حقیقی قربانی

دستگیر نواز

آج کل یعنی ان دنوں سارے عالم میں ایک افرا تفری کا ماحول بنا ہوا ہے اس ماحول کی زد میں تمام عالم میں صرف اور صرف مسلمان ہی آرہے ہیں ایسا کیوں ؟ یہ ایک اہم مسلہ ہے، جی ہاں اس بات پر ہر ایک پہلو سے غور وفکر کی ضرورت ہے نہ صرف غور وفکر کی بلکہ کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی نکالنا ہوگا جسے اس افرا تفری کے ماحول پر کچھ نہ کچھ اثر پڑنا لازمی ہوجائے۔

جب ہم تمام عالم کے موجودہ حالات پر ایک سنجیدہ نظر دوڑاتے  ہوئے روز بہ روز رونماں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہماری دشمن بنی ہوئی ہے اور ہم یکا و تنہا ٹھیرے ہوئے ہیں ! لیکن ہمیں سوچنا چاہئے کہ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرناچاہئے؟ کیونکہ دنیا ہی دشمن بنی ہے دنیا بنانے والا تو نہیں پھر ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ،دراصل ہم دنیا بنانے والے کے احکام بھول چکے ہیں ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ مانگ مجھ سے اے بندے تجھے کیا چاہئے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے وعدے سے مکرنے والا نہیں ہم اگر مانگنگے تو ضرور بہ ضرور وہ عطا کرینگے،جو حالات سے ہم دوچار ہو رہے ہیں انہی حالات کا شکار ہمارے آبا و اجداد بھی ہوئے لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا اسکے بر عکس اللہ تعالیٰ سے مدد لیکر کامیاب و کامراں ہوئے،افسوس ہمارا حال تو اس شعر کے مماثل ہوگیا ہے

رہا نہ دل میں وہ احساس ِمدعاباقی  

نہ روح میں ہے وہ بے تابی باقی

پھر کیسے ہم حالات کی جکڑ سے اپنے آپکو آزاد کرا پاینگے۔

  تمام عالم میں جہاں ہم مظلوم بنے ہوئے ہیں اسکے بر عکس ہندوستان میں تو نہ جانے کیا کیا بن گئے ہیں ؟ مظلوم، مجبور، لاچار،لاغر وغیرہ وغیرہ ہم یہ سب کوئی خوشی خوشی تحریر نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک طویل انتظار کے بعد مجبور ہو کر قلم اُٹھاے ہیں اور گزارش کرتے ہیں اس تحریر کو کسی تنقیدوسازش کی نظرسے نہ دیکھا جائے نہ ہی آنکھوں پر فرقوں کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے اور نہ تو اسے شریعت،عقیدت اورطریقت کے نذریہ پر پرکھا جائے بلکہ اس تحریر کو موجودہ ہندوستان کے حالات کے تناظر میں اپنے آپکو رکھ کر کوئی فیصلہ کیجئے تاکہ کوئی انقلاب رونماں ہواب وقت آگیاہے کہ ہر فرد اپنی لڑائی آپ لڑے اور یہ حقیقی قربانی کی تجویذمیری طرف سے احتجاج کا ایک طریقاہے۔ ویسے بھی انگریزی کہاوت ہےEverybody Survive it self اور یہ حقیقت بھی ہے ہمارے پاس بھی تو کچھ اسطرح ہی کہا جاتا ہے نہ ــ’’ اپنا بوجھ خود ڈھونا پڑتا ہے‘‘یہ سیاست داں ،عُلما اور نام نہاد رہنما تو ہمیں اجتماع، اتفاق و اِتحاد کا درس ہی دیتے رہنگے،ہمیں سوچنا چاہئے کیا کبھی ان لوگوں نے اتفاق و اِتحاد کے لئے کوئی ٹھوس اور عملی اقدام بھی کیا ہے ؟ نہیں نہ پھر کیوں ان پر ہم بھروسہ کریں ؟ کب تک کریں ؟یہ شعر ان پر صادق آتا ہے

 دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم

اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام

پھر بھلا ان سے ہم کیوں کسی ہمدردی کی اُمید لگاے ہوئے ہیں ؟

 ہندوستان کے حالات پر تبصرہ کچھ اس طرح ہے کہ ہم یہ ہوش سنمبھالا جب سے لیکر آج تک دیکھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہاں کسی بھی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے اس کے درپردہ کس اہم شخصیات کا ہاتھ ہوتا ہے پہلے پہل یہ سب جاننا اور ماننابہت ہی دشوار کن عمل سمجھاجاتا تھالیکن آج اب موجودہ دور میں یہ سب آسان ہوچکا ہے Multi Media & Social Media نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ چند منٹوں کے اندر اندر رونماں ہوتے ہوئے حادثات،واقعات اور حالات کا کئی زاویوں سے خوب سے خوب تر جائزہ لیا جارہا ہے  پھر اس پر بحث ومباحثہ کا دور چلتا ہے سونے پر سہاگا کہ کوئی کچھ بتا تا ہے تو کوئی کچھ بتا تا ہے لیکن سمجھنے والوں کے لئے تو اشارہ ہی کافی ہے ورنہ اس شعر سی کیفیت ہو جاتی ہے

 یہ دیکھنے کی ہیں آنکھیں نظر نہیں آتا

کہ اب نگاہ میں عبرت نہیں ذرا باقی

 چند دنوں سے ایک نیا شوشہ یا فتنہ ہمارے یہاں چل پڑا ہے وہ ہے گائے اس گائے کے نام پر اتنا گانا بجانا ہو گیا ہے کہ بس خدا ہی خیر کرے چند مٹھی بھر گائے کے خیر خواہ ایک جانور کے نام پر انسانوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے پہلے پہل انکا نشانہ مسلمان ہی ہوئے اور کئی مسلمان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے،ان گائے کے گن گانے والوں کا جنون جو پروان چڑھنے لگا تو دوسرے قوم کے لوگ بھی انکا نشانہ ٹھرے حد تو یہ ہو گئی کے ان وحشیوں کی زد پر فرنگی بھی آگئے جو سیر و تفریحی کے لئے ہندوستان آتے  ہیں وہ بھی محفوظ نہیں اُنھیں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی Cow کے لئےCoward نے حملہ کیا تو شاید اُنکے دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں ضرور بہ ضرور یہ خیال آتا ہی ہوگا

  کچھ تو انسانیت کا بھرم چاہئے  

تم بھی انسان ہو ہم بھی انسان ہیں

 حالات برق رفتاری سے بد سے بد تر بلکہ بدترین ہو چکے ہیں کیا پتا کب کہاں اور کیسے یہ گائے کا فتنہ اُٹھ کھڑا ہو جائے ایسے حالات کے چلتے چلتے چند افراد یا پھر کچھ تنظیموں نےSocial Media کے ذریعہ یہ مہم چلا ر ہے ہیں کہ بڑے جانوروں کے بجائے چھوٹے جانوروں کی قربانی دی جائے مصلیتً یا پھر حالات سے گھبراکر، کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں ؟(ویسے بھی قربانی تو ایک مسلمان کو ہر ہر قدم پر دینی پڑتی ہے) ،اگر ایسا کرسکتے ہیں تو پھر یہ بھی کر دیکھتے ہیں ! نہ بقر نہ ہی بکر کیوں یہ عمل کیسا رہے گا؟

 دراصل ہم جو بھی قربانی دیتے ہیں چاہے وہ بقر ہو کہ بکر اسکا سارا پیسہ تو اُنھیں لوگو ں کے ہاتھ جاتا ہے جو آج نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ سے ہماری جان و ہمارے مال بلکہ ہمارے اسلام اور ہمارے ایماں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔کیوں نہ ہم قربانی کے جانوروں پر خرچ ہونے والی رقم اپنے کسی نہ کسی بھائی کی مدد میں صرف کریں ، کسی بہن وبیٹی کی شادی پر صرف کریں ،کسی کا قرض چکا ڈالیں ،کسی کا گھر بنا ڈالیں ،کسی یتیم ویسیر کو راحت پہنچا ڈالیں ،یہ نہ صرف وقت کا تخاذہ ہے بلکہ ظالموں کے منصوبوں پر زوردار تماچہ ہوگا ۔بس ٹھنڈے دماغ اور صاف دل سے غور وفکر کی ضرورت ہے انشاء اللہ فیصلہ لینے میں شیطان بھی رکاوٹ کھڑی نہ کر پائیگا۔سوچئے ہم قربانی کے نام پر کہیں ریاکاری،بدکاری،بدنظمی اور بد نیتی کا شکار تو نہیں ہوتے آرہے ہیں ۔

اس میں نہ دکھاوا ہے نہ ہی کوئی ڈر! آئے اس بار ہم بطوراحتجاج حقیقی قربانی دینے کی عملی کوشش کرتے ہیں ،جانوروں پر آنے والی لاگت سے کسی نہ کسی کا بھلا کرتے ہیں جو کہ حقیقی ضرورت مند ہو اس عمل سے ہم ایک ساتھ تین کام کر گزر جائینگے،

  پہلا کام   :  یہ کہ دل آزاری سے بچ جائینگے یعنی جو لوگ قربانی نہیں دے سکتے اُنکی دل آزاری نہیں ہوگی

 دوسرا کام   :  دشمنانِ اسلام کا گھاٹایعنی جانوروں کے بدلے ملنے والی  ایک بہت بڑی رقم رک جائیگی،

 تیسرا کا م  :  سب سے بڑا کام اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ حقوق العبادکو بہت ا ہمیت دی ہے اسکی ادائیگی میں ہوئی کوتاہی کی معافی بھی اپنے ذمہ نہیں رکھ لی سوچیئے،سمجھئے،غور کیجئے پھر فیصلہ کیجئے ! ایک بار پھر آپ سے التماس ہے للہ اسے حالات کے تناظر پر پرکھیے اور اپنی رائے سے نوازیئے۔ اس شعر کے ساتھ اپنا مضمون ختم کرتا ہوں

  آبرو شرط ہے انساں کے لئے دنیا میں

 نہ رہی آب جو باقی تو ہے گوہر بھی پتھر

تبصرے بند ہیں۔