حکومت کی کرنی اور کتھنی میں بہت فرق ہے!

محمد قاسم ٹانڈوی

 سات مئ کو ہمارے عزت مآب وزیراعظم نے نئ دہلی سے "نمو ایپ” کے ذریعہ کرناٹک میں ہونے والے ریاستی انتخابات کےلئے بی جے پی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہےکہ:

"جمہوریت میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں” عزت مآب وزیراعظم صاحب اس سے قبل بھی ایسا کئ مرتبہ کہہ چکے ہیں، مگر بی جے پی کارکن اور خاص کر ہندو یوا واہنی اور اس جیسی دیگر شدت پسند تنظیموں سے وابستہ افراد ہمیشہ اس کے برعکس کرتے نظر آتے ہیں۔

اے ایم یو؛ جس کی پوری تاریخ اس کی تاسیس لےکر آج تک پرامن اور سیکولر اقدار سے ہم آہنگ رہی ہے، فرقہ واریت کو ہوا دینے یا فرقہ پرستوں کی پشت پناہی کرنے جیسے امور سے اس کا دور دور تک کوئی علاقہ اور واسطہ نہیں، سرسید کا لگایا ہوا یہ چمن نہ جانے کتنے نازک ادوار اور نشیب و فراز سے گزرا، اس کے دشمنوں نے بارہا اس کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور اس کے در و دیواروں پر فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیزی کی کالک پوتنی چاہی مگر سرسید کا لگایا یہ چمن ویسے ہی اپنی سرشادابی برقرار رکھنے میں کامیاب رہا جیسے ملک کی سرحدوں پر تعینات حفاظتی دستے اور جوان ہمارے اس پیارے ملک کی حفاظت میں کامیاب ہیں اور وہ کوئی بھی خطرہ پیش آنے پر اپنی جان کی بازی تک لگا دینے پر آمادہ رہتے ہیں ویسے ہی اے ایم یو کا کردار اور روایت رہی ہے کہ اس نے قبل از وقت اپنے دشمنوں کے ارادوں کو بھانپ کر ان غلط اور نازک اوقات میں صحیح اور بہت مناسب فیصلے لےکر دشمن کو دھول چٹائ ہے۔

ویسے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ یا دیگر کوئ اور قومی ملی ادارہ؛ ان جگہوں کو سیاسی ریشہ دوانیوں کی آماج گاہ بنانا اور فرقہ پرست ٹولے سے وابستہ افراد کو ان مخصوص جگہوں پر منافرت و شرانگیزی پر مبنی بیج بونے کےلئے کھلی آزادی کے ساتھ چھوڑ دینا یہ اقتدار یافتہ سیاسی پارٹی کے مقاصد میں سے اولین مقصد سمجھ میں آتا ہے۔ اس لئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کی تاریخی عبارت سنہری الفاظ سے کندہ ہے وہ گزشتہ ایک عشرے سے انہیں فرقہ پرستوں اور مذہبی تعصب پرستی پر یقین رکھنے والی طاقتوں کا شکار بنی ہوئ ہے، اس سے پہلے یہی طاقتیں جے این یو کی آزاد فضا اور خوشگوار ماحول کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا کر اس میں شدت پسندی کا اکھاڑا قائم کرنے میں تلی تھیں، وہاں بھی ان کو منہ کی کھانی پڑی تھی، آج اے ایم یو میں جو کچھ بھی خلاف روایت ہو رہا ہے بلکہ موجودہ ممبر پارلیمنٹ کی سربراہی اور اشاروں پر کرا کرایا جا رہا ہے یہ کوئ پہلا موقع نہیں جو اس ڈیڑھ سو سالہ قدیم ادارے کی عزت و رفعت کو چیلنج کرنے کےلئے ناپاک کوشش کی گئ ہو بلکہ اس سے قبل بھی کئ مرتبہ علوم و فنون اور تاریخ کی حامل اس دانش گاہ کے تاریخی کردار کو نشانہ بنایا جا چکا ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہر مرتبہ ان جیسے فرقہ پرستوں کو ہزیمت و شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ اور یہ سب کچھ اقتدار کا نتیجہ اور اس کا نشہ ہے کیونکہ ہم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور دنیا کے دامن پر موجود عالمی ادارے بھی مسلسل اپنی آنکھوں سے اس بات کو بغور دیکھ کر بار بار اپنی پیش کردہ رپورٹس میں تحریر کر رہے ہیں کہ "مذہبی منافرت پر قابو پانے میں ہندوستان ناکام ہے”۔

پہلے مرکز اس کے بعد یوپی اور متعدد بڑی ریاستوں میں جب سے بی جے پی برسر اقتدار ہوئی ہے اس وقت سے فرقہ پرست طاقتیں حد سے زیادہ ہی کچھ بڑھ گئی ہیں جن کی فرقہ پرستی اور خون خرابہ پر نہ تو کوئی لگام کسی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی ان کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے والی طاقت سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ عملی اقدام اور کوئی مناسب کاروائی نہ کرکے بس زبانی خرچ اور من کی بات سے کام لیا جا رہا ہے۔

اب ۲/مئی کو جو دلخراش واقعہ احاطہ یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں کی طلبہ یونین؛ سابق نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب ڈاکٹر محمد حامد انصاری صاحب کو اپنی قدیم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تاحیات رکنیت سے نوازنے جارہی تھی، اور عزت مآب جناب انصاری صاحب پروگرام میں شرکت کے لئے یونی ورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں قیام پذیر بھی ہو چکے تھے کہ یکا یک ہندو یووا واہنی کے بیس سے پچییس کارکنان اپنے اسی مخصوص انداز اور وہی قدیم زعفرانی سوچ و لباس سے آہنگ نفرت انگریز نعرے لگاتے ہوئے باب سرسید پر پہنچ جاتے ہیں، اس دوران پولیس کے جوان ان کے ساتھ ہیں اور وہ بھرپور ان کی معاونت بھی کرتے ہیں، کارکنان مکمل جوش و خروش کے ساتھ اشتعال انگیزی سے کام لیتے ہیں، ان سب کی زبان پر جہاں جے شری رام اور وندے ماترم جیسے خالص مذہبی نعرے جاری تھے، وہیں چلا چلا کر وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ "بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے”۔

سوال یہ ہےکہ جب ہمارا یہ ملک جمہوری ہے اور جمہوریت میں ہر شخص ہر ادارے کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے کچھ بھی کرنے کی اجازت اور گنجائش ہے تو پھر ہندو یوا واہنی کے کارکنوں کے خلاف ابھی تک کسی بھی طرح کی کاروائی عمل میں کیوں نہیں آئ؟ پولیس، جس کی ذمہ داری میں حفاظت اور حالات کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے وہ دبنگوں اور شرارت پسندوں کی پشت پناہی کرنے میں جٹی تھی اس دوران متعصبانہ انداز پر اس نے جن نہتے اور بےقصور طلباء کو نشانہ بنایا؛ ان کو بھی برخاست اور معطل کیا جائے، اسی طرح طلباء نے جن مطالبات پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے اور ان کا کوئی ردّ عمل سامنے نہیں آیا ہے ان پر بھی ازسر نو غور کیا جائے تاکہ یونی ورسٹی میں اس وقت جو خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے وہ ختم ہو سکے اور تشددد پسند ٹولے کی ہمت پست اور کم ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔