حکیم محمد اسلام اللہ مرحوم

حکیم فخرعالم

14مارچ 2018کی صبح فیس بک کے ذریعہ حکیم محمد اسلام اللہ صاحب کے انتقال کی خبر ملی (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کا انتقال دہلی میں پونے تین بجے شب میں ہوا،جہاں وہ غدۂ مذی کے سرطان کے سلسلے میں زیر علاج تھے۔ رات ساڑھے دس بجے نماز جنازہ ہوئی اور علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی کی منٹوئی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ حکیم محمد اسلام اللہ صاحب راقم کے اساتذہ میں تھے۔ اجمل خاں طبیہ کالج میں میرے بیچ کو فزیالوجی پانچ چھ اساتذہ نے پڑھائی تھی،انہیں میں سے ایک حکیم محمد اسلام اللہ صا حب بھی تھے۔ ان کا انداز تدریس یہ تھا کہ وہ نفس مضمون کی ضروری وضاحت کے بعدپابندی کے ساتھ طلبہ کو نوٹس لکھواتے۔ چونکہ کلاس میں سائنس اور اورینٹل دونوں ہی اسٹریم کے تلامذہ تھے اس لیے وہ دونوں کی رعایت ملحوظ رکھتے۔ ایک بار اورینٹل اسٹریم والوں کو اردو میں نوٹ لکھواتے، پھر سائنس اسٹریم والوں کو انگریزی میں۔ ــانہیں یہ دہری محنت اس لیے کرنی پڑتی کہ سائنس کے طلبہ فزیالوجی کی اردو زبان میں استعمال ہونے والی ادق اصطلاحیں سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

حالانکہ بی یو ایم ایس کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے اور طلبہ سے اتنی توقع ہوتی ہے کہ وہ مصطلحات کو سمجھ سکیں گے، مگر عملاًایسا ہو نہیں رہاہے۔ میں اسے ان کے درس کی خوبی کہوں گا کہ وہ جتنا طلبہ کو پڑھاتے تھے، طلبہ کم از کم اُتنا سمجھ لیتے تھے اور اگر نہیں سمجھ پاتے تو اُن سے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کرتے اور وہ سمجھانے کی۔ یہ معمولی بات قابل ذکر اس لیے ہے کہ بعض اساتذہ  کے لکچر کا معیار اتنا بلند ہوتا کہ طلبہ کے سروں سے گزر جاتاہے،اس سے اُن کی علمیت کا رعب تو طلبہ پر ضرور پڑتا،مگر اس سے طلبہ کو کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ بعض اساتذہ کے لیے پڑھانا صرف اں کی ڈیوٹی کا ایک حصہ تھا، انہیں اس سے قطعاً کوئی  غرض نہیں تھی کہ ان کے لکچر سے طلبہ کے پلے کچھ پڑ بھی رہا ہے کہ نہیں۔ کچھ نہ سمجھنے کے باوجود طلبہ کی بھی جرأت نہیں تھی کہ ان سے کوئی استفسار کرسکیں۔

حکیم اسلام اللہ صاحب کی شخصیت کا اخلاقی پہلو بہت متاثر کن تھا۔ گورا چٹا باریش، متبسم اوروجیہ چہرہ، ہلکا پھلکا درازی مائل جسم، یہی ان کا سراپا تھا۔ ہمیشہ کرتا پائجامہ شیروانی اور ٹو پی زیب تن کیے ہوتے، شر فاء کے اس لباس میں مزاجی شرافت کے ساتھ ان کی شخصیت بڑی جاذبِ نظر تھی۔ تمام ہی طلبہ کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ،ہمدردانہ اور بہی خواہانہ رہا ہے۔ ان کے یہاں کبھی کوئی تفریق یا کسی کے لیے جانبداری نہیں تھی،ہر طالب علم اُن کا تھا اور وہ ہر طالب علم کے لیے تھے۔

حکیم محمد اسلام اللہ کا نسبی تعلق ایک طبی خانوادے سے تھا، ان کے والد حکیم محمد اکرام اللہ اپنے عہد کے بڑے حاذق اور صاحب کمال طبیب تھے۔ انہوں نے طب کی تعلیم حکیم عبد العزیز لکھنوی سے حاصل کی تھی، وہ راجہ صاحب کھجور گاؤں تعلقداراودھ کے طبیب خاص رہے ہیں۔ حکیم محمد اسلام اللہ کے برادر بزرگ حکیم محمد افہام اللہ بڑے پایے کے طبیب گزرے ہیں ، علی گڑھ میں ان کی حذاقت کا شہرہ آج بھی ہے۔ انونہ ہاؤس میں مریضوں کا کثیر مرجوعہ دراصل انہیں کا سلسلۂ فیض ہے،جو ان کے بیٹے حکیم کلیم اللہ کے توسط سے جاری ہے۔

حکیم محمد اسلام اللہ کی ولادت 2اگست 1937کو رائے بریلی کے بازید پور دھمدھمہ میں ہوئی۔ انہوں نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی تھی جو مذہب کی خوشبو سے معطر تھا، یہ اثر اُن کی شخصیت میں بھی رچا بسا تھا۔ حکیم صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ پھر قصبہ انہونہ ضلع رائے بریلی سے مڈل پاس کرکے یہیں سے 1954 میں ہائی اسکول کیااور چند برس لکھنؤ میں قیام پزیر رہے۔ مگر  خاندان میں یونانی طب ذریعۂ معاش چلی آرہی تھی، اس لیے آخر کار حکیم محمد اسلام اللہ نے بھی اسی کو وسیلہ بنایا۔ ان کے بڑے بھائی حکیم محمد ا فہام اللہ اجمل خاں طبیہ کالج میں استاذ تھے اور یہاں کے بااثر لوگوں میں تھے،وہ یہاں شعبہ ٔ طب و جراحت کے صدر اور کچھ دنوں پرنسپل بھی رہے ہیں۔ اس تعلق کی بنیاد پر حکیم محمد اسلام ا للہ نے اجمل خاں طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور1966 میں BUMSکی سند حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعدتقریباًدو برس اپنے والد محترم کے مطب میں بیٹھ کر طبابت اور تشخیص و تجویز کے عملی نکات سیکھے اور سرکاری ملازمت میں آگئے۔ تین سال بہٹہ گوگل ضلع ہردوئی میں ڈسپنسری انچارج رہنے کے بعد اس ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور قصبہ جہان آباد میں ذاتی پریکٹس شروع کردی۔ 1973میں برادر بزرگ حکیم افہام اللہ کے ایماء پر علی گڑھ آگئے اور اجمل خاں طبیہ کالج میں ڈیمانسٹریٹر مقرر ہوئے۔ تقریباً 24برس یہاں خدمت انجام دینے کے بعد 2اگست1997کو بحیثیت ریڈر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

مطب و معالجہ سے حکیم صاحب کاپشتینی تعلق تھا، جو کم و بیش سو برس سے ان کے خاندان میں جاری تھا،حکیم صاحب کوبھی اس سے فطری مناسبت تھی، مگر ملازمتی بند شوں کی وجہ سے وہ اسے برت نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ سبکدوشی کے بعدانہوں نے انونہ ہاؤس کے ایک حصے میں مطب شروع کیا۔ یہ مطب دراصل خاندانی روایت کا احیاء و تسلسل تھا۔ اِسی بہانے کچھ خدمت خلق بھی ہو جاتی اور یہ ان کی مصروفیت کا عمدہ سامان بھی تھا،سبکدوشی کے بعد کے خالی لمحات کے لیے۔

حکیم محمد اسلام اللہ صاحب سے میری آخری گفتگو یہی کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے ہوئی ہوگی۔ بڑی شفقت سے انہوں نے بات کی تھی۔ ویسے بھی ان کا لب و لہجہ میں نے ہمیشہ نرم و شیریں ہی پایا۔ ان کے بارے میں یہی تاثر تقریباً ہر کسی کا دیکھا ہے۔ نہ اُن سے کبھی کسی کی شکایت سنی اور نہ ہی ان کے بارے کسی کو شاکی دیکھا۔ ایسے اخلاق کریمانہ رکھنے والے لوگ میں نے کم ہی دیکھے ہیں۔ واقعی وہ  شرافت و مروت کا کردار رکھنے والے کم یاب لوگوں میں تھے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔