شادی کے شرعی اور غیر شرعی طریقے

 شادی مسرت و شادمانی کا پیغام: شادی زندگی کا اہم ترین اور نہایت خوشگوار واقعہ ہے ، جو اپنے ساتھ مسرت و شادمانی اور فرحت و انبساط کا پیغام لاتا ہے۔ مرد گرم جوشی سے اپنے گھر کو رونق بخشنے والی رفیقۂ حیات کا استقبال کرتا ہے اور اقربا و احباب نو بیاہتے جوڑے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ خوشی کی یہ فضا یقینا جاں افزا ہوتی ہے۔ اسلام ان فطری امنگوں کو پورا کرنے کا سامان کرتا ہے اور حقیقی خوشی کی دولت اسے عطا کرتا ہے۔ اس نے شادی بیاہ کے ایسے طریقہ رائج کئے ہیں جن میں اظہارِ مسرت بھی ہے اور خوشنودی رب بھی۔ مثلاً نکاح پر مبارکباد، نکاح کے اعلان کیلئے دف بجانا، گھر میں بچیوں کا مباح گیت گانا، شوہر کی طرف سے بیوی کو مہر کا ہدیہ اور دعوتِ ولیمہ وغیرہ۔ لیکن ان مور میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ کوئی بات شرعی حدود سے متجاوز اور اسلام کی عام تعلیمات کے خلاف نہ ہو ۔ اسی لئے اسلام نے شادی کے موقع پر تقویٰ اختیار کرنے کی سخت تاکید کی ہے۔ چنانچہ خطبۂ نکاح میں جو تین آیتیں پڑھی جاتی ہیں ، ان میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی صریح ہدایت کی گئی ہے۔ گویا اسلام کے نزدیک شادی اس خوشی کا نام نہیں ہے جس میں آدمی خدا کوبھول جائے اور من مانی کرنے لگے، بلکہ اس خوشی کا نام ہے جس میں وہ خدا شناسی اور خدا خوفی کا ثبوت دے۔

 اسلام جو اوصاف اپنے پیروؤں میں دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ اعتدال پسند ہوں ، خرچ کے معاملہ میں میانہ روی اختیار کرنے والے ہوں ، لغو باتوں سے بچتے ہوں ، نمائشی کاموں سے انھیں کوئی سروکار نہ ہو، اترانے اور فخر کرنے کی بری عادتوں سے وہ پاک ہوں اور اپنی جائز کمائی کو جائز کاموں میں خرچ کرنے والے ہوں ۔ سوسائٹی کیلئے مشکلات پیدا کرنے والے نہیں بلکہ آسانی پیدا کرنے والے ہوں ۔ معروف یعنی بھلے طریقہ پر چلنے والے ہوں اور اپنی شادی کے موقع پر آدمی کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ آیا وہ جو خدا کو پسند ہے یا وہ جو شیطان کو پسند ہے؟

 فضول خرچی (منگنی ، ہلدی، مہندی، شاندار کارڈ، ڈیکوریشن، باجے گاجے وغیرہ): موجودہ دور میں شادی بیاہ کا جو اہتمام کیا جاتا ہے، اس میں فضول خرچی کو بڑا دخل ہے۔ آغاز، رسم منگنی سے ہوتا ہے جس کیلئے اب باقاعدہ دعوتِ طعام دی جانے لگی ہے۔ حالانکہ منگنی کی کوئی رسم اسلام میں نہیں ہے اور منگنی نکاح نہیں بلکہ محض وعدۂ نکاح ہے۔ اور منگنی ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے پھر اس کیلئے دعوتِ طعام کیا معنی! مرد، ہونے والی بیوی کو اس موقع پر زیورات اور کپڑے وغیرہ کا جو ہدیہ بھیجتا ہے وہ بھی منگنی ٹوٹ جانے کی صورت میں واپس لیتا ہے تو ایسے ہدیہ کا کیا فائدہ جس کو عورت اپنے کام میں نہ لاسکے۔

  شادی سے چند دن پہلے دلہن کیلئے ہلدی اور مہندی کی رسم انجام دی جاتی ہے۔ ہلدی تو خالص ہندوانہ رسم ہے۔ رہی مہندی تو وہ یقینا دلہن کیلئے باعث زینت ہے، لیکن اس کیلئے عورتوں کو جمع کرنے کی رسم سراسر تکلف اور دکھاوا ہے۔ اسی طرح جو دعوتیں نکاح سے پہلے دی جاتی ہیں وہ محض دکھاوے کی رسمیں ہیں اور مال کا بیجا خرچ بھی۔

 نکاح کیلئے شاندار کارڈ طبع کرائے جاتے ہیں جن کے ڈیزائن، آرٹ اور سنہری روپہلی طباعت بڑی دیدہ زیب ہوتی ہے اور جن کا طول بعض مرتبہ ایک ایک فٹ ہوتا ہے۔ کوئی کارڈ سوروپئے کا ہوتا ہے تو کوئی دوسو روپئے کا اور کوئی اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے۔ اگر یہ قیمتی کارڈ ایک ہزار طبع کرائے گئے ہوں تو اس پردس ہزار تا بیس پچیس ہزار روپئے خرچ ہوئے ہوں گے، جبکہ ان قیمتی کارڈ کا شادی کے بعد یہ حشر ہوتا ہے کہ وہ یاتو بچوں کو کھیلنے کیلئے دیئے جاتے ہیں یا ردی کی ٹوکری کی نذر ہوتے ہیں ۔ اگر کارڈ سادہ استعمال کئے جائیں تو کافی رقم بچ سکتی ہے اور اس رقم سے کسی غریب کی شادی بھی کرائی جاسکتی ہے، لیکن اپنی شان اونچی رکھنے کیلئے لوگ کارڈ پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں ۔

 شادی کیلئے جو ڈیکوریشن (سجاوٹ کی جاتی ) کیا جاتا ہے اس پر ہزاروں اور لاکھوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ برقی قمقموں سے اسٹیج وغیرہ کو ایسا سجایا جاتا ہے کہ دل باغ باغ ہوجائے! اپنی شان و شوکت کے اظہار کا اس سے بہتر کیا موقع ہوسکتا ہے، اس لئے بے حساب دولت لٹائی جاتی ہے۔ اس موقع پر کسی کو قرآن کی وہ آیتیں یاد نہیں آتیں جن میں فضول خرچی کرنے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں :

’’کہتا ہے میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں !‘‘ (سورۃ البلد:6-7)۔

 ’’پھر اس روز تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی‘‘ (سورۃ التکاثر:8)۔

 ’’فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘ (سورہ بنی اسرائیل:27)۔

 معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ذہن سے یہ تصور ہی نکل گیا ہے کہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، جس کے بارے میں اسے اللہ کے حضور جوابدہی کرنا ہے کہ اس نے اسے کن کاموں میں خرچ کیا۔ حدیث میں آتا ہے: ’’کسی بندے کے قدم (عدالت خداوندی سے) ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے باز پرس نہ کرلی جائے گی … اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کس میں خرچ کیا‘‘ (الترمذی، کتاب القیامۃ)۔

 اللہ تعالیٰ نے روپیہ اس لئے نہیں دیا ہے کہ اس سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی بے جا خواہشات پوری کی جائیں ؛ بلکہ اس لئے دیا ہے کہ اپنی حقیقی ضرورتوں کو پورا کیا جائے، عزیز و اقارب اور مسکینوں کا حق ادا کیا جائے اور دین کی اشاعت اور ا س کی سربلندی کیلئے خرچ کیا جائے۔ آدمی جب اسراف اور فضول خرچی پر اتر آئے گا تو وہ نہ بندگان خدا کے حقوق ادا کرسکے گا اور نہ بھلائی کے دوسرے کام کرسکے گا۔ اس کا احساس اس کو اسی وقت ہوگا جب اسے اللہ کے حضور ایک ایک پیسہ کا حساب دینا ہوگا۔ اس وقت وہ ان ہزاروں اور لاکھوں روپئے کیلئے کیا وجہِ جواز پیش کرسکے گا جو نمائشی کاموں پر خرچ کئے گئے تھے؟ فضول خرچی کرکے آدمی معاشرہ میں بری مثال پیدا کرتا ہے اور شادی ایک بوجھل تقریب بن کر رہ جاتی ہے، جبکہ اسلام نے نکاح کو نہایت آسان بنایا ہے۔

 شادی میں باجے گاجے (بینڈ باجہ، ڈی جے) کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور پٹاخے بھی بہ کثرت چھوڑے جاتے ہیں ۔ باجہ (موسیقی کا آلہ) تو لہو و لعب ہے جو دنیا پرستی پر ابھارنے والی اور خدا سے اور آخرت سے غافل کر دینے والی چیز ہے۔ پھر بھی اس شور و غل پر ہزاروں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں ، رہے پٹاخے تو یہ پیسوں کا دھواں اڑانے کے ہم معنی ہے، نیز اس کی کرخت آواز لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ غرضیکہ یہ بالکل غیر سنجیدہ کام ہیں جن کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ یہ کام شائستہ اور مہذب لوگوں کو زیب دیتا ہے۔

 پیغام دینے سے پہلے عورت کو دیکھ لینا: جس عورت کو پیغام دینا ہو اسے دیکھ لینا بہتر ہے، تاکہ پسند و ناپسند کا مسئلہ بعد میں نہ کھڑا ہو۔ مرد  عورت کو دیکھ کر پسند کرتا ہے اور پھر اس سے نکاح کرتا ہے تو باہم الفت بڑھتی ہے جو شادی کی کامیابی کا موجب ہے۔ اگر عورت کے چہرے میں کوئی نقص ہو یا مرد کو پسند نہ ہو تو وہ نکاح کا پیغام نہیں دے گا اور اگر دیا ہے تو واپس لے لگا۔ اس طرح آئندہ پیش آنے والی ناخوشگوار باتوں کا سدباب ہوجائے گا۔ اسلام نے اسی مصلحت کے پیش نظر، اس عورت کو دیکھ لینے کی اجازت دی ہے جس سے نکاح کا ارادہ کرلیا گیا ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ

 ’’ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں نے انصار کی ایک خاتون سے نکاح کرلیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا تم نے اس کو دیکھ بھی لیا تھا کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ نقص ہوتا ہے۔ اس نے کہا ہاں میں نے اسے دیکھ لیا ہے‘‘ (مسلم، کتاب النکاح)۔

 مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک عورت کا نکاح کا پیغام دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے دیکھ لو اسے تمہارے درمیان الفت پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے‘‘ (ترمذی، ابواب النکاح)۔ اور ابن ماجہ، کتاب النکاح میں مغیرہ بن شعبہ کا مزید بیان ہے کہ: میں انصار کی ایک عورت کے ہاں گیا اور اس کے والدین کے پاس پیغام پیش کیا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے انھیں مطلع کیا، لیکن انھوں نے کچھ نامناسب سا خیال کیا، مگر جب عورت نے پردہ کے اندر سے سنا تو کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنے کیلئے کہا ہے تو دیکھ لیجئے، ورنہ میں آپ کو قسم دیتی ہوں ۔ مغیرہ کہتے ہیں میں نے اسے دیکھ لیا اور اس سے نکاح کرلیا‘‘۔

 معلوم ہوا کہ جہاں نکاح کی امکانی صورت پیدا ہوجائے وہاں لڑکی کے والدین کو چاہئے کہ وہ لڑکی دکھانے سے انکار نہ کریں ۔ اور دکھانے کا ایسا طریقہ اختیار کریں جو معروف ہو؛ یعنی محرم کی موجودگی میں لڑکی کو تھوڑی دیر کیلئے سامنے لایا جائے تاکہ نکاح کا پیغام دینے والے کو اس کی شکل و صورت کا اندازہ ہوسکے۔ اگر لڑکی کو باہر کہیں اتفاقاً دیکھنے کا موقع ہو مثلاً اگر وہ کالج کی اسٹوڈنٹ ہے یا ٹیچر ہے اور اس کو اطلاع دیئے بغیر ایک نظر اس پر ڈال لی جاسکتی ہے تو ایسا کرنے میں بھی حرج نہیں ہے، مگر خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ رخصت بہت محدود اور مشروط ہے۔ اس رخصت سے فائدہ اٹھاکر نہ بار بار دیکھنے کی اجازت ہوسکتی ہے اور نہ میل جول کی اور نہ عشق و محبت کے تعلقات پیدا کرنے کی۔ جو لڑکے اور لڑکیاں چوری چھپے ایک دوسرے محبت کے تعلقات پیدا کرلیتے ہیں وہ اس ارشاد کو یاد رکھیں :

  ’’چوری چھپے آشنائیاں کرنے والے نہ ہوں ‘‘ (مائدہ:5)۔

   ’’چوری چھپے آشنائیاں کرنے والی نہ ہوں ‘‘ (نساء:25)۔

 نکاح کا پیغام دینے والے کو دیکھنے کی جو رخصت دی گئی ہے وہ صرف چہرہ اور ہتھیلیوں کے دیکھنے کی حد تک ہے۔ اس سے زیادہ عورت کے جسم کا حصہ دیکھنا ہر گز جائز نہیں ۔ قرآن مجید میں مردوں کو اجنبی عورتوں کے سلسلہ میں نگاہیں نیچی رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس سے مستثنیٰ صورت جو حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ پیغام دینے والے کا عورت کی شکل و صورت کو دیکھ لینا ہے، اس لئے اس رخصت کو اسی حد میں رکھنا ہوگا۔ اگر اس میں ڈھیل دی گئی تو وہ خالی از فتنہ نہ ہوگی۔

  رہا عورت کا پیغام دینے پر مرد کو دیکھنا تو اس کا جائز ہونا بالکل ظاہر ہے۔ جب عورت کی رضامندی اس کے نکاح کیلئے ضروری ہے تو وہ اپنے اطمینان کیلئے مرد کو دیکھ بھی سکتی ہے۔ مرد چونکہ گھر کے باہر رہتے ہیں اور ان کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے، اس لئے پیغام دینے والے مرد کو دیکھنے کیلئے کسی صراحت کی ضرورت نہیں تھی، لہٰذا حدیث میں عورت کو جو گھر میں اور پردہ میں رہتی ہے نکاح کی غرض سے دیکھنے لینے کی ترغیب دی گئی۔موجودہ دور کے مردوں اور عورتوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ لیں تاکہ ان کی اپنی پسند کے مطابق نکاح ہو۔

تحریر: مولانا شمس پیر زادہؒ … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔