حکمت کی آرزو ہے نہ حیرت کی آرزو

حکمت کی آرزو ہے نہ حیرت کی آرزو

اہلِ جنوں کو شدّتِ وحشت کی آرزو

 رگ رگ میں جس کی جذب ہو مہر و وفا کا نور

دیوارِ عشق پر ہے اُسی چھت کی آرزو

 ہر شاخ پر لدے رہیں اُلفت کے برگ و بار

آئے نہ بر کسی کی شرارت کی آرزو

 دل کی تڑپ ہلاک ہی کر دے نہ اب ہمیں

شدّت کا ذوق و شوق ہے شدّت کی آرزو

 پروازِ فکر جانبِ ہفت آسماں رہے

پستی کا رُخ دکھائے نہ جدّت کی آرزو

 رسوا کہیں نہ کر دے تمھیں اے ہماری خاک

اِک پیکرِ غرور سے قربت کی آرزو

 نام و نشاں بھی مٹ گیا میرا تو غم نہیں

مٹنے نہ پائے حق کی حمایت کی آرزو

 کیسے بتاؤں کیسی قیامت اُٹھا گئی

صرف ایک آرزو پہ قناعت کی آرزو

 پوری کہاں ہوئی کبھی دربارِ عشق میں

"بے جبر التفات و عنایت کی آرزو”

 اب ذکر تک نہیں کہیں حرفِ جہاد کا

راغبؔ ہے سب کو مالِ غنیمت کی آرزو

تبصرے بند ہیں۔