حکمت سے ہے لبریز تو حیرت بھی بلا کی

حکمت سے ہے لبریز تو حیرت بھی بلا کی
ہر بات انوکھی تِری اے پیکرِ خاکی

مایوس مصیبت میں نہ ہو اے دلِ بے کس
تقدیر سے لڑ جاتی ہے تدبیر دعا کی

عقدہ نہیں کھلتا کبھی ناسازیِ دل کا
اے کاش رَسائی ہو کبھی ذہنِ رَسا کی

آنکھوں میں بکھر جاتی ہے یوں ہی کبھی سرخی
تنویر ہے شاید یہ تری سرخ ردا کی

دم گھٹتا نہ کیوں یار کے پہلو میں کسی دم
پابند ہر اک سانس رہی مہر و وفا کی

ٹوٹی ہے بس اک شاخ ہرے پیڑ سے راغبؔ
امید نہ بر آئی شر انگیز ہوا کی

تبصرے بند ہیں۔