حکیم محمدالیاس خاں

حکیم شمیم ارشاد اعظمی

آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں طب یونانی کی ترقی اور فروغ کے لیے جن طبیبوں نے نمایاں خدمات انجام دیں ہیں ، ان میں حکیم محمد الیاس خاں کا نام بہت ممتاز ہے۔ حکیم محمد الیاس خاں 1880 میں قصبہ سہاور ، ضلع ایٹہ اترپردیش میں ایک شیروانی خاندان میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کر نے کے بعد دہلی آگئے اور عربی درسیات کی تکمیل مدرسہ امینیہ، دہلی سے مکمل کی۔ طب کی تعلیم دہلی میں ہی رہ کر مدرسہ طبیہ میں حکیم عبد المجید سے حاصل کی۔ 1901 میں طب کی سند حاصل کر لینے کے بعد وطن واپس آگئے اور سہاور میں ہی مطب کر نے لگے۔ 1902میں ڈا کٹر ضیاء الدین(سابق شیخ الجامعہ حکیم صاحب علیگڈھ مسلم یونیورسٹی) چندہ کے سلسلہ میں سہاور گئے اور حکیم صاحب کو علیگڈھ  آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ حکیم صاحب دعوت قبول کرتے ہوئے علیگڈھ آگئے اور اوپر کوٹ میں اپنا ذاتی مطب قائم کیا۔ وقار الملک کے زمانہ میں جب علیگڈھ کالج میں طلبہ و اساتذہ کے لیے ایک یونانی شفا خانہ1909میں قائم ہوا تو اس میں بحیثیت طبیب آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ حکیم محمد الیاس خاں اوپر کوٹ میں اپنا نجی مطب بھی کرتے رہے۔ حکیم الیاس خاں 1920 کے اوائل تک علیگڈھ  میں خدمات انجام دینے کے بعد حکیم اجمل خاں کی خواہش پر دہلی پہنچے اور طبیہ کالج، قرول باغ میں ہائوس فزیشین، سپرنٹنڈنٹ کالج اور پروفیسر معالجات کی حیثیت سے وابستہ ہوئے۔ 1924میں طبیہ کالج چھوڑ کر صدر بازار دہلی میں مطب کر نے لگے۔ اس کے بعد پھر کالج سے وابستہ ہوئے اور حکیم اجمل خاں کے انتقال کے بعد جب کالج میں اقتدارکی جنگ شروع ہوئی توحکیم محمد الیاس خاں اپنے رفقائے کار حکیم کبیر الدین اور حکیم فضل الرحمان کو لیکر 1935 میں جامعہ طبیہ کے نام سے قرول باغ کے نزدیک شیدی پورہ کے چوراہہ پر ایک علاحدہ طبی ادارہ قائم کر لیا۔ حکیم الیاس نے اپنی زندگی ہی میں جامعہ طبیہ کو ہمدرد وقف کے حوالہ کردیا۔ اور اس کے تمام اخراجات 1949سے ہمدرد نیشنل فائونڈیشن نے برداشت کرنے شروع کیے۔ حکیم عبد الحمید صاحب کی سر پرستی میں آنے کے بعد کالج کو مزید ترقی کا موقع ملا۔ آج یہ ادارہ ہمدرد طبی کالج کے نام سے ملک کے ممتاز کالجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

 آزادی سے قبل اور بالخصوص آزادی کے بعد طب یو نانی کے احیا اور ترقی میں حکیم محمد الیاس خاں نے جو کوششیں کی ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حکیم محمد الیاس خاں کی طبی سیاسی زندگی کا آغاز 1908سے ہی ہو ا جب کہ آل انڈیا ویدک اینڈ یو نانی طبی کانفرنس کا قیام اس سے قبل9؍فروری 1906میں عمل میں آچکا تھا۔ حکیم محمد الیاس خاں اس وقت سے اس کی مجلس عاملہ کے ممبر ہوئے اور آخر دم تک کسی نہ کسی طور سے کانفرنس سے وابستہ رہے۔ حکیم محمد اجمل خاں کے انتقال کے بعد استاد کے جلائے ہوئے چراغ کو نا مساعد حالات میں بھی روشن رکھایہاں تک کہ تقسیم ہند کے پرآشوب وقت میں بھی کانفرنس کی جان و مال سے بڑھ کر حفاظت فر مائی۔ حکیم محمد الیاس خاں کا اہم کام آزادی کے بعد تمام اطبا کومتحد کرنا اور آل انڈیا یو نانی طبی کانفرنس کا احیا ہے۔ وید مان سنگھ کے بعد حکیم محمد الیاس خاں جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور 1950تک اس عہدہ پر رہ کرطب یو نانی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد میں خرابی صحت کی بنیاد پر اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے لیکن آخر وقت تک طب یو نا نی کے مسائل سے الجھتے رہے اور طب یو نانی کو استحکام اور ترقی دیتے رہے۔ جب ویدحضرات نے 1948میں تقسیم ہند کے نتیجہ میں اپنی الگ تنظیم بنا لی تو حکیم محمد الیاس خاں کی تحریک اورمساعی سے دہلی میں اطبا کا اجتماع ہوا۔ اس اجتماع کا مقصد طبی کانفرنس کو مستحکم اور منظم شکل دینا تھا۔ سبھی حضرات کا یہ اتفاق ہوا کہ تنظیم کانام وہی رکھا جائے جسے حکیم حافظ محمد اجمل خاں نے رکھا تھاالبتہ وید کا لفظ ہٹا دیا جائے کیونکہ ویدحضرات نے خود علاحدگی اختیا کر لی ہے۔ لہذا آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے نام سے دوبارہ طبی تنظیم قائم کی گئی۔ صدارت کا قرعہ فال حکیم عبد الحمیدؒ کے نام نکلا اور حکیم بی۔ این۔ شرما سکریٹری منتخب ہوئے۔ اپریل 1952 میں دہلی کے اندر اس کا پہلا اجلاس ہوا۔

حکیم محمد اجمل خاں اپنے شاگردوں کو لے کر2؍جولائی 1926 کو ایک مجلس تحقیق کی بنیاد رکھی اور ایک معاہدہ لیا جسے طب یو نانی میں لٹریری ریسرچ کی خشت اول کہا جائے گا۔ حکیم محمد اجمل خاں اس کمیٹی کے چیرمین اورحکیم محمد الیاس خاں اس کے ممبر سکریٹری ہوئے۔ معاہدہ پر حکیم محمد اجمل خاں کے علاوہ حکیم فضل الرحمان، حکیم محمد الیاس خاں ، حکیم کبیر الدین، حکیم محمد عبد الحفیظ اور سید ناصر عباس کے دستخط ہیں ۔ معاہدہ کے الفاظ اس طرح ہیں ۔ ’’ ہم نے آج2؍جولائی 1926 کو جمعہ کے دن ’ اصلاح طب کا کام ‘ جو حقیقت میں یو نانی طب کے لیے بمنزلہ اساس کے ہے ، شروع کیا ہے اور ہم خداوند تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس کام میں مدد دے اور ہمیں تو فیق عطا فر مائے کہ ہم اس جلیل القدر خدمت کو اپنی استطاعت کے مطابق برابر انجام دیتے رہیں ۔ ‘‘اس معا ہدہ کے ساتھ تنقید فن اور تنقیح طب کا کام شروع ہوا جو حکیم محمد اجمل خاں کے انتقال کے بعد 1931 تک جاری رہا۔ بعد میں ناگزیر حالات کے پیش نظر اس شعبہ کوبند کر دیا گیا۔ حکیم محمد الیاس خاں نے بحث و تمحیص اور تنقید و تنقیح کے بعد جو نتائج سامنے آئے انہیں ’’ قانون عصری‘‘ کے نام سے جمع کر کے حکیم محمد اجمل خاں کے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یہ کتاب1931میں منظر عام پر آئی۔ کلیات طب میں تحقیق کا یہ عظیم شاہ کار ہے۔ قانون عصری کے علاوہ آپ نے آل انڈیا آیورویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس میں اطبا کے پیش کردہ مجربات کو بھی کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کیا تھا۔

حکیم محمد الیاس خاں پنڈت کمیٹی جس کا مقصد دیسی طبوں کے لیے ایک مر کز تحقیق قائم کر نے سے متعلق تجاویز پاس کرنا تھی، کے ممبر رہے۔ یہ کمیٹی چوپڑہ کمیٹی (دسمبر 1946) کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس کمیٹی میں کل نوممبران پر مشتمل تھی۔ حکیم محمد الیاس خاں اس کمیٹی میں طب یو نانی کے واحد ممبر تھے۔ کمیٹی نے آپ کو اس وقت شامل کیا جب کمیٹی اپنا کام پورا کر چکی تھی۔ کمیٹی کی تمام روئیداد میں صرف ویدک ہی کا نام تھا کہیں بھی یو نانی لفظ نہیں تھا جو یقینا ویدوں کی عصبیت کا نتیجہ تھا۔ حکیم محمد الیاس خاں نے اس بات پر اعتراض کیا اور کہا کہ جب مسئلہ دیسی طبوں کی تحقیق کا ہے تو صرف ویدک ہی کیوں ؟۔ چنانچہ اس اعتراض کے بعدویدک کے مساوی یو نانی بھی لکھا جا نے لگا۔

1954میں حکومت نے دیسی طبوں کی بہتری کے لیے دہلی میں بورڈ آف آیورویدک اینڈ یونانی سسٹم آف میڈیسن بنایا گیا تو حکیم محمد الیاس خاں اس کے ممبر نامزد کیے گئے۔ یونانی طب کے ترجمان کی حیثیت سے وہاں آپ نے قابل قدر کام کیا۔ 1955میں دیسی طبوں کے نصاب و تحقیق کے لیے حکومت نے جو ریسرچ کمیٹی قائم کی تھی اس کے بھی ممبر مقرر کیے گئے تھے۔ اس طرح مرکزی حکومت کی مقرر کردہ کمیٹیوں ، چوپڑا کمیٹی، پنڈت کمیٹی اور دوے کمیٹی کے آپ ممبر رہے۔

طب کا مرد مجاہد ، تحریک اجمل کا جانباز سپاہی، جامعہ طبیہ کابانی، محی الطب آخر کا راپنی تمام خدمات اور کمالات کو ہمارے لیے چھوڑ کر ۸۲ ؍سال کی عمر میں 26 فروری 1963 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ حسب وصیت 17فروری کو قبرستان مہندیان میں مدفون ہوئے۔

تبصرے بند ہیں۔