عربی ادبیات کے اردو تراجم : تحقیق وتنقید

نایاب حسن

 جس طرح ایک ملک سے دوسرے ملک یاایک شہرسے دوسرے شہرکی سیاحت سے انسان پرتہذیب وثقافت اورعلم وفکرکے نئے گوشے واضح ہوتے اوربہت سی نئی باتوں کاعلم حاصل ہوتاہے، اسی طرح علمی اورادبی دنیامیں ترجمہ ایک ایسافن ہے، جس کے واسطے سے ایک زبان کے جاننے والے دوسری زبان کے علمی، ادبی، فکری وثقافتی انقلابات، تغیرات اورترقیات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں، ترجمہ کی مختلف قسمیں ہیں اورہرقسم کی اپنی خصوصیات ہیں، جنھیں پیشِ نظررکھ کرایک مترجم ایک زبان کے فن پارے کودوسری زبان میں منتقل کرتاہے، ترجمہ کسی بھی زبان کے علمی، ادبی و فکری سرمایے میں اضافہ کرتاہے، اس زبان کے جاننے والوں کونئے ادبی وثقافتی اورعلمی آفاق سے آگاہی بخشتاہے اوربہت سے ایسے نکات وامورسے واقف کراتاہے، جومترجم الیہ زبان میں نہیں پائے جاتے۔ ہرزبان میں اور ہرزمانے میں ترجمے کی روایت رہی ہے، البتہ کسی بھی عہد میں زیادہ تر ترجمے اُس زبان سے ہوئے ہیں، جس کا عالمی ثقافت، ادب، معیشت، سیاست اور سائنس پرغلبہ و تسلط رہاہے، گزشتہ دوتین صدیوں سے انگریزی زبان کو یہ امتیاز و خصوصیت حاصل ہے، سواس زبان کے لٹریچرکا دنیاکی مختلف زبانوں میں تسلسل کے ساتھ ترجمہ ہورہاہے۔

اردوزبان میں ترجمے کی روایت کاآغازسترہویں صدی میں ہوا اوراب تک اِس زبان میں دنیابھرکی مختلف زبانوں کے علمی وادبی سرمایے منتقل کیے جاچکے ہیں، اردو زبان کوچوں کہ عربی سے ایک مخصوص قسم کی ہم آہنگی ہے، رسم الخط سے لے کراردوکی لفظیات کاایک معتدبہ ذخیرہ خالص عربی زبان سے اِدھرمنتقل ہواہے، بہت سے عربی الفاظ تووہ ہیں، جوآج بھی اردوزبان میں بعینہ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ کچھ الفاظ کواردووالوں نے اپنے مخصوص مذاق ومزاج میں ڈھال لیاہے، عربی کے بغیراردوزبان کاتصورہی نہیں کیاجاسکتا، گرچہ اس زبان میں دیگرمقامی وعالمی زبانوں کے بھی بہت سے الفاظ مستعمل ہیں، مگر اردو کے تعلق سے جوحیثیت عربی کی ہے، وہ دوسری زبانوں کی نہیں ہے، جب یہ ایک حقیقت ہے، تواردومیں عربی کی مختلف الموضوعات کتابوں کاترجمہ ہونابھی یقینی اوربدیہی ہے، سوایک عرصے سے عربی کی کتابیں اردومیں منتقل ہوتی رہی ہیں، البتہ اس سلسلے میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ایسی کتابوں میں زیادہ ترمذہبیات یاعربی کی درسی ونصابی کتابیں شامل ہیں، جن کے ترجمے کیے جاتے رہے ہیں، عربی کی غیردرسی یاادب کی مختلف اصناف پرمشتمل کتابوں کے اردو ترجمے کاسلسلہ قدری سست روی کاشکاررہاہے، جس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔

بہرحال عربی ادبیات کے اردوتراجم کی تحقیق وتنقیدایک منفرد، اَن چھوا، مگرنہایت اہم موضوع ہے، جس پردیدہ ریزی اوربصیرت مندی سے کام کرنے کی ضرورت تھی، برادرِ گرامی، نئی نسل کے قابلِ قدراہلِ قلم اورتحقیق وتنقید کی نئی جہتوں کے اکتشاف کاذوق رکھنے والے ڈاکٹرابراراحمداجراوی نے اس موضوع کی اہمیت کاادراک کیااورنہایت عرق ریزی کے ساتھ عربی ادبیات کے اردو تراجم کاجائزہ لیاہے، یہ کتاب ان کے بے مثال ذوقِ تحقیق کا شاہکار ہے، اس میں انھوں نے ترجمہ نگاری کی فنی توضیح، خصوصیات وامتیازات کوآشکارکرتے ہوئے عربی اردوترجمہ نگاری کے مختلف زمانی ومکانی مراحل کاقدرے تفصیلی جائزہ لیاہے، جبکہ ایک مستقل باب میں عربی کے شعری تراجم اورنثری تراجم میں سیرت وسوانح، خودنوشت، داستان/حکایت، ناول / ناولٹ، قصہ /افسانہ، ڈرامہ، سفرنامہ، تنقید، ادبی تاریخ، بلاغت، انشائیہ، خطبات، کارٹون، لطیفہ، خطوط کے اردوتراجم کاتجزیہ وتحقیق کی گئی ہے۔

   کتاب جس طرح اپنے موضوع کے اعتبارسے انفرادیت کی حامل ہے، اسی طرح اس کے مشمولات میں بھی ایک قسم کاامتیازی وصف پایاجاتاہے، اس کے مطالعے سے قاری پرمعلومات کے نئے درواہوتے اورساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتاہے کہ مصنف نے ان معلومات کواکٹھاکرنے میں غیرمعمولی جدوجہد اور تحقیق وجستجوسے کام لیاہوگا، اس کااندازہ مآخذومراجع کی لمبی فہرست سے بھی لگایاجاسکتاہے، جس میں لگ بھگ سوکتابیں شامل ہیں، ان کتابوں سے مصنف نے براہِ راست رجوع کیا، ان کے اوراق وصفحات کوکھنگالا اوراپنے موضوع سے انصاف کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ ابرارصاحب خودبھی ایک منجھے ہوئے ترجمہ نگارہیں اور کئی زندہ زبانوں میں دست گاہ رکھتے ہیں، سوانھوں نے ان تراجم کے جائزے میں لسانی واقفیت، علمی آگاہی اور فنی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے زبان وبیان اوراسالیبِ اداکانہایت منصفانہ تجزیہ کیاہے، چوں کہ وہ اردوکے ایک شستہ نگاراہلِ قلم بھی ہیں، سوتحقیق وتنقیدجیسے خشک موضوع پرلکھتے ہوئے بھی زبان کی سلاست اوربیان کی شیرینی کوانھوں نے بخوبی برتاہے، ان کی نثرمیں ایک قسم کا تسلسل ہے، جس سے قاری لطف بھی اٹھاتاہے اوراس منفردموضوع پراپنی معلومات میں اضافہ بھی کرتاجاتاہے۔

 دوسوچالیس صفحات پرمشتمل یہ کتاب طباعت اورظاہری ترتیب وتزیین کے اعتبارسے بھی خوب صورت اور’’عروسِ جمیل درلباسِ حریر‘‘کی مصداق ہے، البتہ بعض مقامات پرکمپوزنگ کی غلطیاں بھی درآئی ہیں، بعض الفاظ کی کتابت میں حروف مقدم ومؤخرہوگئے ہیں، البتہ صفحہ نمبر 47؍پرمصنف نے بیسویں صدی کے معروف اہلِ قلم، صحافی ومترجم مولاناعبداللہ عمادی کانام ’’عباداللہ‘‘لکھاہے، جوقابلِ توجہ ہے، حالاں کہ کچھ دورچل کر صفحہ نمبر 95؍ پر ’’طبقاتِ ابن سعد‘‘ کے اردوترجمے کاتعارف کرواتے ہوئے (جومولاناموصوف نے کیاتھا)ان کاصحیح نام لکھاگیاہے، گویاپہلی جگہ سہواً ’’عباداللہ‘‘ تحریر ہوگیا ہے۔ عبداللہ عمادی نہایت ہی قابل اوراعلی درجے کے مترجم تھے، ہندوستان و یمن کے کبارعلماکے فیض یافتہ تھے، ان کی پیدایش جونپورکی تھی اور آبا و اجداد یمنی النسل تھے، انھوں نے مشہوراخبار’’وکیل ‘‘امرتسراور’’زمیندار‘‘لاہورکے مدیرکے طورپرکام کیا، لکھنؤسے اپنا رسالہ ’البیان‘ نکالا، جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سارے مضامین عربی زبان میں ہوتے تھے اور ساتھ ہی ان کے اردوترجمے بھی شائع کیے جاتے تھے، یہ رسالہ ہندوستان سے زیادہ مصر، شام، عراق، الجزائر، ترکی، تیونس و مراکش میں پسند کیاجاتا تھا اور احمد ذکی پاشا اور رفیق بک جیسے لوگ اس کے مداح تھے، چند ماہ انھوں نے ندوۃ العلماکے رسالہ ’’الندوہ‘‘ کی بھی ادارت کی، مولانا آزاد نے جب ’’الہلال‘‘جاری کیا، توانھیں بہ اصراراس کی مجلسِ ادارت میں شامل کیا اورجب 1917میں جامعہ عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی گئی اورساتھ ہی دارالترجمہ کی بنیادرکھی گئی، توعربی زبان سے ترجمے کے لیے انھیں مقررکیاگیا، مولاناعمادی نے طبقاتِ ابن سعدکے علاوہ کئی دیگراہم عربی کتابوں کابھی ترجمہ کیاتھا، جن میں ابن جریرطبری کی مشہورتاریخِ طبری اورتاریخِ مذاہبِ عالم پر علامہ ابن حزم کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’الملل والنحل‘‘بھی شامل ہے، مؤخرالذکر ترجمہ شروع میں تین جلدوں میں ’’قوموں کاعروج وزوال ‘‘کے نام سے شائع ہواتھا، 2006میں المیزان، لاہورنے انھیں یکجا کرکے شائع کردیاہے، جوایک ہزارسے زائدصفحات پرمشتمل ہے، انھوں نے معروف مؤرخ مسعودی کی کتاب’’التنبیہ والاشراف ‘‘کابھی ترجمہ کیا تھا، جواولاً جامعہ عثمانیہ سے 1926 میں شائع ہوا، دوبارہ پاکستان سے1967 ء میں اوراب گزشتہ سال ادارہ قرطاس، کراچی سے ڈاکٹرنگارسجادظہیرکی نظر ثانی و تہذیب کے ساتھ شائع ہواہے۔ انہوں نے ابن قتیبہ دینوری کی دلچسپ کتاب’’المعارف‘‘، تاریخِ یعقوبی کی دوسری جلداوردیگرکئی اہم کتابوں کا ترجمہ کیا، دارالترجمہ کے زیر اہتمام اردوزبان میں جو ہزاروں اصطلاحات وضع کی گئیں، ان میں علامہ عمادی کا رول اہم تھا، گرچہ ادارے کی جانب سے ان کے تحفظ و اشاعت کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کیاگیا اورمابعدسینتالیس کے سیاسی انقلاب کے ہاتھوں یہ قیمتی علمی و ادبی ذخیرہ بھی تباہ ہوگیا۔ فلسفۃ القرآن، علم الحدیث، تاریخِ عرب قدیم، صناعۃ العرب، کتاب الزکاۃ اور محکمات وغیرہ ان کی اہم تالیفات ہیں۔

 بہرکیف ابرارصاحب کا یہ کام اپنے موضوع پر نہایت اہم اور غیر معمولی ہے اور چوں کہ یہ اس سلسلے کی پہلی کاوش ہے؛اس لیے بہت ممکن ہے کہ بعض کتابیں، تراجم ذکرسے رہ گئے ہوں۔ ابرارصاحب خودبھی اعتراف کرتے ہیں کہ :’’کوئی تحقیقی تصنیفی کام حرفِ آخرنہیں ہوتا، یہ کتاب بھی اس حوالے سے حرفِ آخرنہیں ہے، اسے حرفِ اول بھی متصور کرنے میں حرج نہیں، یہ توخشتِ اول ہے، پوری عمارت کی تعمیر کاعمل باقی ہے ‘‘۔ (ص:۱۷-۱۶)ایک دوسری جگہ بھی وہ اس موضوع کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’عربی زبان سے خالص ادبی کتابوں کے بھی بہت ترجمے ہوئے ہیں، مگران تمام کتابوں کی تلاش و جستجو نہایت مشکل امرہے۔ ۔ ۔ تنہااکیلاآدمی کہاں کہاں کی گردجھاڑے، کن کن لائبریریوں کے کیٹلاگ کھنگالے، جوکتابیں ہمیں دستیاب ہوئیں، ان کی روشنی میں ہم نے ان ادبی کتابوں کے مضامین وموضوعات اور ترجمہ کے محاسن ومعائب کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ‘‘۔ (ص:۵۵-۵۴) بہرکیف ان کی اس وقیع پیش رفت کے بعد اب جب چراغ سے چراغ جلنے کا عمل شروع ہوگا، تویقیناً اس موضوع کے نئے گوشے لوگوں کے سامنے آئیں گے اوراس ضمن میں ابرارصاحب کی یہ کتاب مشعلِ راہ کاکام کرے گی۔

قلم و قرطاس سے ابرارصاحب کی وابستگی لگ بھگ دودہائیوں کومحیط ہے، اس عرصے میں انھوں نے مختلف علمی، ادبی، تنقیدی، مذہبی و سماجی موضوعات پر سیکڑوں مضامین لکھے، جوقومی و بین الاقوامی رسائل، اخبارات و مجلات میں شائع ہوکر تحسین وپذیرائی حاصل کرچکے ہیں، بہت سے ترجمے بھی کیے ہیں، بیسویں صدی کے مشہور مفکر و مصنف مولانامناظراحسن گیلانی کی کتاب ’’تذکیر بسورۃ الکہف‘‘ اورحکیم الاسلام قاری محمد طیب کی کتاب’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘پر تحقیق و تخریج کاکام کیاہے، ایک سیرت کی کتاب کا عربی سے ترجمہ کیاہے، جبکہ سال بھرپہلے ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’ادب امکان‘‘کے نام سے شائع ہوکر قبولیت حاصل کرچکاہے، ’’تمثیلِ نو:ادبی صحافت کا نقش‘‘بھی انھوں نے مرتب کیاہے، یہ دراصل دربھنگہ سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ’’تمثیلِ نو‘‘کامفصل اشاریہ ہے، فی الحال ان کی دواہم کتابیں زیرطبع ہیں :ایک ’’عربی ناول:تجزیہ اور تقابل‘‘اور دوسری’’اقبال، اقبالیات اور دیوبند‘‘۔

  اس کتاب کے اندرونی سرورق سے پتاچلاکہ ڈاکٹرابراراحمداجراوی جھارکھنڈکے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسربھی ہوگئے ہیں، ہم انھیں اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ اسسٹنٹ پروفیسربننے پربھی قلبی مبارکبادپیش کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ گزشتہ کتابوں کی طرح ان کی تازہ ترین تصنیف بھی اربابِ ذوق کے حلقوں میں پذیرائی و قبولیت حاصل کرے گی۔ کتاب کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے عمل میں آئی ہے اور قیمت 325روپے ہے۔

تبصرے بند ہیں۔