مسافر تیزگام

وقت کم تھا منزلیں کئی سر کرنی تھیں ۔مسافر کو جلدی بہت تھی۔منزلیں اتنی تیزی سے سر ہوتی گئیں کہ شریک کارواں حیرت سے تکتے رہے۔مسافرآگے بڑھتا گیا۔اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور بڑی ہی سرعت سے آخری منزل بھی طے کی اور سب کو حیرت کدے میں چھوڑ کر زمان و مکان کے احساس سے پرے چلا گیا۔

بعض لوگوں کو منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے یالا شعور میں کہیں یہ احساس رہتا ہے کہ وقت کم ہے اور کام بہت ہیں اس لئے جلدی جلدی سب کچھ نمٹانا ہے۔یا پھر قادر مطلق کی کوئی مصلحت ہوتی ہے کہ چونکہ اس بندے کے پاس وقت کم ہے اس لئے جو بھی اس کے مقدر میں ہے سب کچھ اسے عطا ہو جائے۔

ہم دیرینہ یار صفدر صاحب کی مقبولیت،کامیابی،پذیرائی اور بے شمار ذمہ داریوں کو ایک ساتھ نبھانے کے ان کے ہنر پر انگشت بدنداں رہتے تھے لیکن یہ کسے خبر تھی کہ ان کے پاس وقت کم تھااور منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ورنہ اس عمر میں کوئی اتنی ذمہ داریاں ،اتنے عہدے،اتنی شہرت،اتنی مقبولیت تھوڑے ہی پاتا ہے۔

غالبا 1983 میں جماعت اسلامی کے ماہانہ ضلعی اجتماع میں مئو میں ہم پہلی مرتبہ ملے تھے۔آپ مدرستہ الاصلاح سے شرکت کے لئے آئے تھے۔ہم جامعتہ الفلاح کے طالب علم تھے۔ہم نے اس اجتماع میں جماعت کی طلبہ تنظیم کی جانب سے کتابوں کااسٹال لگایا تھا۔پتہ نہیں آپ نے کیا اپنائیت محسوس کی کہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔کہتے ہیں دل سے دل کے تار ملتے ہیں ۔شاید کچھ ایسا ہی رہا ہو۔ضلعی اجتماعات میں ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ہماری کم عمری اور بے فکری کے دن تھے۔آپ بھی اسی مرحلے سے گزر رہے تھے۔ہمارے گروپ میں تفریحی گفتگوئیں ہوتیں ۔ہنسی مذاق بھی چلتا۔صفدر صاحب ہمارے درمیان تو رہتے لیکن شامل کم ہوتے تھے۔ہنستے مسکراتے رہتے۔کچھ کمنٹ کرتے۔بس۔ان کی سنجیدگی اور متانت اور وقار کی وجہ سے ہم میں سے کوئی ان کو نام سے نہیں بلاتا تھا۔سب ان کو صفدر صاحب ہی کہتے تھے۔چند سال بعدجب میں تعلیم کی غرض سے علی گڑھ پہنچا  توصفدر صاحب وہاں پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور کافی معروف اور مقبول ہو چکے تھے۔یونیورسٹی میں جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو نام لے کر بلاتا ہے وہاں بھی وہ سب کے لئے صفدر صاحب ہی تھے۔

صفدر صاحب نے اپنا راستہ خود بنایا۔صلاحیت خداداد تھی لیکن ان تھک محنت اور لگن ان کی اپنی تھی،دیانت داری اور امانت داری ان کا شیوہ تھا۔خوش اخلاقی اور ملنساری سرشت میں شامل تھی۔ایم اے میں داخلہ لیا۔امتیازی نمبرات سے ڈگری لی۔پی ایچ ڈی میں نیشنل اسکالرشپ کے لئے منتخب ہوئے۔پی ایچ ڈی مکمل ہوئی تو فورا لیکچرار مقرر ہو گئے،یہ تو یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی معراج تھی۔اب باقی کیا بچا تھا۔لیکن صفدر صاحب تو صفدر صاحب تھے۔رکنا ٹھہرناان کا مزاج کہاں ،طلبہ تنظیم سے مرکز جماعت تک ان کی ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔مختلف کمیٹیوں کے رکن رکین،عہدہ دار، صدر نشین اور پتہ نہیں کیا کیا۔صلاحیت نہ ہوتی تو علمی ترقیاں کیسے ملتیں ،امانت داری نہ ہوتی تو اتنی ذمہ داریاں کیسے نبھاتے۔دیانت داری نہ ہوتی تو تحریکی حلقے منتخب کیوں کرتے۔مقبولیت نہ ہوتی تو پوری یونیورسٹی ان کو احترام سے کیوں مخاطب کرتی۔۔۔۔ صفدر صاحب!آپ کو کس کس پیمانے پر قیاس کروں سمجھ میں نہیں آتا۔

صفدر صاحب کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزرا۔مئو کے اس اجتماع سے طلبہ تنظیم کے مختلف اجلاس میں ہمارا ساتھ رہا۔یہ الگ بات ہے کہ اجتماعات میں ہم فرش پر بیٹھنے والوں میں سے تھے اور وہ اسٹیج پر۔جس راہ پر ہم ساتھ چلے تھے اس پر وہ بہت آگے جا چکے تھے۔ہم دور سے دیکھتے رہ گئے۔صفدر صاحب ہمارے جیسے نہیں تھے۔وہ اپنے ہم عصروں سے جدا تھے۔کوئی ان کی گرد راہ بھی نہیں پا سکتا تھا۔ساتھ چلنا تو دور کی بات ہے۔

صفدر صاحب کے بارے میں بہت سارے احباب نے بہت کچھ لکھا ہے۔ان کے عہدوں اور ذمہ داریوں کا بیان کیا ہے۔ان کی علمی کامیابیوں اور مطبوعات کی تفصیل ذکر کی ہے۔لیکن میں آنکھ بند کرتا ہوں تو مجھے ایک نو عمر مسکراتے ہوئے کچھ لجاتے ہوئے صفدر صاحب نظر آتے ہیں ۔علیگڑھ میں یونیورسٹی کی سنٹرل کینٹین کے باہر درختوں کی چھاوں میں گھنٹوں تک ساتھ بیٹھے صفدر صاحب یاد آتے ہیں ۔یونین کے الیکشن میں جلوس کے ساتھ ساتھ چلنا یاد آتا ہے۔سرسید ہال نارتھ میں باب اسحق کی جانب اوپر آپ کے سنگل کمرے میں گزری مجلسیں یاد آتی ہیں ۔کشمیر ہاوس کے میرے کمرے میں آپ کی آمداور طویل نشستیں یاد آتی ہیں ۔

صفدر صاحب!ہم نے تو سفر ساتھ ہی شروع کیا تھاْآپ اسپ تازی پر سوار ہوگئے ،ہم پیادہ تھے۔ہم دور سے آپ کی رفتار دیکھتے رہے۔کبھی رشک کبھی حسد کرتے رہے۔آپ آگے جا رہے ہیں یہ تو نظر آرہا تھا لیکن آپ اتنی دور نکل جائیں گے یہ تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔صفدر صاحب ! آپ کی رحلت نے تو سب کو ششدر کر دیا۔آپ کی زندگی بھی قابل ستائش تھی اور جہاں آپ چلے گئے ہیں وہاں بھی ان شاء اللہ آپ کے بلند درجات رہیں گے۔لیکن آپ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔اور کوئی آپ کو بھلا بھی کیسے سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔