدت میں ہوئے۔اگران لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کر لیاجائے تو بھی ان میں مجموعی طور سے 259 مسلمان شہید ہوئے ۔مخالفین کی طرف سے مجموعی طور سے 759 افراد قتل کیے گئے اور6564 قیدی بنائے گئے،جن میں سے 6347 قیدیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ لطف و احسان بلا کسی شرط کے آزاد فرما دیا تھا۔(19)
اسلام کے عطا کردہ بنیادی حقوق سے واضح ہوتا ہے کہ یہ زیادہ جامع،مفصل اور مؤثر ہیں۔یہی وہ نظام اور ضابطۂ حیات ہے جو موجودہ دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے اور انسانی فلاح و بہبود کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے دنیا کے سامنے صحیح طریقے سے پیش کیا جائے۔
****

حواشی و حوالہ جات

(1) بخاری:7138
(2) الانعام:115
(3) الانعام:57
(4) المائدۃ:32
(5) مسند زید: 1/229
(6) البقرۃ:256
(7) النور:27
(8) أبوداؤد:4888
(9) مسند احمد:5/411
(10) الحجرات:11
(11) البقرۃ:228
(12) ترمذی:1617
(13) ابوداؤد:2762
(14) ترمذی:1550
(15) ابوداؤد:2687
(16) ابوداؤد:2675
(17) محمد:4
(18) بخاری:3949
(19) قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری،رحمۃ للعالمین،مرکز الحرمین الاسلامی،فیصل آباد،پاکستان،2007ء،جلد 2،صفحہ462-463

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔