سکون قلب کی تلاش نے اسلام سے آشنا ئی بخشی

وہ نیویارک کے ایک مال دار گھرانے میں پیداہوئی،جہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ کچھ بڑی ہوئی تو دوسری امریکی لڑکیوں کی طرح وہ بھی امریکا کے عظیم شہر کی گلیمربھری زندگی میں جاذبیت اور دلکشی کی دوڑ میں حصہ لینے اور اعزازات وکامیابیوں کے سنگ میل عبور کرنے لگی، لیکن بظاہرجس قدر سرعت سے وہ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتی جارہی تھی، اس کے اندرونی خلا اور بے اعتمادی میں اسی قدراضافہ ہوتاجاتاتھا،وہ کہتی ہے :’’میں ایک شدید قسم کی ذلت اور حقارت میں اپنے آپ کو ڈوباہوامحسوس کرتی تھی، میں فیشن کی غلام بن کررہ گئی تھی اورمیرا مصرف بس یہی رہ گیا تھاکہ دوسروں کی آنکھوں اوردلوں کو خوش کردوں، میرا معیار زندگی جتنا اونچا ہوتاجاتا تھا،اسی کے بقدر میرا اعتماد اتنا ہی گرتا جاتا تھا‘‘۔

اس نے ان حقائق سے راہ فرار اختیار کرناچاہا مگر فرار کے ہر موڑ پریہ سلگتے حقائق اس کامنہ چڑانے کیلئے موجود ہوتے تھے، آخر وہ زندگی سے اس قدر تنگ آگئی کہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح اس نے نشہ کی پناہ لی،ڈانس اور وائن کلبوں اور پارٹیوں میں جاکر دل بہلانا چاہا…مگرسب بے سود…جب عیاشی ومستی کی یہ دنیا بھی اس کے درد کا درماں نہ بن سکی تو اس نے مذہب کے سائے میں سکون کو تلاش کرنا شروع کردیا،لیکن خود تراشیدہ مذاہب میں سکون قلب کی دولت کہاں مل سکتی تھی !سو یہاں سے بھی اسے گوہر مراد ہاتھ نہ لگ سکا تو اس نے’’ ایکٹیوازم ‘‘کا سہارالیا،یعنی فلاحی اور اجتماعی تحریکوں میں حصہ لینے اور اس مشغولیت میں شب وروز زار کر سکون تلاش کرنے لگی …مگر’’ مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی ‘‘کے مصداق جس قدر وہ ترقی کے منازل طے کررہی تھی اور اس کالائف اسٹائل جیسے جیسے بلند ہورہاتھا،اس کے اندر کا خلا بھی بڑھتا جارہا تھا،اس کی اندرونی بے اعتمادی کی آگ اسے ایک ان دیکھے الاؤ میں جلاتی جارہی تھی۔

یہ دوہ دن تھے جب نائن الیون کا واقعہ ہو چکا تھا اور اسلام اوراسلامی اقداروتہذیب خطرناک حملوں اور تنقید کی زد میں تھے۔اب تک کبھی اس نے اسلام کو قریب سے دیکھنے،سمجھنے، جاننے اور جانچنے پرکھنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی،اس کے ذہن میں اسلام کے نام پر صرف چند نقوش تھے…خوں خوار دہشت گرد،سسکتی تڑپتی مظالم کی چکی میں پستی عورت،اسلحہ بردار دینی کارکن،عدم برداشت،اپنی بات جبراً دوسروں سے منوانے کے لیے تشدد، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو واجب القتل سمجھنا اور اپنے مخالفین سے جینے کا حق تک چھیننا…یہی تصورات تھے جو اس کے دل و دماغ میں اسلام کے حوالے سے جاگزیں تھے اور کسی بھی ماڈرن امریکی عورت کی طرح اس نے کبھی ان میں کسی تغیر کے لیے حقائق کی دنیا میں جھانکنے کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اب اس کی حیثیت ایک فیمینسٹ یعنی عورتوں کی آزادی کی علمبردار سماجی کارکن کی تھی۔  اس کام کے سلسلے میں اس کی ملاقات ایک سینئر سماجی کارکن سے ہوئی جو بلاتفریق ِ رنگ ونسل ومذہب،تمام انسانوں کے حق میں انصاف اور فلاح وبہبود کاداعی تھا۔یہ ملاقات اس کے لیے ‘‘ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ثابت ہوئی، اسے یوں لگا کہ جس سکون کی تلاش میں ا س نے در در کی ٹھوکریں کھائی ہیں، اپنے لائف اسٹائلز تبدیل کیے ہیں، مختلف پیشوں سے منسلک ہوئی ہے، وہ سکون اب اس سے زیادہ دور نہیں۔ وہ بیان کرتی ہے:’’اس شخص سے ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ انصاف،آزادی اوراحترامِ انسانیت کا تعلق کسی خاص دین ومذہب سے نہیں، بلکہ یہ آفاقی اقدار ہیں ‘‘۔

 اس شخص نے قرآن مجید کو ان آفاقی اقدار کا چارٹرقرار دیا تھا،اس نے سوچا قرآن کا مطالعہ کرکے دیکھے کہ کیا واقعی اس کی بات درست ہے؟سواس نے اس مقدس کتاب کا مطالعہ شروع کردیا۔ پہلے تو قرآن کے معجز نما اسلوب وانداز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا،اگر چہ وہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی پھر بھی اس کے ایک ایک لفظ سے اسے نور کی کرنیں پھوٹتی محسوس ہوئیں، اس کا دل بار بار گواہی دینے لگا یہ دوسری مذہبی کتابوں سے بالکل الگ، منفرد اور ممتاز کتاب ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان اور زندگی کے حقائق اور عبدومعبود کے رشتے پر جو روشنی ڈالی ہے، اس نے تو اسے مسحور کرکے رکھ دیا،اس نے دیکھاکہ قرآن نے اپنی بصیرت کا مخاطب براہ راست انسان اور اس کی روح کوبنایاہے۔اب اسے فرصت کا جو بھی لمحہ ملتا وہ اسے اس پاک کلام کی صحبت میں گزارتی،اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا خالق خود اس کے قریب آکر اس سے مخاطب ہے۔ قرآن حق کے متلاشیوں کی راہ نمائی کرتا ہی ہے بس ارادہ نیک اور ہدایت کے حصول کا ہو،سو اس کے دل کی بنجر زمین بھی قرآن کے نور ہدایت سے آباد ہونے لگی… اور آخرکار وہ لمحہ آگیا جب اس نے کلام ہدایت کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے سرِنیاز جھکادیا،قرآن کی آفاقی سچائی کوتسلیم کرلیا اوراسلام کے دامن ِرحمت سے وابستہ ہوگئی۔

اس کا کہنا ہے:’’ جس منزل کیلئے سرگرداں اور جس سکون کی دولت کو پانے کے لیے میں ایک عرصے سے بے تاب تھی، مجھے یقین ہوگیاکہ وہ صرف اسلام قبول کرکے ہی حاصل ہوسکتاہے، میری داخلی بے تابیوں اور اضطراب کا علاج صرف ایمان سے ہوسکتاہے اور میرے مسائل کا حل مہم جوئی میں نہیں عملی مسلم بننے میں ہے‘‘۔

اس نے ایک برقعہ اور سراور گردن کو ڈھکنے والا اسکارف خرید لیا جوایک مسلم عورت کا شرعی لباس ہے۔یہ لباس پہن کر اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ کسی گوشہ ٔ امن وعافیت میں آگئی ہے،جن راستوں، مارکیٹوں، پبلک مقامات اور لوگوں کے سامنے سے کچھ دن پہلے گزرتے ہوئے اس کے رگ وپے میں عدم ِ تحفظ کی سنسناہٹ دوڑ جاتی تھی، اب وہ وہاں سے گزرتی تو کوئی شہوانی نظر اس کا تعاقب نہیں کرتی تھی، ان آنکھوں میں اب تعجب اور دوری کے آثار تھے،جو پہلے مجھ کو ایسے دیکھتے تھے جیسے شکاری اپنے شکار کو اور باز ننھی چڑیا کو۔ حجاب نے اسے ایک خاص طرح کی غلامی اور ذلت سے نکال دیاتھا…وہی گھر بار،وہی انسانی حقوق کی جدوجہد،وہی خواتین کے حقوق کے لیے سرگرمی…غرض سب کچھ ویسا ہی تھا،بس ایک چیز بدلی ہوئی تھی، اور وہ تھا اس کااندرونی اطمینان وسکون،خوداعتمادی اور تحفظ کا احساس۔اس نے اسلام قبول کرنے کے بعدایک مسلمان سے نکاح کرلیا، اب وہ خود کو اور زیادہ محفوظ اور باوقار تصور کرنے لگی۔مخبر صادق ﷺ کا نکاح کو نصف ایمان کی تکمیل کا ذریعہ قرار دینے کا فلسفہ وہ سمجھ چکی تھی۔

اس کا دنیا بھر کی مسلمان عورتوں کے نام پیغام ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی ایک اچھا مسلمان بننے میں مدداوراپنے بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ استقامت کے ساتھ دین پر عمل کرتے ہوئے اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کیلئے مینارہ ٔنور بن جائیں،  یہ ان کی ایمانی ذمے داری بھی ہے اور دینی ومعاشرتی فریضہ بھی!

تبصرے بند ہیں۔