حکومت کے ناپاک ارادے اور ہماری سادہ لوحی

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

 مسلمانوں کے عائلی قوانین کے تعلّق سے ہندوستان کی موجودہ حکومت کے ناپاک اور خطرناک ارادے ظاہر ہوگئے ہیں۔ حکومت کو اگر خواتین اور لڑکیوں کی فلاح و بہبود کی واقعی فکر ہوتی تو وہ ملک میں ریپ کے بڑھتے واقعات پر روک لگانے کی سنجیدہ کوشش کرتی۔ مگر اسے تو اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کی فکر ہے، تاکہ ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ہندوؤں کے ووٹ بٹورے جا سکیں۔ چنانچہ اس نے پہلے تین طلاق کا ایشو ابھار کر اسے قابلِ تعزیز جرم قرار دینے کی کوشش کی، تبنّیت (گود لینے) اور وراثت میں لڑکیوں کے حصے کے معاملات میں اسلامی تعلیمات کے خلاف قانون سازی پر غور کر رہی ہے، تعدّدِ ازدواج کی اجازت کو نشانہ بنانے کی تیاری ہے اور اب ‘حلالہ’ کا موضوع گرم ہے۔ میڈیا کو مرچ مسالہ چاہیے۔ رائی کا پربت بنانا اسے خوب آتا ہے۔ اور ہماری سادہ لوحی کہ ہم حکومت کی چال کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور آپس ہی میں دست و گریباں ہیں۔

 اسلام کا نظامِ طلاق بالکل واضح ہے۔ اس کا صحیح تعارف ہو تو ہر شخص اسے عورت کے حق میں رحمت قرار دے گا۔ لیکن عام مسلمانوں کے ذریعے اس پر عمل نہ کرکے اسے بڑا بھیانک بنا دیا گیا ہے۔ زوجین کے درمیان تنازعہ پیدا ہوجائے تو اسے حل کرنے کی اسلام کئی تدابیر بتاتا ہے، پھر بھی نوبت طلاق تک پہنچ جائے تو وہ شوہر کو دو مرتبہ طلاق کے الگ الگ مواقع عطا کرتا ہے اور وارننگ دیتا ہے کہ اگر اس نے تیسری مرتبہ طلاق دی تو بیوی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے گا۔ تیسری طلاق کے بعد مرد اور عورت دونوں کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ جس سے چاہیں نکاح کرکے ازدواجی زندگی گزاریں۔ اب اگر مطلّقہ عورت نے کسی دوسرے مرد سے نکاح کیا اور اس نے بھی اسے طلاق دے دی یا وہ بیوہ ہو گئی تو اسلام اسے تیسرا نکاح کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے۔ یہ نکاح جس طرح کسی دوسرے مرد سے ہوسکتا ہے اسی طرح اگر پہلا شوہر اس سے پھر نکاح کا خواہش مند ہو اور وہ عورت بھی راضی ہو تو ان دونوں کا بھی نکاح ہوسکتا ہے۔ یہ ایک سہولت ہے جو اسلام نے عائلی زندگی میں مرد اور عورت کو فراہم کی ہے، لیکن ہماری بدعملی نے اسے مصیبت اور اسلام کی بدنامی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

فقہی تصلّب نے  ایک موقع کی تین طلاق کو تین ماننے پر اصرار کیا۔ حالاں کہ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے دورِ عروج میں طلاق مرد کے لیے سزا اور عورت کے لیے باعثِ منفعت ہوتی تھی۔ اس لیے کہ مرد کو نئے نکاح کے لیے مصارفِ نکاح اور مہر وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا تھا، دوسری طرف عورت کا لازماً نیا نکاح ہوجاتا تھا اور نئے نکاح پر وہ مہر کی مالک بنتی تھی۔ اب حالات بالکل برعکس گئے ہیں۔ طلاق  عورت کے لیے سزا بن گئی ہے۔ اس کے پہلے نکاح ہی کے لالے پڑے رہتے ہیں، دوسرے نکاح کی امید کون کرے؟ اور طلاق مرد کے لیے باعثِ منفعت بن گئی ہے کہ ہر نئے نکاح پر اسے ڈھیر سا جہیز ملنے کی امید ہوتی ہے۔

ایک مجلس کی تین طلاق کو تین مان کر ہم نے رجوع کے تمام دروازے بند کردیے تو حلالہ کی دوکانیں کھل گئیں اور  مفاد پرستوں کا کاروبار چمکنے لگا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ تین طلاق بول کر اپنا غصّہ اتارنے والے شوہر کو غصّہ اترنے کے بعد پشیمانی ہونے پر اور اپنے بچّوں کی صورتیں دیکھ کر، اپنی بیوی کو واپس لینے کی کوئی نہ کوئی تدبیر ڈھونڈنی ہی تھی۔ حلالہ کے کاروباریوں نے اس کی مشکل آسان کردی۔  اگر یہ منصوبہ بند حلالہ حرام ہے اور واقعی حرام ہے تو علماء پر لازم ہے کہ عوام کو اس سے نکالنے کی جائز تدابیر کی نشان دہی کریں۔

موجودہ حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حلالہ کی کون سی صورت جائز ہے اور کون سی صورت حرام ؟ اسے تو بس ہماری نادانی سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ تین طلاق اور حلالہ کا ایشو چھیڑ کر اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کو پریشان کیا جا سکتا ہے۔  پھر کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اس موضوع پر بے جا نکتہ آفرینیاں نہ کریں۔

 15 جولائی 2018 کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ سے کئی روز پہلے ہی ماحول گرم ہوگیا تھا۔ دار القضاء کو ملک کے عدالتی نظام کے متوازی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کی باتیں کی جانے لگی تھیں۔ پریس کانفرنس میں شر پسند صحافیوں نے حلالہ اور تین طلاق کا موضوع چھیڑا اور حکومت کے ذریعے ان پر پابندی کی صورت میں بورڈ کیا کرے گا ؟ اس کے تعلق سے جاننا چاہا۔ بورڈ کے ذمے داروں نے کہا کہ اس کا جواب دیا جائے گا اور اسلامی تعلیمات کا دفاع کیا جائے گا۔ میڈیا ان باتوں کو لے اڑا۔ صحافیوں نے اپنے اپنے طور پر ان کی ترجمانی کی، جن میں بعض نادان مسلم صحافی بھی شامل ہیں، حتّی کہ بعض نے یہ تک لکھ دیا کہ بورڈ کے ذمے داروں نے حلالہ کو اسلام کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس وقت سے مختلف چینلوں پر طوفانِ بدتمیزی جاری ہے اور بورڈ کے ذمے داروں کو صلواتیں سنائی جا رہی ہیں، حالاں کہ بورڈ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں اور اس کے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی ان باتوں کی صاف الفاظ میں تردید کردی گئی ہے جو اس کی جانب منسوب کی جا رہی ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ مروّجہ حلالہ حرام ہے، حرام ہے، حرام ہے۔ آخر اس کو کس نے حلال کہہ دیا جو اتنے زور دار انداز میں اس کی حرمت کا اعلان کیا جا رہا ہے؟ بورڈ کے علماء بھی اسے حرام سمجھتے ہیں اور حرام کہتے ہیں۔ مخالفت کی شدّت میں ایک اہم قانونی پہلو نگاہوں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ اس پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایک عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی۔ اس کا نکاح دوسرے مرد سے ہوگیا۔ اب اگر دوسرے شوہر سے بھی اس کا نباہ نہ ہوپائے تو کیا اسے (دوسرے شوہر کو) اس عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے؟

اگر وہ طلاق دے دے تو یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ اس نے اُس عورت سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے طلاق دی ہے یا سابق شوہر سے اس کا نکاح حلال کرنے کے لیے؟  کسی کے دل میں جھانکنے اور اس کی نیت کی جانچ کرنے کا کون سا پیمانہ ہوگا؟

کیا یہ کہا جائے گا کہ اگر مطلّقہ عورت کے نکاحِ ثانی کے بعد پھر اسے طلاق دے دی جائے تو پہلا شوہر اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اس کے نکاح کرنے کی صورت میں یہ شبہ قوی تر ہوجائے گا کہ اس نے ساز باز کرکے دوسرے شوہر سے اسے طلاق دلوائی ہے؟

اگر حکومت یہ قانون بنادے کہ تین طلاق کے بعد شوہر دوبارہ اپنی مطلّقہ سے نکاح نہیں کرسکتا، چاہے دوسرے نکاح کے بعد دوبارہ وہ مطلّقہ یا بیوہ ہوگئی ہو تو کیا ہم اس کی تائید کریں گے؟ کیا یہ اسلامی قانون میں مداخلت نہ ہوگی؟

سیلاب آگیا ہو تو موذی حشرات الأرض بھی ایک لکڑی کے تختے پر اکٹھا ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ڈنک نہیں مارتے۔ اسی طرح دشمنوں کی طرف سے اسلام کی عائلی تعلیمات نشانے پر ہوں تو ان کی جزئیات میں اختلافات کو ہوا دینا اور انھیں طشت از بام کرنا دانش مندی نہیں ہے، بلکہ مل جل کر دشمن کا مقابلہ کرنا اور اس کے ارادوں کو ناکام بنانا وقت کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔