مسئلہ طلاق شریعت کی روشنی میں

ساجدہ ابواللیث فلاحی

طلاق آج سماج کاایک اہم مسئلہ بن گیا ہے اوراس کی وجہ سے اسلام کے مخالفین و معاندین کو بھی اظہارِ مخالفت کا ایک زبردست حربہ ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ اسلام پر اعتراض ہے کہ طلاق کاحق عورت کو کیوں نہیں دیا جاتا ؟کسی کا اصرار ہے کہ تین طلاق پر پابندی کیوں نہیں لگا دی جاتی ؟ بعض کا کہناہے کہ اسلام میں مسلم خواتین کے ساتھ مساوات نہیں،کسی کا کہنا ہے مسلم مردوں کو چار شادیاں کرنے کا حق کیوں دیا گیا؟ عورت کو کیوں نہیں دیا گیا؟کوئی خواتین سے ہمدردی جتاتے ہوئے سوال اٹھاتاہے کہ مطلقہ کو گزارے کے لیے بھتہ پانے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ؟وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام سوالوں کے مکمل جوابات قرآن و سنت میں موجودہیں۔ اسلام صرف مسلمانوں کانہیں،تمام انسانوں کا مذہب ہے اس لیے مناسب ہے کہ تعصب و تنگ نظری کے بغیر اس کا عمیق مطالعہ کیا جا ئے ا ور وہیں سے ان کے جوابات حاصل کیے جائیں۔
موجودہ دور میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ جواس وقت مسلم پرسنل لابورڈ ،سپریم کورٹ اور مسلمانوں کے لیے ایک اہم موضوع ہے۔ اس پر ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ،امام احمدؒ ) اور جمہور کا مسلک اپنی جگہ متعدد دلائل کے ساتھ طلاق مغلظہ واقع ہو نے کو ثابت کرتا ہے جس کی رو سے زوجین کے درمیان جدائیگی لازمی ہے۔ دوسری طرف علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم ؒ جیسے جلیل القدر مجتہدین ہیں جو اپنے اجتہادی دلائل سے طلاق ثلاثہ کو ایک ثابت کرتے ہیں اور اپنے اس اجتہاد سے بحمداللہ ایک طرف بہت سے گھروں کو اجڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف حلالہ جیسے قبیح اور ناجائز فعل کے صدور کا بھی راستہ بند کرتے ہیں ۔ظاہر ہے دونوں کا ماخذ قرآن و سنت ہے، فرق محض تشریحات میں ہیں، لہٰذا اپنی صوابدید اور شرح صدر کے مطابق عمل کی گنجائش ہے ۔
سر دست جو کہنا مطلوب ہے وہ یہ کہ نکاح ایک میثاق غلیظ یعنی پختہ عہد ہے۔ اولاًاسے ٹوٹنا نہیں چاہیے ۔رسولؑ نے فرمایا:
النساء شقائق الرجال۔(ابو داؤد )
’’عورتیں مردوں کا حصہ ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
الا واستوصوا بالنساء خیرافانما عوان عندکم۔ ( ترمذی )
’’دیکھو !عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی نصیحت قبول کرو، وہ تمھارے لیے محض مدد گار ہیں۔‘‘
مختلف احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ طلاق کی شناعت و برائی کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسولؑ نے اسے نا پسند فرمایا ہے اور اسی طرح اس عورت کو بھی نا پسند فرمایا جو بغیر کسی معقول عذر کے اپنے شوہر سے طلاق مانگتی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ایما امرۃ سالت زوجھا طلاق فی غیر ما باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ۔( ابو داؤد)
’’جو عور ت اپنے شوہر سے بغیر کسی مناسب وجہ کے طلاق مانگتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو جاتی ہے ۔‘‘
اگرزوجین کے درمیان طلاق کی نوبت آہی جائے توطلاق کا وہی نسخہ استعمال ہونا چاہیے جو شریعت نے متعین کیا ہے تاکہ اگر مرض کے ازالہ اور شفایابی کی کچھ بھی امید باقی ہے تو وہ حاصل ہو سکے ۔شدید غصہ میںآخری حد کو پہونچ جانا اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو اجاڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ طلاق کا وہ نسخہ جو نا پسندیدگی کے ساتھ اسلام نے متعین کیا ہے وہ بھی یہاں ذکر کر دیا جائے ۔
طلاق سنت جس کا دوسرا نام طلاق مباح بھی ہے ،وہ یہ کہ آدمی اپنی بیوی کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق اس وقت دے جب وہ حیض سے فارغ ہو چکی ہو اور اس سے تعلق قائم نہ کیا ہو، یہیں سے اس کی عدت کا آغاز ہو گا۔اس صورت میں اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو عورت اور اس کے ولی کی مرضی کے بغیر عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے، کوئی نئی مہر متعین نہیں کی جائے گی ۔اگر بالفرض عدت پوری ہو گئی اور رجوع نہیں کیاتو اس کو بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے گا۔اس کے بعد افسوس ،ندامت اور پچھتاواظاہر ہو اور دونوں پھر سے باہم امن و سکون اور محبت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں تو تکمیلِ عدت کے بعدجب چاہیں ان کے لیے پھر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ اس کی گنجائش زندگی میں دو مرتبہ اسلام نے دی ہے(جو ظاہرہے غور خوض کا طویل وقفہ ہے ) البتہ اگر تیسری مرتبہ زندگی میں کبھی طلاق دی تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور رجوع کا حق باقی نہیں رہے گا۔(مجموعہ فتاویٰ ،علامہ ابن تیمیہؒ ،جلد 33 ،صفحات5-6 )
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکخ زوجاََ غیرہ ۔(البقرۃ:230)
’’ پھر اگر ( دو بار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی ، الاّ یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہواور وہ اسے طلاق دے۔‘‘
آج جس مسئلہ پر ملک میں زور شور سے بحث جاری ہے وہ ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق کا مسئلہ ہے ۔اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہؒ نے علماء سلف و خلف کے تین اقوال بیان کیے ہیں۔
(1)طلاق مباح ہے اور واقع ہو جائے گی ۔یہ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کی قدیم روایت کے مطابق ہے ۔
(2)طلاق حرام ہے اور واقع ہو جائے گی ۔یہ امام مالکؒ ،امام ابو حنیفہ ؒ اور امام احمد ؒ کی دوسری روایت کے مطابق ہے ۔ اکثر صحابہ نے اس کو اختیار کیا ہے اور سلف میں سے بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔
(3)طلاق حرام ہے اور صرف ایک واقع ہو گی ۔یہ اصحاب رسول ؑ کے سلف و خلف کے ایک گروہ سے منقول ہے اور بعض اصحاب ابو حنیفہ و مالک و احمد بن حنبل نے بھی اسے اختیار کیا ہے ۔(خود علامہ ابن تیمیہ ؒ کا اپنا اجتھاد بھی یہی ہے ۔)(مجموعہ فتاویٰ:جلد33،صفحات 7-8 )
بیک وقت تین طلاق دینا یقیناًبدعت اورممنوع ہے۔ اس طرح طلاق دینے والا گنہگار اور مجرم ہے ۔ حضرت عمرؓ کے عمل کی روشنی میں قابل سز ا بھی ہے ،لیکن چند نام نہاد مسلم خواتین کے مطالبے کو بنیادبنا کر مسلمانوں کے پرسنل لاء میں کوئی رد و بدل یا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں تمام مسلمانوں کے لیے ہی نا قابل قبول ہے۔امتِ مسلمہ کی خواتین نکاح و طلاق ،خلع و وراثت جیسے تمام ہی اسلامی احکام پر راضی و مطمئن ہیں،چندنام نہاد کے پیش نظراکژیت کے جذبات کو مجروح نہیں کیا جا سکتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
افغیر دین اللہ یبغون و لہ اسلم من فی السمٰوا ت و الارض طوعا و کرھا و الیہ یرجعون۔ (آل عمران :83 )
’’ اب کیا یہ لوگ اللہ کا طریقہ(دین اللہ )چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان ہیں۔‘‘
اسلام نے ا لطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔(البقرۃ:229) (طلاق دو مرتبہ دی جائے گی۔ اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسن سلوک کے ساتھ آزاد کردیا جائے گا)کے ذریعہ بوقت ضرورت جہاں طلاق کی اجازت د ی ہے، وہیں حدیث میں’ان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات۔لعن اللہ کل ذوّاقِ مّطلاق۔‘(اللہ مزے چکھنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا ،ہر طالب لذت بکثرت طلاق دینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے )کہہ کر سر زنش بھی کی ہے ۔لہٰذا چاہیے کہ جس طرح شادی کی جملہ تقریبات سر پرستوں اور بزرگوں کے مشوروں و رہنمائی میں انجام دی جاتی ہیں، اسی طرح علماء کی رہنمائی اور سر پرستوں کے مشوروں کو حاصل کرتے ہوئے جدائیگی کے افسوس ناک عمل کو بھی شرعی طریقہ پر پایہ تکمیل تک پہونچا یا جائے ۔
مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا وجود ہی اسلامی قوانین کی محافظت کے لیے ہے اورامت کے مسلما ن قوانین شرعیہ کے تحفظ میں مکمل طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں۔خواتین اسلام کسی بھی قیمت پر احکام اسلام سے دست بردار ہونے کو تیارنہیں ہیں اور ان کے نزاعات و اختلافات کا حل صرف اور صرف قرآن و سنت میں موجود ہے ان کے معاملات وہیں سے فیصل ہوں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجامما قضیت و یسلموا تسلیما۔ (النساء:65 )
’’اے محمد! تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ جملہ افراد امت کو دین کا صحیح فہم اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔