علامہ اقبال سہیل

علامہ  اقبال احمد خان ’’سہیل‘‘ (1884۔1955) اگرچہ بطور شاعر زیادہ معروف ہیں لیکن حقیقت ہے کہ وہ ایک جامع کمالات شخصیت تھے۔سہیل جتنے بڑے  شاعر تھے، ‌اتنے ہی بڑے وہ اسلامی اسکالر، وکیل، سیاستداں، مجاہد آزادی،خطیب اور ماہر تعلیم بھی تھے۔ اگرچہ انہوں نے صرف ایک کتاب ، یعنی "حقیقت ربا” ،  کے علاوہ کوئی تصنیف باقاعدہ شائع نہیں کی لیکن ان کی کلیات مختلف عناوین سے شائع ہوتی رہی ہے جسے دوسرے  لوگوں نے مرتب کیا۔ان کے کلام کا پہلا مجموعہ محمد حسن کالج جونپور کے ایک خصوصی شمارے کی صورت میں شائع ہوا۔

اس کے بعد علامہ  اقبال ’’سہیل‘‘ کے نواسے عارف رفیع نے مزید اضافوں کے ساتھ ’’کلیات سہیل‘‘ کو کئی بار شائع کیا۔افتخار اعظمی نے ’’ارمغان حرم ‘‘اور ’’تابش سہیل‘‘نامی کتابوں میں  سہیل کے کلام اور ان کے احوال زندگی کو بڑی حد تک جمع کردیا ہے۔ ان پر متعدد تصانیف لکھی گئی ہیں اور پی ایچ ڈی کے مقالات بھی تحریرکئے گئے ہیں۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ علامہ اقبال سہیل کی معرکۃ الآراء کتاب’’حقیقت ربا‘‘کو میں نے ایڈٹ کرکے تقریباً ۲۰سال قبل نہ صرف  اردو میں دوبارہ چھاپا بلکہ اس کا ترجمہ کرکے عربی اور انگریزی  زبانوں میں بھی شائع کیا۔

یہ کتاب بتاتی ہے کہ علامہ  اقبال سہیل نہ صرف ایک جید عالم تھے بلکہ مسائل پر ڈگر سے ہٹ کر بھی سوچنے اور لکھنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم رکھتے تھے۔ مذکورہ کتاب لکھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان جدید معاشیات اور بینکوں کے سسٹم سے کٹنے کی وجہ سے اقتصادی طورپرمسلسل ابتری اور تنزلی کا شکار ہورہے تھے۔  اقبال سہیل نے بہت باریک بینی سے ’’ ربا‘‘کا تجزیہ کیا اور حالات پرتطبیق کرتے ہوئے بتایا کہ بینکوں سے ملنے والا موجودہ منافع وہ ’’ربا‘‘نہیں ہے جسے اسلام نے منع کیا ہے۔ سنہ 1936 میں اس کتاب کے چھپنے پر بڑا  ہنگامہ  برپا  ہوا جس کی وجہ سے اس کی کاپیاں تلف کردی گئیں اور اس پر جو گفتگو ہونی چاہئے تھی وہ نہ ہو سکی۔

افسوس ہے کہ اس کتاب کے لکھنے کے تقریبا80 سال بعد بھی یہ مسئلہ مسلم قوم کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے اور وہ معاشی طورپرمسلسل تنزلی کا شکار ہورہی ہے ۔ اس کتاب کی جدید اشاعت پر تقریباً 20 سال گذر چکے ہیں لیکن دوسرے نقطۂ نظر کے حامل افراد اس کا جواب نہیں دے سکے ہیں۔ یہاں میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ  مسلمانوں کے آپسی معاملات اور سماجی لین دین میں ربا قطعا حرام ہے ۔ علامہ اقبال سہیل نے جس ربا کو جائز  قرار دیا ہے وہ دارالحرب کے اندر تجارتی معاملات پر ہے۔

اپنی دوسری مصروفیات کےساتھ  اقبال سہیل شبلی کالج کو چلانے والی‌تنظیم اعظم گڑھ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی  اور دار المصنفین کی انتظامیہ کمیٹیوں کے عرصۂ دراز تک ممبر بھی رہے۔ وہ کانگریس پارٹی کی طرف سے 1937میں یوپی لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انتخابات میں مسلم‌لیگ کے سید علی ظہیر کو ہرایا۔ علامہ  اقبال ’’سہیل‘‘ انگریزی سامراج اور تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے۔

 اقبال سہیل کی ابتدائی دینی تعلیم اپنے زمانے کے جید عالم مولانا محمد شفیع کے ہاتھوں ہوئی جو مدرسۃ الاصلاح کے بانی تھے۔بعد میں انہوں نے علامہ شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا۔ 1914میں بنارس کے کوینزکالج سے بی اے کرنے کے بعد انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی(اس وقت کا اینگلو محمڈن کالج )سے 1914۔1918کے دوران ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں لیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر رشید احمد صدیقی وغیرہ ان کے اس زمانے کے ساتھی تھے۔مؤخر الذکر نے اپنی کتاب’’ آشفتہ بیانی میری‘‘میں مولانا اقبال سہیل کی ذہانت اور خطابت کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہےاور اعتراف کیاہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اقرار کیا ہے کہ اس زمانے کی‌ان کی بہت سی تقریریں علامہ  اقبال سہیل نے لکھی تھیں۔

میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے علامہ اقبال سہیل کو یاد رکھا اور آج یہاں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کرکے  ان کو خراج عقیدت  پیش کررہے ہیں۔ ایسی عظیم شخصیتوں کے کام کو یاد کرنے سے نئی نسل کو بڑا حوصلہ ملتا ہے کہ جب بہت محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے بزرگ اتنے اتنے بڑے کارنامے کرسکتے تھے تو  آج  ہم بھی اپنے اور اپنے آزاد ملک کے بے شمار وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی قوم،ملک اور دنیا کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔