راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

ووٹوں کے اعتبار سے اترپردیش کا آدھا الیکشن ہوچکا اور رائونڈ کے اعتبار سے تین ہوچکے اور چار باقی ہیں ۔ جو الیکشن کے میدان میں ہیں اور مقابلہ میں مصروف ہیں انہیں معلوم تو نہیں لیکن کچھ اندازہ ہورہا ہوگا کہ ہوا کا رُخ کدھر کو ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب لہجہ میں تلخی اور الفاظ میں ترشی آنے لگی ہے جس کا اندازہ ہر اس آدمی کو ہورہا ہوگا جو پہلے رائونڈ سے برابر الیکشن کو دیکھ رہا ہے۔

راہل گاندھی ہر تقریر میں یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہم لوگ وزیر اعظم کے پاس گئے تھے اور ان سے درخواست کی تھی کہ کسانوں کا قرض معاف کردیجیے، راہل کا بیان ہے کہ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش بیٹھے رہے۔ یہ بات تیسرے رائونڈ تک رہی جو 19؍ فروری کو ہوا تھا، ہم نہیں جانتے کہ انھوں نے کیا دیکھا یا ان کے جاسوسوں نے انہیں کیا بتایا کہ 20 ؍ فروری کی ایک تقریر میں انھوں نے کہا کہ میں پہلی میٹنگ میں کسانوں کا قرض معاف کردوں گا۔

جن لوگوں نے مودی جی کو 2014ء میں وزیر اعظم کی کرسی مانگتے وقت بولتے ہوئے سنا ہے انہیں یاد ہوگا کہ انھوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد کیا کیا کرنے کے لیے کہا تھا اور ان میں سے ایک کام بھی نہیں کیا۔ اسی میں اترپردیش بھی تھا جس کے لیے کہا تھا کہ اسے گجرات بنادوں گا اور جب ملائم سنگھ نے جواب دیا تھا کہ ہم اترپردیش کو خود گجرات سے اچھا بنالیں گے تو مودی جی نے جواب دیا تھا کہ تم کیا گجرات بنائو گے گجرات بنانے کے لیے ۵۶ انچ کا سینہ چاہیے۔ اب وہ اس اترپردیش میں اعلان کررہے ہیں کہ وہ پہلی میٹنگ میں اور یہ نہیں کہتے کہ اترپردیش کے الیکشن کے بعد کی پہلی میٹنگ میں یا بجٹ سیشن کے بعد کی پہلی میٹنگ یا اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت بن جانے کے بعد کی پہلی میٹنگ میں کسانوں کا قرض معاف کریں گے؟

مودی جی اب تک جو کچھ کہتے رہے وہ اکھلیش اور راہل کی جو ڑی پر تھا انھوں نے وہ سب کہا جو نکڑ سبھا میں پارٹی کا کوئی چھوٹا ورکر کہہ سکتا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر لوہیا کو بھی یاد کیا کہ ان کی آتما پر کیا بیت رہی ہوگی؟ اور راہل کو مخاطب کرکے 2012ء کے بعد ہونے والے تمام گھوٹالوں کو یاد دلایا اور منہ میں جو آیا وہ کہا یہ وہ وزیر اعظم ہیں جن کی عظمت کو دنیا کے سب سے طاقتور اور دولت مند ملک کے صدر نے تسلیم کیا اور خود ٹیلی فون کرکے ا مریکہ آنے کی دعوت دی۔ خیریت ہے کہ وہ ہندی نہیں جانتا اگر وہ ہندی جانتا ہوتا اور مودی جی کی الیکشن کی تقریریں سن لیتا تو شاید امریکہ کے دروازہ پر بورڈ لگوادیتا کہ دنیا کا ہر سربراہ آئے بس ہندوستان کا وزیراعظم مودی نہ آئے۔

غضب خدا کا کہ وہ مس مایاوتی کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی کے بارے میں کہیں کہ وہ بہن جی سمپتی پارٹی ہے اور مایاوتی کو موقع دیں کہ گندے پانی میں ایک ڈھیلا تم بھی مارو، اور وہ بی جے پی کو نہیں وزیر اعظم کے نام کا مطلب بتائیں کہ نریندر دامودر مودی کا مطلب’ ’نگیٹیو دلت مین‘‘ ہے۔ کیا ایک ملک کے وزیر اعظم کی یہ حیثیت ہوتی ہے؟ مودی جی کو معلوم تھا کہ اکھلیش ہمیشہ مایاوتی کو بوا جی کہتے تھے۔ یعنی باپ کی بہن۔ ہندوستان کی سماج میں یہ عام باپ ہے کہ بات کے برابر والوں کو سب چچا کہتے ہیں یہ ادب کا رشتہ ہے۔ باپ کی بہن کو ہندو سماج میں بوا کہا جاتا ہے۔ سنبھل اور اس کے ارد گرد ہم سب اپنی ماں کو بواجی کہتے تھے۔ لیکن مایاوتی کو یہ اچھا نہیں لگا تو اکھلیش نے بوا کہنا چھوڑ دیا۔ وہ اعظم خاں کو چچا کہتے ہیں اور اسی طرح مانتے بھی ہیں لیکن جو مودی جی نے کیا اور جو جواب ملا وہ شرم کی بات ہے۔ نہ وہ مایاوتی کو چھیڑتے نہ ایسا جواب پاتے۔

ہم نہیں جانتے کہ قبرستان اور شمشان گھاٹ کا جھگڑا کہاں ہے اور وہ مودی تک کس نے پہنچایا؟انھوں نے اپنی تقریروں میں اسے ایسا موضوع بنایا ہے جیسے ا کھلیش مسلمان وزیر اعلیٰ ہے وہ مسلمانوں کے لیے قبرستان بنارہا ہے ہندوئوں کو شمشان کے لیے زمین نہیں دیتا۔ رمضان میں ہر مسلمان کو بجلی دیتا ہے اور ہر دیوالی میں ہر ہندو کے گھر میں اندھیرا رہتا ہے۔ ایک وزیر اعظم وہ بات کہیں جو ایک گائوں یا ایک محلہ کے لوگ کہہ سکتے ہیں اور اس اکھلیش کے با رے میں کہیں جس سے ہمیں اس کی شکایت ہے کہ دادری میں جب مندر کے پجاری نے اعلان کیا تھا کہ اخلاق نے گائے کاٹی ہے اور جس اعلان کی وجہ سے ہی ہزاروں ہندو چڑھ دوڑے تھے، اس پجاری کو کیوں نہیں مارا، کیوں قید نہیں کیا؟ اسے مودی مسلمانوں کا ایجنٹ بتا کر پیش کررہے ہیں اور خود ہندوئوں کے وکیل بنے ہوئے ہیں ۔ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس نہیں بھولتے؟

کیا مودی ملک کو 1946کے دور میں لیجانا چاہتے ہیں جب ہر اسٹیشن پر ہندو پانی اور مسلم پانی ہوا کرتا تھا اور ٹرین میں ہندو بوگی اور مسلم بوگی ہوتی تھی۔ہم کیسے کہیں کہ ا نہیں اپنی ہار نظر آرہی ہے اور وہ پھر ناگپور میں پڑھے ہوئے سبق سنا رہے ہیں یا جیت کی خوشی میں وہ اس لیے بے قابوہورہے ہیں کہ اس الیکشن کے بعد ہندوستان کو ا کھنڈ بھارت بنالیا جائے گا۔

مودی جی نہ کبھی مسلمانوں کے ساتھ رہے نہ انہیں جاننے کی کوشش کی ورنہ وہ دیوالی اور رمضان کو ایک خانہ میں نہ رکھتے۔ دیوالی ایک دن کی تہوار ہے اور رمضان 30 دن اور رات کی عبادت (پوجا) جس میں بجلی کا صرف اتنا کام ہے جتنا سال کے ہر مہینہ میں ہوتا ہے۔ البتہ مسجدوں اور گھروں میں دو تین گھنٹے زیادہ خرچ ہوتی ہے، لیکن بجلی نہ ہو تو رمضان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جبکہ دیوالی صرف روشنی کا نام ہے اور پوجا صرف آدھے گھنٹے کی ہے۔ ایک شہر کی دیوالی میں جتنی بجلی ایک رات میں خرچ ہوجاتی ہے اتنی پورے رمضان کے 30 دن میں بھی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس جو مسلمان ہیں ان کے لیے رمضان اتنے ہی اجنبی ہیں جتنے مودی کے لیے، وہ سمجھنا چاہتے ہیں تو مولانا اسرارالحق یا مولانا بدرالدین اجمل سے معلوم کریں وہ انہیں سمجھائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔