اردو میڈیا زندہ باد

اب عام طور سے صحافت کے بجائے میڈیا کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی ہے جس میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو تو شامل ہوتا ہی ہے ’’سوشل میڈیا‘‘ کے نام سے جو چیز وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اس کو بھی میڈیا کا حصہ ہی تصور کرنا چاہیے۔ اتنا ہی نہیں انٹرنیٹ کوبھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ بہت ساری چیزیں انٹرنیٹ سے حاصل کرکے انھیں ضرورت کے مطابق میڈیا میں استعمال کیا جارہا ہے اوران اجزاء کو خاصی معتبریت حاصل ہے۔ اس تمہید سے میری غرض اپنے اس خیال کا اظہار کرنا ہے کہ اردو صحافت کے بجائے اردو میڈیا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب تک اردو صحافت صرف اخبارات تک محدود تھی اس کو صحافت کہا جاتا رہا لیکن اب تو ٹی وی پر اردو پروگرام آتے ہیں کئی اردو چینل ہیں، انٹرنیٹ پر اردو سائٹس موجود ہیں۔ الکٹرانی میڈیا میں جو طریقہ کار زیرِ استعمال ہیں جنھیں اصطلاح میں ’’ایپ‘‘ کہتے ہیں وہ سب اردو میڈیا میں بھی کارآمد اور زیر استعمال ہوتے جارہے ہیں۔ اخبارات اورر سالے تو بہت عرصہ سے انٹرنیٹ پر موجود ہیں اب آن لائن مطبوعات بھی آتی جارہی ہیں۔ مزید براں وہ مضامین اور کتابیں ہیں جو میڈیاکے فنی پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک اردو صحافت سے متعلق تصنیفات صرف مطبوعہ صحافت کا احاطہ کیا کرتی تھیں ان میں اکثر و بیشتر میں مطبوعات اور مدیران کی فہرست سازی ہوا کرتی تھی۔ ان تمام ترقیوں اور مجموعی حالات کے پیشِ نظر جن میں جدید ٹیکنالوجی کو کمال مہارت کے ساتھ استعمال کرنے والے صحافیوں کی روز افزوں تعداد بھی شامل ہے مناسب ہوگا کہ اب ہم اردو میڈیا کی بات کریں۔

چنانچہ اردو میڈیا سے متعلق ایک تازہ تصنیف ’’اکیسویں صدی میں اردو صحافت‘‘ ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کی یہ تصنیف کلکتہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کو دیکھتے ہی میرے اس خیال کی ایک بار اور تصدیق ہوگئی کہ اب اردو صحافت کی زندگی یا موت کی باتیں کرنی فضول ہیں۔ اب اس میڈیا کی پہنائیوں کی باتیں کرنی چاہئیں۔ اس تصنیف میں بہت کچھ ایسا ہی ہے۔ اس کتاب میں دو درجن سے زیادہ مضامین تقریباً اتنے ہی لکھنے والوں کے شامل ہیں اس لیے ڈاکٹر امام اعظم خود کو اس کتاب کا مصنف کہنے کے بجائے مرتب کہنے میں حق بجانب ہیں۔ مضامین کے تنوع کا اندازہ محض چند مثالوں سے کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’ادبی صحافت کا عصری منظر نامہ‘‘ (حقانی القاسمی) ’’اردو صحافت کا منظر نامہ ‘‘ (ڈاکٹر شاہد الاسلام) ’’ہندوستان کے دینی مجلات کی صحافت‘‘ (سہیل انجم)، ’’اردو صحافت اور روزگار‘‘ (نور الصباح)، ’’کولکاتا میں اردو صحافت‘‘ (ڈاکٹر امام اعظم) اسی طرح بہار، جھار کھنڈ، متھلا اور یوپی کے صحافتی منظرنامہ پر مضامین ہیں۔ مزید براں نصف درجن مضامین صحافت کے ٹیکنیکل پہلوؤں سے متعلق ہیں۔ یہ وہی پہلو ہیں جو میرے خیال سے اردو صحافت کو اردو میڈیا بناتے ہیں۔ مثلاً ’’اردو تحقیق اور انٹرنیٹ‘‘ (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)، ’’اردو وکی پیڈیا ایک جائزہ‘‘ (ڈاکٹر امام اعظم)، ’’سوشل میڈیا صحافت کی نئی معراج‘‘ (شاہد اقبال) وغیرہ۔

اردو اخبارات کے عروج و زوال کی کہانی لمبی ہے اور مختلف ادوار میں اس کے اسباب مختلف رہے ہیں اسی کے تذکرے کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے اور یہ ایسا مبسوط اور پیچیدہ موضوع ہے کہ شاید ہی کوئی اللہ کا بندہ  اس کی جسارت کرے لیکن اگر کبھی جزوی طور پر لکھا گیا تو وہ یقینا چشم کشا ہوگا اور اسی کو پڑھ کر یقینا کچھ دل بھر آئیں گی اور کچھ آنکھیں بھر آئیں گی۔ بہرحال جس قدر اردو اخبارات و رسائل اس وقت شائع ہورہے ہیں اور جس طرح چینلوں پر اردو سوار ہے وہ کافی حوصلہ افزا ہے۔ کچھ عرصہ سے اردو صحافت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق تصنیفات جس کثرت اور تواتر سے آرہی ہیں وہ بھی کچھ کم حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

اس تصنیف کے چند مضامین کا سرسری جائزہ برمحل معلوم ہوتا ہے۔ ’’ادبی صحافت کا عصری منظر نامہ‘‘ حقانی القاسمی کے قلم سے بہت خوب اور معلومات افزا ہے۔ انھوں نے ’’عصری‘‘ کا اضافہ کرکے بڑی زحمتوں سے جان چھڑا لی ہے۔ صحیح بھی ہے۔ ماضی کا بوجھ کب تک اور کہاں تک ڈھوتے پھریں لیکن کبھی کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ’’کولکاتا (کلکتہ) کی اردو صحافت‘‘ کے عنوان سے اپنی تحریر میں ماضی و حال کی تقسیم سے گریز کرتے ہوئے وہاں سے شائع ہونے والے تقریباً سارے نئے پرانے اخبارات و رسائل کی ایک جامع فہرست پیش کی ہے، یوں چھوٹی موٹی فروگزاشتیں ہمیشہ اور ہر جگہ ممکن ہوتی ہیں مثلاً ’’کارواں ‘‘ اور ’’نقاش‘‘ کے مدیر یونس نظری کے قریبی دوست عبدالجبار جابرؔ فیروز پوری اسی زمانے میں ماہنامہ ’’نباض‘‘ اور ہفتہ وار ’’ایشیا‘‘ نکالا کرتے تھے جس کا اداریہ میں ہی لکھتا تھا۔

امام اعظم کی تحریر میں اس انکشاف سے کہ ستمبر 1951ء میں مظہر امام کلکتہ آئے تھے مجھے ایک نامعلوم سی خوشی محسوس ہوئی کہ نوواردان کلکتہ میں ان سے میں تین چار مہینے سینئر تھا، میں جون 1951ء میں کلکتہ آگیا تھا، اس سے پہلے بھی مختصر قیام کرچکا تھا۔ امام اعظم نے بہار، جھارکھنڈ وغیرہ کے اخبارات و رسائل کو بھی شامل کرکے اپنے مضمون کو وسیع تر بنادیا ہے۔ ذاتی طور پر میں ڈاکٹر امام اعظم کا مشکور ہوں کہ کلکتہ میں کسی نے کسی تحریر میں میری بدقسمت کتاب ’’کلکتہ کی اردو صحافت اور میں ‘‘ کا تذکرہ تو کیا حالانکہ کئی لوگوں کو میں نے وہ کتاب بھیجی تھی، مغربی بنگال اردو اکادمی کو بھی دو جلدیں بھیجیں لیکن بالکل سناٹا رہا۔ یہی حشر میری دوسری کتاب ’’اوراقِ مصور‘‘ کا ہوا جو کہ کلکتہ کے ماضی وحال کی منظوم تاریخ ہے۔ کلکتہ کی منظوم تاریخ پر ’’تمثیل نو‘‘ کے ایک خصوصی شمارہ کا ذکر بھی ہے۔ معلوم نہیں اس میں بھی اس کتاب کی کوئی خبر ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ دونوں کتابیں میری دوسری کتابوں اور مضامین کے ساتھ میری ویب سائٹ www.Rizwanullah.comپر موجود ہیں۔

کلکتہ کے متعلق دو مضامین اور زیرِ نظر تصنیف میں موجود ہیں ایک ڈاکٹر نصرت جہاں کا مضمون ’’مغربی بنگال کی اردو صحافت میری نظر میں ‘‘ ہے اور دوسرا مضمون ’’اردو صحافت اور روزگار‘‘ نور الصباح کا ہے۔ نصرت جہاں کلکتہ کی صحافت سے متعلق کسی کتاب کی تصنیف کررہی ہیں۔ موجودہ مضمون اسی کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال ان کی تصنیف کردہ کتاب کا انتظار رہے گا۔ دریں اثناچند چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتادوں ’’آبشار‘‘ عام طور سے کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سالکؔ لکھنوی جو ایک کارخانے کے مالک سرمایہ دار تھے مگر نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھے، وہ ’’آبشار‘‘ کے مالک اور ابراہیم ہوشؔ کے ساتھ اس اخبار کے مشترک ایڈیٹر تھے۔ معین صاحب ان کے اقارب میں سے تھے اور وہ آبشار کے منیجر تھے۔ ابراہیم ہوشؔ کا معاملہ یوں تھا کہ ابتداً وہ احمد سعید ملیح آبادی کے ساتھ ’’آزاد ہند‘‘ کے مشترک ایڈیٹر تھے۔ غالباً مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے ایماسے ایسا ہوا ہوگا لیکن شاید 1952ء میں ان دونوں کے درمیان اختلاف ہوگیا اور ہوشؔ صاحب الگ کردیے گئے، اس کے بعد سالکؔ صاحب سے مل کر انھوں نے ’’آبشار‘‘ نکالا۔ جس سے وہ آخر دم تک وابستہ رہے۔

ایک اور ضروری بات یہ کہ میں ’’آزاد ہند‘‘ میں صرف مترجم نہیں تھا۔ نیوز ایڈیٹر تھا، ایڈیٹوریل رائٹر تھا۔ ’’عصرِ جدید‘‘ کے مینجمنٹ سے میرا جھگڑا اسی بات پر تھا کہ وہ حاضری رجسٹر میں میرے نام کے سامنے مترجم لکھتے تھے۔ میں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ میں عرصہ دراز سے وہاں نیوز ایڈیٹر تھا اگر انھیں یہ منظور نہیں تھا تو کم سے کم سب ایڈیٹر ہی لکھ دیتے لیکن اتنا اعزاز بخشنا بھی انھیں گوارا نہیں تھا۔بالآخر 18 سال کی خدمات سے صرفِ نظر کرکے مجھ پر ’’عصرِ جدید‘‘ کے دروازے بند کردیے گئے۔’’آزاد ہند‘‘ میں تو بڑے نازک وقتوں میں ایڈیٹوریل لکھنے کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی تھی۔ مثلاً بنگلہ دیش کی تشکیل کے ہنگامے کے دوران اس وقت احمد سعید صاحب اپنے وطن ملیح آباد چلے گئے تھے۔ 1962ء اور 1965ء میں اردو ایڈیٹروں کے ساتھ حکومت نے جو سلوک کیا تھا اس کے پیشِ نظر ان کا ایسا کرنا ایک طرح کی دانشمندی تھی لیکن ہم تو منجدھار میں تھے۔ 1975ء میں جب اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا تو احمد سعید صاحب نے اپنا لکھا ہوا ایڈیٹوریل واپس لے لیا اور مجھ سے کہا کہ تم لکھو، میں نے لکھا۔ لیکن اس طرح اخبار اور ایڈیٹر سب ایمرجنسی کی زد سے بچ گئے، جس کا اعتراف سعید صاحب ہر موقع پر کرتے رہے۔ یہ ساری باتیں میری کتاب میں موجود ہیں غالباً میری وہ کتاب نصرت جہاں کے پاس ہوگی۔ ایک ضمنی بات بھی اسی جگہ لکھنا چاہتا ہوں :’’ پیش بینی اور دور اندیشی کامیاب صحافت کے جوہر ہیں۔ ‘‘

دوسرا مضمون ’’اردو صحافت اور روزگار‘‘ نور الصباح کا ہے۔ ان کی کئی باتوں کاجواب میری کتاب ’’کلکتہ کی اردو صحافت اور میں ‘‘ میں موجود ہے۔ کلکتہ کے اردو صحافیوں نے اپنی انجمن بنائی تھی جس نے بعض صحافیوں کی مشکل وقتوں میں مدد بھی کی لیکن وہ بہت جلد ذاتی چپقلشوں کی نذر ہوگئی۔ انڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی مغربی بنگال شاخ موجود تھی اور پریس کمیشن کی رپورٹ کے بعد کافی فعال بھی ہوگئی تھی۔ میں خود اس کا ممبر تھا۔ اس کی اکزیکیوٹیو کمیٹی کا بھی ممبر رہ چکا تھا۔ اخبار نویسوں کو بہکانے اور اردو اخباروں میں ہڑتال کرانے کی بے بنیاد تہمت بھی مجھ پر لگائی گئی۔ اس کم ظرفی سے بد دل ہوکر میں نے ایسوسی ایشن کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت میں آزاد ہند سے وابستہ تھا اس سے بھی علیحدہ ہونا چاہا لیکن سمیع اللہ اور منیر نیازی مجھے پکڑ کر دوبارہ ’’آزاد ہند‘‘ لے گئے۔ میں نے ان سارے واقعات کا تفصیل سے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن اس بدنصیب کتاب کا کلکتہ میں کہیں ذکرنہیں آیا۔ حالانکہ میں نے بہترے لوگوں تک اس کتاب کو پہنچایا ہے۔

جیسا کہ عرض کرچکا ہوں اردو صحافت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزا بات اردو زبان و ادب کے بے پناہ ذخائر کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ارض و سما کی وسعتوں میں پھیلادینے کا عمل ہے۔ اس طرح ہماری یہ بیش بہا متاع زمانے کی دست برد اور شکست و ریخت سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ اس ساری کارروائی کے لیے متعلقہ ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کرنے کے نت نئے عوامل کو ایجاد کرنے والوں کے ہم ممنون احسان اور شکر گزار ہیں لیکن اس کے بعد اس سے استفادہ کے طریقوں کو جاننا بھی تو ضروری ہے، اس کے بغیر تو سارے کا سارا کیا دھرا بے کار اور بے سود ہے۔ زیرِ نظر کتاب کے آخری نصف درجن مضامین میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہماری متاع گم گشتہ کن کن نہاں خانوں میں محفوظ ہے اور اس کی کلید کہاں ہے کہ جس سے اس خزانے کو کھول کر روح کی تازگی اور دماغ کی روشنی کا سامان کرسکیں۔ یہ مضامین ہیں : ’’اردو تحقیق اور انٹرنیٹ‘‘ (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)، ’’اردو زبان اور ادب انٹرنیٹ کے دوش پر‘‘ (ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز)، ’’ادب و ثقافت کے فروغ میں انٹرنیٹ کا کردار اور اردو‘‘ (احمد جاوید)، ’’اردو وکی پیڈیا ایک جائزہ‘‘ (ڈاکٹر امام اعظم)، ’’سوشل میڈیا صحافت کی نئی معراج‘‘ (شاہد اقبال)، ’’اس کتاب میں کتابیات کیوں ؟‘‘ (ڈاکٹر حیدر علی) یہی مضامین اس کتاب کی حقیقی افادیت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ انہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر کیا کچھ ہے اور کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر حیدرعلی نے صحافت سے متعلق اردو کتابوں کی ایک مبسوط فہرست دے کر اس کتاب کی افادیت میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ اس فہرست میں 86 کتابیں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سہیل انجم کی کوئی نصف درجن کتابوں میں سے صرف ایک اس فہرست میں شامل ہے۔ میرا قیاس ہے کہ اور بھی کئی کتابیں اس میں شامل ہونے سے رہ گئی ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک تکمیلی عمل کا تسلسل ہے اور اضافوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک تصحیح ضروری معلوم ہوتی ہے ص 293 پر ’’کاروانِ صحافت‘‘ کے مصنف کانام ’’عبدالسالم خورشید‘‘ لکھا ہوا ہے۔ میرے خیال سے ان کا صحیح نام ’’عبدالسلام خورشید‘‘ ہے۔ اس سے پہلے 1960ء والے عشرے میں ان کی ایک کتاب ’’صحافت پاکستان و ہند میں ‘‘ شائع ہوچکی تھی جو دراصل 1955ء میں شائع ہونے والی جے نٹراجن کی تصنیف ہسٹری آف انڈین جرنلزم کا چربہ یا ایک طرح کی جوابی کارروائی تھی کیونکہ 1950ء سے پہلے کی ہندوستان کی تاریخ صحافت تو ایک ہی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے خوشی ہے کہ اس فہرست میں میری تصنیف ’’کلکتہ کی اردو صحافت اور میں ‘‘ شامل ہے گو اس کا پتہ غلط لکھا ہوا ہے۔ اس کاپتہ ہے : ڈی-178، ابوالفضل انکلیو (نہ کہ شاہین باغ)، جامعہ نگر، نئی دہلی-110025۔

اب ایک اور موضوع – اردو صحافت پر تو بہتری زیبا اور نازیبا تہمتیں لگائی جاتی رہی ہیں، جیسے کہ صرف ترجمہ پر کااس کا انحصار، مالی اعتبار سے کمزور، پسماندہ لوگوں کااخبار، سرقے کامرتکب وغیرہ گویا بقیہ ساری صحافتیں، اب میڈیا کہہ لیجیے، ان کمزوریوں اور خامیوں سے پاک ہیں۔ اب اس کتاب میں سید ایاز احمد روہوی کے مضمون ’’اردو میں زرد صحافت‘‘ میں ساری اردو صحافت ہی کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ یعنی زرد صحافت قراردیا گیاہے۔جبکہ مضمون میں ’’زرد صحافت‘‘ کی جڑیں انیسویں صدی کے اواخر میں امریکہ میں بتائی گئی ہیں پھر دنیا بھر کے میڈیا میں اس کے پھیلاؤ کے تذکرے ہیں۔ اس کے بعد اچھی صحافت کے اصول بیان کیے گئے ہیں لگے ہاتھ مضمون کے عنوان کی رعایت سے کچھ چھینٹے اردو صحافت پر بھی اس طرح اڑا دیے گئے ہیں گویا اردو صحافت میں سنجیدگی کا وجود ہی نہیں۔ حیران ہوں کہ اس بارے میں کیا لکھوں۔

زرد صحافت اور اردو اخباروں میں شائع ہونے والے طنزو مزاح کے مضامین یاکسی کسی اخبار میں اس نوع کے مستقل کالم ان دونوں میں بڑا فرق ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح کے تفریحی مضامین یا خصوصی کالم ایک طرح سے فرحت کا سامان فراہم کرتے تھے اور پریشان کن خبر وں کی بھرمار سے ایک طرح کا گریز تھا۔ یہ اردو اخبارات کی خصوصیت تھی اب بھی کہیں کہیں باقی ہے۔ مثال کے طور پر نصرت ظہیر کا زیادہ طنزیہ، مزاحیہ کالم جو پہلے راشٹریہ سہارا میں ہوا کرتا تھا اب انقلاب میں ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک پڑھنے کی چیز ہے وہ نئی نئی اصطلاحات گڑھتے ہیں، نئے نئے الفاظ و محاورات سے متعارف کراتے ہیں۔ پوری تحریر میں بڑی ندرت ہوتی ہے۔ اس طرح کے کالم لکھنا بہت مشکل ہے۔ ایڈیٹوریل سے بھی زیادہ مشکل۔ ان تحریروں میں کبھی کبھی ایسی چٹکیاں ہوتی ہیں کہ متعلق شخص اس کی جراحت سے بے چین ہوجاتا ہے لیکن کچھ کہہ نہیں سکتا۔ پھر ایسی تحریروں کا مستقل کالم کی صورت میں وقت معین پر لکھنا بڑے کلیجے کا کام ہے۔ یہ تو کوئی مجتبیٰ حسین سے پوچھے۔ یہی کام انگریزی صحافت میں کارٹونوں سے لیا جاتا ہے۔ لافانی لکشمن کے کارٹون جس نے دیکھے ہوں گے وہ جانتا ہوگا۔ کسی کسی اور کبھی کبھی انگریزی اخباروں میں بھی بڑے دلچسپ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین آتے ہیں۔ اس طور کے مضامین کے لیے زبان پربڑی قدرت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اردو اخباروں میں ایسا ضرور ہوا ہے کہ اس بے تکلفی میں بعض لکھنے والے تجاوز کرگئے ہیں اور کہیں کہیں ذاتی عناد کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ اس کی بدترین مثالیں بھی میں نے کلکتہ کے اردو اخباروں میں دیکھی تھیں۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر اردو صحافت کوزرد صحافت کہنا بڑی ناانصافی ہے اور حقائق کے منافی ہے۔ زرد صحافت بے بنیاد خبروں، گمراہ کن مبالغوں اور غیر مہذب زبان کے استعمال کو کہتے ہیں۔ اس وقت میں اس کی مثالیں دینا مناسب نہیں سمجھتا۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ایسی مفید اور قابل حوالہ کتاب کو مرتب کرنے پر ڈاکٹر امام اعظم صاحب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ بقول غالبؔ ’’دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‘‘ میں ڈاکٹر امام اعظم صاحب سے امید کرتا ہوں کہ کلکتہ کے صحافیوں کے نقوش بھی اجاگر کریں گے کیونکہ اب تک تو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ کلکتہ میں صرف تین قابل ذکر صحافی پیدا ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور احمد سعید ملیح آبادی۔ اور بس۔ کلکتہ کی اردو صحافت سے ان کے علاوہ بھی ابراہیم ہوش، شین مظفر پوری، سید محمد مصطفی صابری، رئیس الدین فریدی وغیرہ کے علاوہ بھی کئی شخصیات وابستہ رہ چکی ہیں۔ مثلاً پروفیسر جاوید نہال، جن لوگوں نے اپنے لہو سے کلکتہ کی صحافت کی شمع روشن رکھی انھیں فراموش کردینا بڑی ناسپاسی اور خود اس صحافت کی مجموعی تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔