حکمراں ہے اِک وہی باقی سب بتانِ آزری (دوسری قسط)

 ’’فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں ہے‘‘ (12:40)۔

 لوگ دنیا میں سینکڑوں قوتوں کے محکوم ہیں ۔ ماں باپ کے محکوم ہیں ، دوست و احباب کے محکوم ہیں ، استاد اور مرشد کے محکوم ہیں ۔ امیروں ، حاکموں اور بادشاہوں کے محکوم ہیں ۔ اگر چہ وہ دنیا میں بغیر کسی زنجیر اور بیڑی کے آئے تھے مگر دنیا نے ان کے پاؤں میں بہت سے بیڑیاں ڈال دی ہیں ۔

            لیکن مومن و مسلم ہستی وہ ہے جو صرف ایک ہی کی محکوم ہے، اس کے آگے میں محکومی کی ایک بوجھل زنجیر ضرور ہے، پر مختلف سمتوں میں کھینچنے والی بہت سی ہلکی زنجیریں نہیں ہیں ۔ وہ ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتا ہے کیونکہ ا س کے ایک ہی حاکم نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ دوستوں سے محبت رکھتا ہے کیونکہ اسے رفیقوں اور ساتھیوں کے ساتھ سچے برتاؤ کی تلقین کی گئی ہے۔ وہ اپنے سے ہر بزرگ اور بڑے کا ادب ملحوظ رکھتا ہے کیونکہ اس کے ادب آموز حقیقی نے ایسے ہی بتایا ہے۔ وہ پادشاہوں اور حاکموں کا حکم بھی سنتا ہے کیونکہ حاکموں کے ماننے سے اسے نہیں روکا گیا ہے جو اس کے حاکم حقیقی کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ وہ دنیا کے ایسا پادشاہوں کی اطاعت کرتا ہے جو اس کی آسماپی پادشاہت کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ اسے تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی ایسا کرے لیکن یہ سب کچھ جو وہ کرتا ہے تو اس لئے نہیں کرتا کہ سب کیلئے کوئی حکم مانتا اور ان کو جھکنے کی جگہ سمجھتا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ اطاعت ایک ہی کیلئے ہے اور حکم صرف ایک ہی کا ہے۔ جب اس ایک ہی حکم دینے والے نے ان سب باتوں کا حکم دے دیا تو ضرور ہے کہ خدا کیلئے ان سب بندوں کو بھی مانا جائے اور اللہ کی اطاعت کی خاطر وہ اس کے بندوں کابھی مطیع ہوجائے۔

  پس فی الحقیقت دنیا میں ہر انسان کیلئے بے شمار حاکم اور بہت سی جھکانے والی قوتیں ہیں لیکن مومن کیلئے صرف ایک ہی ہے۔ ا س کے سوا کوئی نہیں ۔ وہ صرف اسی کے آگے جھکتا ہے اور صرف اسی کو مانتا ہے۔ اس کی اطاعت کا حق ایک ہی کو ہے۔ اس کی پیشانی کے جھکنے کی چوکھٹ ایک ہی ہے۔ اور اس کے دل کی خریداری کیلئے بھی ایک ہی ہے۔ وہ اگر دنیا میں کسی دوسری ہستی کی اطاعت کرتا بھی ہے تو صرف اسی ایک کیلئے۔ اس لئے اس کی بہت سی اطاعتیں بھی اسی ایک ہی اطاعت میں شامل ہوجاتی ہیں ۔

مقصود ما کہ دیر و حرم جز حبیب نیست … ہر جا کنیم سجدہ بداں آستاں رسد

 حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں اپنے ساتھیوں سے کیا پوچھا تھا:

’’بہت سے معبود بنالینا بہتر ہے یا ایک قہار و مقدر خدا کو پوجنا‘‘ (39:12)۔

یہی وہ خلاصہ ایمان و اسلام ہے جس کی ہر مومن و مسلم کو قرآن کریم نے تعلیم دی ہے :

 ’’تمام جہاں میں اللہ کے سوا اور کسی کو نہ پوجیں اور نہ کسی کو اپنا معبود بنائیں ۔ یہی دین قیم ہے جس کی پیروی کا حکم دیا گیا‘‘ (40:12)۔

حدیث صحیح یہ ہے کہ ’’جس بات کے ماننے میں خدا کی نافرمانی ہو اس میں کسی بندے کی فرماں برداری نہ کرو‘‘ (الحدیث)

  اسلام نے یہ کہہ کر فی الحقیقت ان تمام ماسوائے اللہ اطاعتوں اور فرماں برداریوں کی بندشوں سے مومنوں کو آزاد و حر کامل کر دیا جن کی بیڑیوں سے تمام انسانوں کے پاؤں بوجھل ہورہے تھے اور اس کے ایک ہی جملہ نے انسانی اطاعت اور پیروی کی حقیقت اس وسعت اور احاطہ کے ساتھ سمجھا دی کہ اس کے بعد کچھ باقی نہ رہا۔ یہی ہے جو اسلامی زندگی کا دستوع العمل ہے اور یہی ہے جو مومن کے تمام اعمال و اعتقادات کی ایک مکمل تصویر ہے۔ اس تعلیم الٰہی نے بتلا دیا ہے کہ جتنی اطاعتیں ، جتنی فرماں برداریاں ، جتنی وفاداریاں اور جس قدر بھی تسلیم و اعتراف ہے، صرف اس وقت کیلئے ہے جب تک کہ بندے کی بات ماننے سے خدا کی بات نہ جاتی ہواور دنیا والوں کے وفادار بننے سے خدا کی حکومت کے آگے بغاوت نہ ہوتی ہو، لیکن اگر کبھی ایسی صورت پیش آجائے کہ اللہ اور اس کے بندوں کے احکام میں مقابلہ آپڑے، تو پھر تمام اطاعتوں کا خاتمہ، تمام عہدوں اور شرطوں کی شکست، تمام رشتوں اور ناموں کا انقطاع اور تمام دوستوں اور صحبتوں کا اختتام ہے۔ اس وقت نہ تو حاکم، حاکم ہے، نہ پادشاہ ، پادشاہ، نہ باپ باپ ہے، نہ بھائی بھائی، سب کے آگے تمرد، سب کے ساتھ انکار، سب کے سامنے سرکشی، سب کے ساتھ بغاوت، پہلے جس قدر غلامی تھی اتنی ہی اب سختی چاہئے، پہلے جس قدر اعتراد تھا اتنا ہی اب تمرد چاہئے، پہلے جس قدر جھکاؤ تھا اتنا ہی اب غرور ہو کیونکہ رشتے کٹ گئے اور عہد توڑ ڈالے گئے۔ رشتہ دار در اصل ایک ہی تھا اور یہ سب رشتے اسی ایک رشتے کی خاطر تھے۔ حکم ایک ہی کا تھا اور یہ سب اطاعتیں اسی ایک کی اطاعت کیلئے تھیں ۔ جب ان کے ماننے میں اس سے انکار اور ان کی وفاداری میں اس سے بغاوت ہونے لگی تو جس کے حکم سے رشتہ جوڑا تھا اس کی تلوار نے کاٹ بھی دیا اور جس کے ہاتھ نے ملایا تھا، اسی کے ہاتھ نے الگ بھی کر دیاکہ

 سرور کائنات اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر مسلمانوں کا کون آقا ہوسکتا ہے، لیکن خود اس نے بھی جب عقبہ، میں انصار سے بیعت لی تو فرمایا : میری اطاعت تم پر اسی وقت تک کیلئے واجب ہے جب تک کہ میں تم کو نیکی کا حکم دوں ‘‘۔ جب شہنشاہ کونین کی اطاعت مسلمانوں پر نیکی و معروف کے ساتھ مشروط ہے تو پھر دنیا میں کون سے پادشاہ، کون سی حکومت، کون سے پیشوا، کون سے رہنما اور کون سی قوتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن کی اطاعت ظلم و عدوان کے بعد بھی ہمارے لئے باقی رہے۔

  آدم علیہ السلام کی اولاد دو کی محکوم نہیں ہوسکتی، وہ ایک سے ملے گی، دوسرے کو چھوڑ دے گی۔ ایک سے جڑے گی، دوسرے سے کٹے گی۔ پھر خدارا مجھے بتلاؤ کہ ایک مومن کس کو چھوڑے گا اور کس سے ملے گا۔ ایک ملک کے دو بادشاہ نہیں ہوسکتے۔ ایک باقی رہے گا، ایک کو چھوڑنا پڑے گا۔ پھر مجھے بتلاؤ کہ مومن کی اقلیم دل کس کی بادشاہت قبول کرے گا۔ کیا وہ اس سے ملے گا جس کی حالت یہ ہے:

  ’’خدا نے جس کو جوڑنے اور ملانے کا حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے اور جدا کرتے ہیں ‘‘ (27:2)۔

 کیا اس کی پادشاہت قبول کرے گا جس کی حالت تصویر یہ ہے:

 ’’وہ دنیا میں فتنہ اور فساد پھیلاتے ہیں اور انجام کار وہی ناکام و نامراد رہیں گے‘‘ (27:2)۔ اور کیا اس کی بادشاہت سے گردن موڑے گا جو پکارتا ہے:

 ’’اے غافل انسان؛ کیا ہے جس کے گھمنڈ نے تجھے اپنے مہربان اور پیار کرنے والے آقا سے سرکش بنا دیا ہے‘‘ (82:6)۔

 مگر آہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔

 ’’تم اس شہنشاہ حقیقی کی حکومت سے کیونکر انکار کروگے جس نے تمہیں اس وقت زندہ کیا جبکہ تم مردہ تھے اور تم پر پھر موت طاری کرے گا، اس کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا، پھر تم اسی کے پاس بلا لئے جاؤگے‘‘ (28:2)۔

  دنیا اور اس کی بادشاہیاں فانی ہیں ۔ ان کے جبروت و جلال کو ایک دن مٹنا ہے۔ خدائے منتظم و قہار کے بھیجے ہوئے فرشتہ ہائے عذاب، انقلاب و تغیرات کے حربے لے کر اترنے والے ہیں ۔ ان کے قلعے مسمار ہوجائیں گے۔ ان کی تلواریں کند ہوجائیں گی۔ ان کی فوجیں ہلاک ہوجائیں گی۔ ان کی توپیں ان کو پناہ نہ دیں گی۔ ان کے خزانے ان کے کام نہ آئیں گے۔ ان کی طاقتیں نیست و نابود کر دی جائیں گی۔ ان کا تاج غرور ان کے سر سے اتر جائے گا۔ ان کا تخت جلال و عظمت وازگون نظر آئے گا۔

 ’’اور جس دن آسمان ایک بادل کے ٹکڑے پر سے پھٹ جائے گا اور اس بادل کے اندر سے فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔ اس دن کسی کی بادشاہت باقی نہ رہے گی۔ صرف خدائے رحمان ہی کی حکومت ہوگی اور یاد رکھو کہ وہ دن کافروں کیلئے بہت ہی سخت ہوگا‘‘ (26:25:25)۔

  پھر اس دن جبکہ رب الافواج اپنے ہزاروں قدوسیوں کے ساتھ نمودار ہوگا اور ملکو ت السّمٰوات والارض کا نقیب پکارے گا۔

 ’’آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ کسی کی نہیں ، صرف خدائے واحد و قہار کی‘‘ (16:40)۔

 تو اس وقت کیا عالم ہوگا۔ ان انسانوں کا جنھوں نے بادشاہ ارض و سما کو چھوڑ کر مٹی کے تودوں کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے اور وہ ان کے حکموں کی اطاعت کو خدا کے حکموں کی اطاعت پر ترجیح دیتے ہیں ۔

  آہ؛ اس دن وہ کہاں جائیں گے جنھوں نے انسانوں سے صلح کرنے کیلئے خدا سے جنگ کی اور اپنے اس ایک ہی آقا کو ہمیشہ اپنے سے روٹھا ہوا رکھا۔ وہ پکاریں گے پر جواب نہ دیا جائے گا، وہ فریاد کریں گے پر سنی نہ جائے گی، وہ تو بہ کریں گے پر قبول نہ ہوگی اور ندامت کام نہ دے گی۔ اے انسان! اس دن کیلئے تجھ پر افسوس ہے۔ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ط (37:77)۔

  ’’ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے خداوندوں اور حاکموں کو پکارو جن کو تم خدا کی طرح مانتے تھے اور خدا کی طرح ان سے ڈرتے تھے۔ وہ پکاریں گے پر کچھ جواب نہ پائیں گے‘‘ (64:28)۔

 پس وہ معلم الٰہی، وہ داعی ربانی، وہ مبشر، وہ متذر، وہ رحمۃ اللعالمین، وہ محبوب رب العالمین، وہ سلطان کونین آگے بڑھے گا اور حضور خداوندی میں عرض کرے گا۔

  ’’اے پروردگار؛ افسوس ہے کہ میری امت نے قرآن کی ہدایتوں اور تعلیموں پر عمل نہ کیا اور اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا۔ اس کا یہ نتیجہ جو وہ آج بھگت رہے ہیں ‘‘ (30:25)۔  (جاری)

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ…  ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔