حکیم مختار اصلاحی کی طبی خدمات

ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

میانہ قد، سانولا رنگ،چھریرا بدن،کرتا پایجامہ،  علی گڈھ شیروانی میں ملبوس، سر پر مخملی ٹوپی، تیز چمکتی ہوئی آنکھیں، پیشانی پر سجدوں کے نشان،چہرے پر خوش نما ڈاڑھی کے ساتھ متانت و سنجیدگی کا غلبہ، ہاوٗ بھاوٗ سے خاکساری و انکساری نمایاں، یہ تھے حکیم محمد مختار اصلاحی صاحب، جن سے میری پہلی ا ور آخری ملاقات مدرسۃ الاصلاح پر ہونے والے مولانا فراہی سیمینار(۸۔۱۰ ؍اکتوبر ۱۹۹۱ء) کے اسٹیج پر ہوئی تھی۔ در اصل ان دنوں مدرسۃ الاصلاح پر کلاس میں اول،دوم،سوم آنے والے طلبہ کو ان کی حوصلہ افزائی کے لئے کتابوں کی صورت میں کچھ انعامات دیے جاتے تھے۔ اس سال یہ انعامات مولانا فراہی سیمینار میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ حسب سابق اس آخری سال یعنی ’’فضیلت‘‘ میں بھی راقم السطورکی پہلی پوزیشن تھی، مزید برآں اسی سال ہونے والے ایک مضمون نویسی مقابلہ میں بھی راقم السطور کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا، حسن اتفاق کہ مذکورہ دونوں انعامات راقم السطور کو حکیم محمد مختار اصلاحی صاحب کے ہاتھوں سے نصیب ہوا۔ رسمی انعامات کے بعد اسی اسٹیج پر حکیم مختار اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب ــــ ـــ ’’اطباء اور ان کی مسیحائی‘‘ اپنے دستخط کے ساتھ عنایت فرمائی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، اس کتاب پر حکیم مختار اصلاحی کے دستخط کے ساتھ ۹ ؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کی تاریخ درج ہے۔

حکیم مختار اصلاحی میرے ہم وطن یعنی ضلع جونپور کی تحصیل شاہ گنج کے ایک گاوں صبرحد کے رہنے والے تھے، وہیں ۱۵ فروری ۱۹۱۵ء کو ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے دادا شیخ علیم اللہ نے ان کا نام رفعت اللہ رکھا، لیکن یہ نام صرف انہیں تک محدود رہا اور ایک عالم دین کا دیا ہوا تاریخی نام’’ محمد مختار‘‘ مقبول ہوا اور تمام اسناد و دستاویزات میں یہی نا م د رج ہوا، اور اسی نام سے وہ مشہور ہوئے۔ آپ کے والد مولانا خلیل اللہ صاحب عالم دین تھے جبکہ والد ہ مو ضع چتارہ ضلع اعظم گڈھ کے اس علمی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں، جو فارسی زبان وادب میں امتیازی شان کا حامل تھا اور اس دور کے کئی ممتاز علماء اسی خانوادے کے فیض یافتہ تھے۔ (۱)

حکیم مختار اصلاحی کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا کی زیر نگرانی صبرحد کے مدرسہ اسلامیہ میں ہوئی، اس کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائمیر، اعظم گڈھ میں داخل ہوئے اور تقریبا آٹھ نو برس تک یہاں زیر تعلیم رہے، یہاں سے فراغت کے بعد ۱۹۳۴ء میں طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڈھ میں داخلہ لیا اور یہاں سے  ڈی آئی ایم ایس کی ڈگری لے کر ممبئی آ گئے اور فینسی محل محمد علی روڈ پر اپنا مطب شروع کیا جو آج بھی اصلاحی دواخانہ کے نام سے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔

رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ

’’کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان یہ بھی ہے کہ اس کو غریبوں اور بچوں سے کتنی محبت ہے‘‘۔ (۲)

مذکورہ اصول کی روشنی میں حکیم مختار اصلاحی بلا شبہ ایک بڑے آدمی تھے، اس لئے کہ ان کے اندر غریبوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا تھا، وہ تا عمر غریبوں کی مسیحائی اور ضرورتمندوں کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی کوشاں رہے۔ ان کا مطب اور ان کی جیب ہمیشہ غریبوں کے لئے کھلے رہے، انھوں نے  اصلاحی،سماجی، رفاہی اورتعلیمی، ہر سطح پر اپنی خدمات کے ذریعہ اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ موضع صبرحد میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے تعلیمی اداروں کا قیا م  انہیں کی کوشسوں کا نتیجہ ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے قربانیاں بھی دیں، چنانچہ بمبئی کا دواخانہ  اپنے چھوٹے بھائی حکیم عبد الحلیم کے سپرد کر کے کئی سال تک قصبہ صبرحد میں ہی ڈیرہ جمائے رہے، ۸ جون ۱۹۴۴ء کو قصبہ صبرحد کے چند ذی شعور و با صلاحیت افراد کو لے کر ایک تعلیمی تحریک کا آغاز کیا اور اسی دن حکیم اصلاحی کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور ’انجمن شبان المسلمین‘‘کے نام سے ایک تیظیم بنائی گئی، جس کے تحت فوری طورپر ایک چھوٹے سے دینی مدرسہ کی بنیاد پڑی، جو آج جامعہ فاروقیہ کی شکل میں موجودہے، اس کے بعد فاروقیہ گرلس کالج اور سر سید ہائر سیکنڈری اسکول بھی اسی تعلیمی تحریک کی دین ہیں۔

حکیم مختار اصلاحی مذہبی رجحانـ،تحریکی مزاج اور تنظیمی صلاحیتوں کے باعث مختلف مذہبی اداروں اور تنظیموں سے بھی وابستہ رہے، خاص طور سے مدرسۃالاصلاح سرائمیر سے ان کا تعلق سب سے زیادہ تھا جس کا زندہ جاوید ثبوت ــ’’حکیم مختار اصلاحی پالی ٹیکنک ‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔اسی طرح دارالمصنفین اعظم گڈھ سے بھی بحیثیت ممبر وابستہ رہے اور اس کے مالی تعاون کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ اپنے علاقے  (صبرحد) اور اس کے قرب و جوارکے بہت سے مدارس و مساجد کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ جمعیۃ العلماء سے بھی وابستگی رہی اور مہاراشٹر یونٹ کے صدر بھی رہے اور بحیثیت صدر وہاں کے مدارس و مکاتب کو سدھارنے کی تحریک چلائی جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی بنیادی ممبر رہے۔ ان تما م مصروفیات کے باوجود آپ کا لکھنے پڑھنے کا شوق اور کتب و رسائل سے دلچسپی آپ کی زندگی کا مستقل حصہ تھی اور اپنے اسی شوق کے باعث انھوں نے باقاعدہ ’’اصلاحی لائبریری‘‘ قائم کی تا کہ شائقین علم و ادب اس سے مستفید ہو سکیں۔

حکیم مختار اصلاحی کو شرافت و نجابت ورثہ میں ملی تھی، علم و عمل دونوں لحاظ سے اسم با مسمی تھے، مزید برآں مدرسۃ الاصلاح کے فیضان اور علی گڈھ کی تہذیب نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دئے تھے۔ حکیم مختار اصلاحی نے اس دور کے اساتذہُ فن سے طب میں مہارت حاصل کی اور اپنی علمی لیاقت وفنی مہارت پر بھر پور اعتماد کے ساتھ ’’اصلاحی دوا خانہ‘‘ کا آغاز کیا اور اپنی محنت و لگن، عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنی ایک شناخت بنائی، ایسی شناخت کہ ان کی اگلی نسلیں بھی خود کو فخریہ’’ اصلاحی‘‘ لکھنے لگیں، ان کی نسلوں کا اس طرح اصلاحی لکھناکہاں تک درست ہے؟ یہ تو وہ جانیں یا پھر مدرسۃ الاصلاح کے ذمہ داران ؟

ہمہ جہت خوبیوں کے ساتھ حکیم مختار اصلاحی کی اصل شناخت طب یونانی سے ان کی وابستگی تھی بحیثیت حکیم ہند و پاک میں ان کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی، طب یونانی حکیم مختار اصلاحی کا اوڑھنا بچھونا تھی، تمام عمر  دامے،درمے سخنے، ہر طرح سے طب یونانی کی خدمت میں لگے رہے۔ علمی و عملی ہر سطح پر طب کی خدمت میں مصروف رہے، چنانچہ جب ۱۹۴۱ء میں محمد علی روڈ پریونانی میڈیکل کالج و جناح اسپتال قائم ہواتو آپ نے بھی اعزازی طور پرمنافع ا لاعضاء (فزیالوجی) پڑھانے کی ذمہ داری لی، اس کے بعد جب یونانی میڈیکل کالج اور بمبئی طبیہ کالج ایک ہو گئے  تو اس وقت بھی آپ کالج اور جمعیۃ الاطباء دونوں سے وابستہ رہے۔ ۱۹۶۹ء میں جب  دوبارہ طبیہ کالج کے قیام کا مسئلہ آیا تو آپ نے پہلے کی طرح اس بار بھی اعزازی طور پر درس و تدریس کی ذمہ داری قبول کی اور تاریخ طب، معالجات و علم الادویہ جیسے مختلف مضامین حسب ضرورت پڑھاتے رہے۔ درس و تدریس کا یہ سلسلہ ۱۹۸۲ء تک چلتا رہا۔ طبیہ کالج بمبئی کے اندر جب معالجاتی تحقیقی شعبہ قائم ہوا تو حکیم مختار اصلاحی کو ہی اس پروجیکٹ کا پروجیکٹ آفیسر منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ مختلف یونانی کمیٹیوں کے ممبر رہے، مہاراشٹر بورڈ اور فیکلٹی کے بیک وقت ممبر تھے۔ مرکزی آل انڈیا طبی کانفرنس دہلی کے نائب صدر اور مہاراشٹر اسٹیٹ طبی کانفرنس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۷۳ء سے تا عمر صوبہ مہاراشٹر کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ کی حیثیت سے ڈرگ کنٹرول محکمہ سے وابستہ رہے۔ مرکزی محکمہ صحت کی طرف سے مقرر کردہ متعدد کمیٹیوں کے ممبر و پبلک سروس کمیشن کے ممبر رہے۔ یونانی سنٹرل کونسل کی لٹریری اور فارمولری کمیٹیوں میں بحیثیت رکن عرصہ تک اپنے فرائض انجام دئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یونانی سلکشن کمیٹی اور پبلک سروس کمیشن کے یونانی شعبہ کے بھی فعال ممبر رہے۔۱۲ فروری ۱۹۸۷ء میں دہلی میں ہونے والے پہلے بین الاقوامی طبی سیمینار کی صدارت بھی کی۔(۳)

حکیم مختار اصلاحی کے اپنے ہم نام مولانا مختار احمد ندوی سے بہت قریبی مراسم تھے۔ دونوں میں فکری ہم آہنگی کے باعث ہی تمام عمر ایک دوسرے کے معاون رہے اور علمی و عملی سرگرمیوں میں دونوں شانہ بشانہ سر گرم عمل رہے۔ ۱۹۸۱ء میں جب مولانا مختار احمد ندوی کی ـــــــــــ ’’الجمعیۃ المحمدیہ الخیریۃ‘‘نے محمدیہ طبیہ کالج و سائر اسپتال کا منصوبہ بنایا تو اس میں حکیم مختار اصلاحی کو چیر مین کی اعزازی ذمہ داری دی گئی جبکہ ان کے صاحبزادے حکیم فیاض عالم کوپرنسپل بنایا گیا۔ اس طرح دونوں کی محنت و لگن سے مذکورہ کالج کو استحکام حاصل ہوا اور آج وہ شہر مالیگاوں کا ایک اہم طبی ادارہ ہے۔

حکیم مختار اصلاحی کا سب بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں عروس البلاد ممبئی جیسے شہر میں اور اس پر آشوب دور میں جبکہ طب یونانی اپنا وجود کھو رہی تھی، حکومت کی طرف سے شجر ممنوعہ قرار دی جا چکی تھی اور عوام الناس کی نظر میں فضول شئی بن چکی تھی، انھوں نے بڑے ہی عزم و حوصلے کے ساتھ طب یونانی کو گلے لگایا اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ’’اصلاحی دواخانہ‘‘ کی صورت میں طب یونانی کی نشائہ ثانیہ کا کام کیا اور تا عمر غریبوں کی مسیحائی کے ساتھ ساتھ فن کی بھی مسیحائی کرتے رہے۔

حکیم مختار اصلاحی نہ تو نرے مولوی تھے نہ ہی نرے حکیم بلکہ وہ قدیم و جدید کا سنگم تھے، وہ قدامت پسند ضرور تھے لیکن قدامت پرست ہرگز نہیں، وہ جدید علوم سے متائثر ضرور تھے لیکن مرعوب بالکل نہیں۔ ان کا نظریہء علم ’’ــــخذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کے اصول پر مبنی تھا،اسی نظریہ کی بنیاد پر ان کا خیال تھا کہ قدیم علوم میں جو اذکار رفتہ چیزیں ہیں انہیں ترک کیا جائے اور جو کار آمد ہیں انہیں اپنایا جائے، جدید علوم اور سائنس سے استفادہ کیا جائے لیکن ان پر کلی طور پر منحصر نہ ہوا جائے۔اسی اصول پر انہوں نے’’ اصلاحی دواخانہ‘‘ کی شروعات کی اور اسے جدید سائنسی طریقوں اور مشینوں سے آراستہ کرنے کے ساتھ ہی پروڈکشن اور پیکنگ کے جدید طریقوں کو رائج کیا۔ راقم السطور کو اصلاحی دواخانہ دیکھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا لیکن ملک کے طول و عرض سے مشہور دانشوران و اطباء کرام کے تاثرات سے اس کے معیار اور حسن انتظام کا اندازہ ہوتا ہے۔ اطباء اور ان کی مسیحائی میں بہت سے تاثرات شامل ہیں۔ چند تاثرات ملاحظہ ہوں۔

طب یونانی کے مشہور سرجن حکیم بصیر احمد لودی کے بقول:۔

ڈرگ ہاوٗس کا وجود ہی ایک کرشمہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس میں جدید سائنس کا استعمال

بہت اہمیت کا حامل ہے ‘‘۔(۴)

ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب سابق ڈین طبیہ کالج بمبئی و صدر انجمن اسلام بمبئی کے بقول۔ :

’’ اس دوا ساز ادارہ نے ایک بہت بڑی کمی کو پورا کیا ہے اور یقینا کسی بھی جدید ایلوپیتھی کارخانے کے

مقابل پیش کیا جا سکتا ہے ‘‘۔(۵)

                اس طرح کے بہت سے تاثرات ’’اطباء اور ان کی مسیحائی‘‘ میں شامل ہیں، تفصیل کے لئے اس کی ورق گردانی کی جا سکتی ہے۔

                حکیم مختار اصلاحی صاحب مطب اور دوا سازی میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ وقتا فوقتا طب یونانی کے طلبہ، اساتذہ،ذمہ دا ران اور ارباب حل و عقد کو بھی بجھنجھوڑتے رہے تاکہ طب یونانی تعطل کا شکار نہ ہو اور حاملین طب احساس کمتری میں مبتلاء نہ ہوں اور جدید تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے طب یونانی کی اصل شناخت کے ساتھ اسے آگے بڑھایا جاسکے، چنانچہ انہوں نے مستند اطباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

                ’’نئے تقاضوں اور نئی تحقیقات سے با خبر ہونا ضروری ہے لیکن احساس کمتری میں مبتلا ہو کر اپنے کو غیروں میں ضم کر دینا یا دوسروں کی نقل کرنا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ کے اس طرزعمل سے فن کو کتنا زبردست نقصان پہنچا ؟ وہ پڑھے لکھے طبیب جن سے یہ توقع تھی کہ کالج سے نکل کروہ اپنی شخصیت اور فن کے وقار میں اضافہ کریں گے، وہ خالص ڈاکٹر بن گئے اور اپنے فن کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جو یہ بھی نہیں جانتے کہ فن کیا ہے  ؟اور اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے دلوں میں اطباء اورفن دونوں سے نفرت پیدا ہو گئی ‘‘(۶)

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج بھی عملی زندگی میں خاندانی اور غیر سند یافتہ اطباء ہی زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں جبکہ اکثر وبیشتر مستند اطباء یونانی دواوں سے گریز کرتے ہوئے ایلوپیتھی دواوں کا ہی استعمال کرتے ہیں، اس کی بہت سی، سماجی، معاشی اور تیکنیکی وجوہات اور عوامل ہیں جن پر بحث یہاں ممکن نہیں ہے،ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ اس کی بنیادی وجہ وہ نہیں ہے جو حکیم مختار اصلاحی صاحب نے بتائی ہے یعنی ’’احساس کمتری‘‘۔ ہمارے نوجوان اطباء آج بھی احساس کمتری کا شکار بالکل نہیں ہیں بلکہ وہی مذکورہ وجوہات اور عوامل ہیں جن کی وجہ سے یونانی طب کے مستند اطباء اس وقت سے لیکر آج تک ایلوپیتھی پریکٹس کرنے پر مجبور ہیں، بقول شاعر:۔

                                                                                کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

                                                                                یونہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا۔

بلا شبہ حکیم مختار اصلاحی نے نوجوان اطباء کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور انہیں جھنجھوڑا، لیکن اس کا ذمہ دار انہوں نے طلبہ سے زیادہ اساتذہ کو قرار دیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ

’’بلا شبہ اس احساس کمتری میں تنہا آپ کا قصور نہیں ہے، اس کی سب سے بڑی ذمہ داری طبیہ کالجوں کے ان ارباب بست و کشاد پر ہوتی ہے جنہوں نے آپ کو اس احسا س کمتری میں مبتلا کیا ہے ‘‘(۷)

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ طبیہ کالجوں کے ارباب بسط و کشاد آ ج بھی آپسی رسہ کشی کے باعث طلبہ کی زندگی برباد کر رہے ہیں، سرکاری کالجز ہوں یا غیر سرکاری ادارے ہر جگہ تقریبا ایک سا ماحول ہے۔ کہیں کرسی اور عہدے کی لڑائی تو کہیں انتظامی امور کاجھگڑا، کہیں فن سے غداری تو کہیں ذمہ داریوں سے فرار،کہیں مالی مفاد کا جھگڑا تو کہیں اقرباء پروری،کہیں غبن کا الزام تو کہیں نااہلوں کااژدہام، کہیں طلبہ کے ساتھ زیادتی تو کہیں اساتذہ کا استحصال، کہیں وسائل کی کمی تو کہیں رذائل کی زیادتی،کوئی خوشامد کا عادی تو کوئی دشنام کا شکار، مختصر یہ کہ ’’ہر شاخ پہ الو بیٹھے ہیں ‘‘شاید یہی وجہ ہے کہ حکیم مختار اصلاحی نے طبیہ کالجز کے ارباب حل و عقد اور اساتذہ کرام کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

’’طلبہ ہمیشہ اپنے اساتذہ کو آئیڈیل بناتے ہیں اور ان کی نقل کرتے ہیں۔ اساتذہ اگر قابل اور فرض شناس ہوں گے تو طلبہ بھی اسی سانچے میں ڈھلیں گے اور باہر نکل کر عملی دنیا میں اپنے ہم پیشہ لوگوں پر سبقت اور فوقیت حاصل کریں گے، اس لئے اچھے، لائق اور فرض شناس اطباء کو ڈھونڈ کر لانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ جماعت بندی، اقرباء پروری اور مصلحت اندیشی کا شکار ہو کر اپنی ذمہ داریاور فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتیں گے تو یاد رکھئے کہ مستقبل کا موٗرخ آپ لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘(۸)

حکیم اصلاحی کے مذکورہ تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی طب یونانی کن مسائل سے دوچار رہی ہے، دور حاضر میں بھی وہی حال ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر پرائیویٹ کالجوں تک ہر جگہ حالت بد سے بد ترہوتی جا رہی ہے۔ لایق اور فرض شناس اساتذہ تو دور کی بات، بغیر اساتذہ کے ہی کالج چل رہے ہیں۔ بہر کیف۔۔۔۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکیم مختار اصلاحی نے باربار ارباب حل و عقد کو جھنجھوڑا اور کہا کہ

’’خدا کے لئے برا نہ مانئے اور اپنے اداروں کا جائزہ لیجئے کہ آخر اس میں کیا کمی ہے کہ اب کوئی حکیم علوی خاں، حکیم شریف خاں، حکیم عبدالعزیز اور حکیم عبدالحمید وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔ آج ضرورت ہے کہ ہمارے تمام طبیہ کالج فن طب کے ایسے امام پیدا کریں جو طب قدیم پر کامل عبوررکھتے ہوئے اپنے اصولوں پرریسرچ بھی کریں اور ساتھ ہی ساتھ جدید نظریات و تحقیقات سے با خبر بھی ہوں۔ اگر ہمارے سارے طبیہ کالج مل کر سال بھر میں صرف پچیس  ایسے اما م طب پیدا کر دیں تو پھر اس فن کے زوال کا کوئی خطرہ نہیں ‘‘(۹)

اس دور میں حکیم مختار اصلاحی نے پورے ہندوستان  کے تمام طبیہ کالجز سے ایک سال میں پچیس اطباء کی بات کی تھی لیکن آج تو بلا تکلف یہ کہا جا سکتا ہے کہ آ ج پورے ہندوستان کے تمام طبیہ کالجز مل کر پچیس سال میں صرف ایک حکیم پیدا کردیں تو بھی طب یونانی کا بیڑہ پار ہو جائے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں، اس لئے کہ حکمت کا فن آ ج کے اطباء کو میسر ہی نہیں ہے، آج پورے ہندوستان میں کسی بھی طبیہ کالج میں ایک بھی حکیم ایسا نہیں ہے، جو عملی طور سے نبض، بول، براز، مزاج اور اخلاط کی شناخت میں ماہر ہو۔ کلاس روم میں لیکچر تو بڑے شاندار ہوتے ہیں، نبض پڑھانا ہو یا بول وبراز، مزاج پر بحث کرنی ہو یا اخلاط پر گفتگو،ہر جگہ ہمارے اساتذہ  باتیں توبڑی لچھے دار کرتے ہیں لیکن عملی طور پر سب زیرو، مشاہدہ اور معائنہ دونوں ختم ہو چکے ہیں، ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ سرکاری عہدوں اور کرسیوں پر بیٹھ کر ان حکیموں کو بقراطی خوب آتی ہے۔ رہی سہی کسر اقرباء پروری، گروہ بندی، خوشامد پسندی اور مصلحت کوشی نے پوری کر دی جس کا اظہار حکیم مختار اصلاحی نے بھی کیا ہے، بعینہ وہی روش اور رجحان آج بھی ہے۔ اس دور میں بھی طبیہ کالجز کی اندرونی سیاست اور اس کے معیار تعلیم کا یہی حال تھا جس سے وہ بخوبی واقف تھے۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ طبی ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں اور ان کا اندرونی ڈھانچہ بکھر رہا ہے، چنانچہ انھوں نے کہا تھا کہ

’’اگر کوئی کارخانہ اپنے مال کا جائزہ نہیں لیتااور آنکھ بند کر کے بازار میں ایسے مال بھیجتا ہے جس کی کوئی مانگ نہیں تو وہ کارخانہ بدنام ہو کر بہت جلد بند ہو جائے۔ آپ کو سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ہے کہ بازار میں اپنے جن نمائندوں کو آپ بھیج رہے ہیں وہ آپ کی عزت کو چار چاند لگا رہے ہیں یا مزید رسوائی کا باعث بن رہے ہیں ؟ دشواریوں کے باوجود مایوسی اور احساس کمتری کی کوئی وجہ نہیں، آج حالات پہلے سے سازگار ہیں لیکن پہلی فرصت میں آپ اپنی فیکٹری کا جائزہ لیں، اس لئے کہ ایٹم و ہائیڈروجن کے مقابل میں آپ کی یہ کند تلواریں کام نہ دیں گی۔ آپ اپنے کو ایسے ہتھیاروں سے لیس کیجئے جس پر ایٹم اور ہائیڈروجن بم کا بھی کوئی اثر نہ ہو، نصابی کتابیں پڑھانے سے زیادہ طلبہ کی تربیت کی ضرورت ہے‘‘ (۱۰)

بلا شبہ آج حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں اور پوری دنیا میں طب یونانی کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، عوام الناس اس کی جا نب راغب ہو رہے ہیں ایلوپیتھک ادویہ کے ضمنی اثرات سے بچنے کے لئے لوگ متبادل طریقہ علاج کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن وہیں دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مستند اطباء طب یونانی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ طب یونانی کے ارباب حل و عقد کو نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ طریقہ تعلیم و تربیت پربھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ طبیہ کالجز کی تعداد تو بڑھتی جا رہی ہے لیکن عملی میدان میں اطباء کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے ؟ طب یونانی کا دائرہ جس قدر وسیع ہو تا جا رہا ہے، مستند اطباء کا دامن اسی قدر تنگ ہوتا جا رہا ہے، آخر کیوں ؟ ہمارے فارغین طب پر جوش ضرور ہیں، ان کے ذوق مطالعہ اور شوق تحقیق میں بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کو مناسب تربیت اور رہنمائی میسر نہیں ہے، ان کے ہاتھوں میں تلواریں کند پکڑائی گئی ہیں، عملی تربیت نہ ہونے کے باعث طب یونانی کے اصل تشخیصی آلات (Diagnostic tools ) ناکارہ ہو چکے ہیں، نبض کا عملی تجربہ کسی کو نہیں ہے،بول و براز کی شناخت ممکن نہیں ہے، اخلاط کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، رہی مزاج کی بات تو جن کے اپنے ہی مزاج نہیں ملتے  وہ دوسروں کا مزاج کیا بتائیں گے ؟ بقول شاعر

نبض کا علم، نہ قارورہ شناسی فیاض

                                                                                اب حکیموں سے بھی حکمت نہیں ہونے والی

 طبیہ کالجز کے بگڑتے ہوئے حالات اور گرتے ہوئے معیار تعلیم کے باوجود حکیم مختار اصلاحی ذرا بھی مایوس نہ تھے بلکہ انتہائی پر امید تھے اور انہیں یقین تھا کہ اس نمائشی دور میں بھی ہم اپنے اسلاف کی میراث کو تراش خراش کر طب جدید کے مقابل پیش کر سکتے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ

’’اس نمائشی دور میں جبکہ مغربی طب کی ظاہری چمک دمک ہماری آنکھوں کو چکا چوندھ کر رہی ہے، ہمارے پاس اپنے بزرگوں کا دیا ہوا اتنا زبردست علمی و فنی سرمایہ موجود ہے کہ اگر ہم اسے حالات حاضرہ کے مطابق بنا سنوار کر سلیقے سے عوام کے سامنے پیش کریں تو اپنے ان اصل جواہرات کے مقابل میں جھوٹے نگینوں کی آب تاب آج بھی ماند پڑ سکتی ہے ‘‘ (۱۱)

اس تعلق سے حکیم مختار اصلاحی نے چند تجاویز پیش کی تھیں جن میں اطباء کے تنظیمی اتحاد،باہمی تعاون،اور ریسرچ و تحقیق کو بنیادی اہمیت دی تھی۔ اسلاف کے طبی سرمائے سے کھرے کھوٹے کی تفریق اور صحیح غلط کی تمیز پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ

                ’’ریسرچ اور تحقیقات کے ذریعہ اپنے بے پناہ سرمایہ میں سے کھوٹے و کھرے، غلط و صحیح کو علاحدہ کیا جائے، پھر کھرے اور صحیح سے بھر پور فائدہ اٹھایاجائے ‘‘(۱۲)

 اسی مقصد کے لئے حکیم اجمل خاں نے بھی۱۹۲۶ء میں آیورویدک اینڈ یونانی طبی کالج کی ریسرچ کمیٹی تشکیل کی تھی جس کا مقصد قدیم نصاب کو جدید سائنس کی روشنی میں مرتب کرنا اور قدیم و جدید کو ہم آہنگ کرنا تھا  اس مقصد کی نتکمیل کے لئے مذکورہ کمیٹی نے متفقہ طور پر ایک’’ اصلاح نصاب کمیٹی‘‘ تشکیل دی تھی، جس کے ممبران میں حکیم اجمل خاں کے ساتھ حکیم فضل الرحمن، حکیم محمد کبیرالدین (بہاری)، دکتور سید ناصر عباس، حکیم عبدالحفیظ، اور حکیم محمد الیاس وغیرہ شامل تھے۔(۱۳) حکیم اجمل خاں نے ۱۹۲۶ء میں طبیہ کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا اور اس کا سربراہ انہوں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو بنایا جنہوں نے شعبہ کیمیا میں جرمنی سے ریسرچ کی تھی۔ اس شعبہ کے تحت حکیم اجمل خاں نے ڈاکٹر سلیم الزما ں صدیقی سے سب سے پہلے ’’اسرول‘‘ نامی دوا پر ریسرچ کروائی اور جدید سائنس کے اصولوں کی بنیاد پر اس کے جوہر فعال اجملین، اجملینین، اجملیسین  جیسے الکلائڈس کو الگ کروایا اور تحقیق و تجزیہ کے بعد اس کے نتائج دیکھ کر مغربی دنیا کے لوگ بھی حیران رہ گئے۔ اس کے مثبت اثرات و فوائد کو دیکھتے ہوئے تحقیقی رجحان رکھنے والے مغربی خوشہ چیں حسب عادت اسے بھی لے اڑے اور تنگ نظر اطباء لکیر پیٹتے رہ گئے (۱۴)۔ اسی اسرو ل سے ماخوذ ریزرپین اور سرپینٹین وغیرہ الکلائڈس ایک زمانے تک  بے خوابی، ہایپر ٹینشن، مالنخولیا جیسے امراض میں بطور خاص استعمال ہوتے رہے حتی کہ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۷ء تک ہائی بلڈ پریشر، مینٹل ڈیس آرڈر اور شایزوفرینیا  کے علاج میں ویسٹرن میڈیسین میں بھی یہی دوا بطور خاص استعمال ہو تی رہی ہے  (۱۵)لیکن افسوس کہ اجمل خاں کی وفات کے ساتھ ہی ان کے سارے منصوبے بھی اپنی موت آپ مرگئے اور ان کے بعد کوئی اس کام کو آگے نہ بڑھا سکا۔ طب یونانی کا مرکزی تحقیقی ادارہ بھی اسی مقصد کے تحت وجود میں آیا تھا،یعنی قدیم یونانی لٹریچر کو ریسرچ و تحقیق کی بنیاد پر رطب ویابس کی چھان پھٹک، کھرے کھوٹے کی تمیز اور صحیح غلط کی تفریق کے ساتھ طبی ادب کوجدید سائنس سے ہم آہنگ کرنا تھا، مگر وہاں بھی آج تک تحقیق کے نام پر صرف لفظی ترجمے ہو رہے ہیں۔ ہاں !  ایک کام ان حکیموں نے ضرور کیا ہے، وہ یہ کہ جدید سائنس کی مشہور ومعروف اصطلاحات کو بھی اردو کے نام پر، عربی وفارسی زبانوں میں منتقل کر کے اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ سائنس کے طلبہ تو دور کی بات، مدارس کے طلبہ بھی نہیں سمجھ پاتے۔ مزید ستم یہ کہ آج بھی ہمارے اطباء ’’پدرم سلطان بود‘‘کے تصور میں مگن ہیں، دنیا کے علوم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، میڈیکل سائنس نت نئی تحقیقات میں مصروف ہے  اور ہمارے اطباء و دانشوران آج بھی یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری طب سب سے قدیم ہے، خود کو اپڈیٹ کرنے کے بجائے آج بھی ’’اولڈ از گولڈ‘‘کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ بہر کیف۔۔۔۔۔۔۔

 حکیم مختار اصلاحی مطب کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ادیب اور کالم نگار بھی تھے ان کا ادبی ذوق بڑا ستھرا تھا، زمانہُ طالبعلمی سے ہی انہیں لکھنے کا شوق تھا، چنانچہ مدرسۃ الاصلاح کی طالبعلمی کے دوران، صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کی زیر تربیت ایک قلمی رسالہ ’’شہاب‘‘ کے نام سے نکالتے تھے، اس کے بعد بمبئی میں مستقل سکونت کے بعد۱۹۴۲ء میں قاضی عطاء اللہ ندوی  (مالک مطبع حجازیہ) کی معاونت سے ’’الحکمت‘‘ کے نام سے ایک طبی ماہنامہ جاری کیا، جو قاضی صاحب کے اچانک سفر حجاز کی وجہ سے بند ہو گیا۔ اس کے بعداپنے دواخانہ کی طرف سے ماہنامہ ’’تندرستی‘‘ ۱۹۴۶ء میں جاری کیا مگر بدقسمتی سے کچھ عرصہ بعد ہی حکیم مختار اصلاحی کے صبرحد چلے جانے کے باعث یہ بھی بند ہو گیا۔ صبرحد سے دوبارہ بمبئی واپسی پر حکیم اصلاحی صاحب نے بے سرو سامانی کے باوجود پندرہ روزہ ’’مسیحا‘‘ جاری کیا جو اپنے دور کا واحد خودکفیل رسالہ تھا اور طبی دنیا میں اس کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تقریبا نو سال تک’’مسیحا‘‘ طب یونانی کی گراں قدر خدمات کے ساتھ عوام کی بھی مسیحائی کرتا رہا لیکن بدقسمتی سے اس کی عمر بھی بہت کم رہی اور۱۹۶۷ء میں حکیم مختار اصلاحی کے سفر حج پر جانے کے باعث اس کی اشاعت بھی بندہو گئی۔

’’مسیحا ‘‘کے ذریعہ حکیم مختار اصلاحی نے طب یو نانی کی نشاـۃ ثانیہ کی کوشش کی اور عوام الناس کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ اطباء کی توجہ بھی مبذول کرانے میں کامیاب رہے، یہی وجہ تھی کہ’’مسیحا‘‘ کو جو قبول عام حاصل ہوا وہ شاید کسی اور طبی رسالے کو حاصل نہ ہو سکا، جس کا اندازہ اس دور کے دانشوروں اور اطباء کے تاثرات سے ہو تاہے، چند تاثرات ملاحظہ ہوں

بقول مولانا امین احسن اصلاحی:۔

’’اتفاق سے سب سے پہلے ’’مسیحا‘‘ کے اداریہ کی چند سطریں پڑھنے کی نوبت آئی تو زبان کی شستگی و روانی نے اس کی طرف متوجہ کیا، خیال ہوا کہ لب و لہجہ تو اپنے خاندان علمی کا ہے، پھر سر ورق پر نام دیکھا تو آپ کا نکلا، بڑی خوشی ہوئی، الحمدللہ آپ نے طبیب ہو کر صرف طب سے فائدہ اٹھانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس فن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ‘‘(۱۶)

اسی سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں کہ

                ’’مسیحا پابندی سے آتا ہے، بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں، آزادی نمبر خصوصیت کے ساتھ بہت اچھا تھا۔اس خدمت کو برابر جاری رکھئے۔‘‘(۱۷)

عوام الناس کے ساتھ ساتھ طبی حلقوں میں بھی مسیحا بہت مقبول رہا اور اس مقبولیت کی وجہ اس کی زبان و اسلوب  کے ساتھ طبی مضامین اور طبی تحقیقات تھیں، جس کے ذریعہ مسیحا طب یونانی کی مسیحائی کر رہا تھا۔ بقول عبدالماجد دریابادی کہ

’’سب کی مسیحائی اطباء کرتے ہیں، آپ خود فن طب کی مسیحائی میں لگے ہوئے ہیں، اللہ تعالی آپ کو اسم با مسمی ثابت کرے‘‘(۱۸)

اسی طرح بقول مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی:۔

’’طب سے متعلق اس کے خالص علمی و ٹھوس مضامین قیمتی اور مفید معلومات کے حامل ہوتے ہیں علاوہ ازیں مسیحا طب کی بقاء و تحفظ کے لئے پوری جراُت و بے باکی لیکن غایت وقار و سنجیدگی کے ساتھ وقت کی زیادتیوں اور دست درازیوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہتا ہے۔‘‘(۱۹)

حکیم مختار اصلاحی نے مسیحا کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ طب یونانی کو فروغ دیا اور عوام الناس میں اس کی افادیت کو اجاگر کیا بلکہ ہند و پاک کے اطباء کو جھنجھوڑنے وبیدار کرنے کے ساتھ ہی تنظیمی سطح پر ان کو منظم اور مربوط کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ بقول حکیم محمد عدنان خاں قمر جامعی:۔

’’مسیحا واقعی مسیحا ہے جس نے بڑی جراٗت و ہمت کے ساتھ ایک طرف بے حس اطباء کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان میں زندگی کی روح پھونکی اور دوسری طرف حکومت وقت کو اس کی بے اعتنائی اور غفلت کی طرفتوجہ دلائی۔‘‘ (۲۰)

اسی طرح حکیم عبدالاحد سابق پرنسپل طبیہ کالج پٹنہ کے مطابق:۔

’’ایسے نا مساعد حالات میں جبکہ طب یونانی زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے، مسیحا نے فن طب کے تحفظ و بقاء کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس فن کو زندہ رکھنے اور اسے اعلی مقام تک پہنچانے میں مسیحا

کی یہ مخلصانہ کوشش تمام حاملین طب یونانی پراحسان عظیم ہے، مدیر مسیحا تمام اطبا ء کی جانب سے مستحقستائش ہیں۔ ‘‘ (۲۱)

اسی طرح اس دور کے کچھ اخبارات  بھی مسیحا کی مسیحائی کے قائل تھے ان میں سے چند کے تاثرات  ملاحظہ ہوں۔

روز نامہ انقلاب بمبئی کے مطابق:۔

’’علم طب پر آج جو مصائب آ رہے ہیں وہ اس ملک میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے نرالے ہیں، ان حالات میں مسیحا بجا طور پر کام کر رہا ہے۔‘‘ (۲۲)

سہ روزہ دعوت دہلی کے مطابق

’’حکو مت کو متوجہ کرنے اور طبی دنیا کو جگاتے رہنے میں مسیحا بہت کامیاب ہے۔‘‘ (۲۳)

مسیحا علمی، ادبی، طبی اورتنظیمی ہر سطح پرطب یونا نی کی نشاٗۃ ثانی میں متحرک رہا اور ہند و پاک میں یکساں طور پر مقبول رہا، اور اس کے قارئین ہر جگہ اس کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے، ہندوستان کی طرح ہی پاکستان میں بھی اس کے قارئین کے تاثرات سے اس کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے، چند پاکستانی قارئین و دانشوران کی رائے ملاحظہ ہو۔

حکیم عبدالرحیم (پاکستان) کے بقول:۔

’’طبی دنیا میں مسیحا واقعی بے مثال خدمت انجام دے رہا ہے، اس کا ہر شمارہ مدیر کے تبحر علمی، انتھک محنت اور طب یونانی سے پر خلوص اور بے لوث محبت کا آئینہ دار ہے، طب یونانی کی نشاۃ ثانیہ میں موصوف کا کردار اہم ہے‘‘ (۲۴)

بقول محمد حسن قرشی (پاکستان):۔

’’ہندوستان کے مشہور طبی اخبار مسیحا نے گزشتہ کئی سال سے طب یونانی کی جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ افسانہ  بزم وانجمن ہے، پاکستان میں بھی مسیحا کی خدمات کو سراہا جا رہا ہے، اس نے ہمیشہ اپنا بلند معیار قائم رکھا ہے‘‘(۲۵)

حکیم خواجہ رضوان  (پاکستان) کے مطابق:۔

’’مسرت ہے کہ مسیحا نہ صرف طب کے ہندوستانی دائرہ میں محدود ہے بلکہ پاکستان میں بھی وہ اکثراصحاب کے پاس پہنچتا ہے اور داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔‘‘ (۲۶)

اسی طرح بقول حکیم نیر واسطی (پاکستان):۔

’’ہمیں یہ دیکھ کر دلی مسرت ہے کہ ہماری برادری کا پیامبر ’’مسیحا‘‘ اپنی صدائے قم باذن اللہ سے قوم کے مردہ دلوں میں تازہ روح پھونک رہا ہے، میں مدیر مسیحا کو اس اعلی خدمت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ‘‘(۲۷)

 اس طرح مسیحا نے ہر سطح پر طب یونانی کی خدمت کی لیکن افسوس کہ اس کی اشاعت ۱۹۶۷ء میں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی، لیکن حکیم مختار اصلاحی کا حوصلہ کم نہیں ہوا، ان کے جذبے میں کمی نہیں آئی، ان کے اندر کا ادیب اور طبیب دونوں زندہ رہے، ان کا ادبی ذوق اور طب یونانی کی خدمت کا شوق دونوں کم نہ ہوا، چنانچہ چند سالوں بعد ہی انہوں نے از سر نو اپنے ذوق کی تسکین اور فن طب کی خدمت کا راستہ ڈھونڈ نکالا اور اگست ۱۹۷۳ء سے ہفتہ وار’’ اردو بلٹز‘‘ بمبئی کے مدیر جناب حسن کمال کی تحریک پر’’ اطباء اور ان کی مسیحائی ‘‘کے عنوان سے طبی مضامین کا سلسلہ شروع کیا، جو اکتوبر ۱۹۷۵ء تک جاری رہا۔ اس سلسلے کی غرض وغٖایت پر روشنی ڈالتے ہوئے حکیم مختار اصلاحی خود رقمطراز ہیں۔

’’اس طویل سلسلے کا اصل منشاء و مقصد یہ تھا کہ موجودہ نسل جو اپنے نامی گرامی اطباء کی خدمات اور ان کے عظیم کارناموں کو رفتہ رفتہ فراموش کرتی جا رہی ہے، ان مضامین کو پڑھ کر ان سے واقف ہو سکے اور طب  کے طلبہ جو بدلے ہوئے حالات اور موجودہ آلات کی چمک دمک سے مرعوب اور احساس کمتری  میں مبتلاء ہیں ان میں خود اعتمادی اور وسعت نظر پیدا ہو‘‘ (۲۸)

مذکورہ کالم میں حکیم مختار اصلاحی نے قدیم و جدید اطباء کے سوانحی خاکوں کے ساتھ ساتھ ان کے طبی کارناموں اور محیر العقول معالجاتی حصولیابیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے،جنہیں پڑھ کرایک طرف طب یونانی کی اہمیت و افادیت کااندازہ ہو تا ہے تو تو وہیں دوسری طرف ان اطباء کرا م کی فن کے تئیں رٖغبت اور ان کی خود اعتمادی کا بھی بھرپور اظہار ہوتا ہے۔بعد میں ان مضامین کو یکجا کر کے کتابی صورت میں ’’اطباء اور ان کی مسیحائی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔

حکیم اصلاحی اپنے مذکورہ مقاصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے، اس کا تو پتہ نہیں لیکن ان کی یہ کوشش اور جذبہ بہر حال لائق ستائش ہے۔ فرد واحد کی کوشسوں سے کسی بڑے انقلاب کی امید اس وقت تک فضول ہے جب تک کہ اس کی قوم کے لوگ اس میں شامل نہ ہوں ’’اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا‘‘  لیکن ہلچل ضرور پیدا کر سکتا ہے، اسی طرح اکثر فرد واحد کی کوشسوں سے بھی ایک ایسی ہلچل، ایک تحریک  اور تبدیلی کی ایک ایسی لہر تو اٹھتی ہی ہے جو کم از کم خوابیدہ قوم کو جھنجھوڑتی ضرور ہے، بقول انور اعظنمی

 مری اذان سحر کچھ نہ ہو مگرانور

 برہم مزاج دیر و کلیسا ہوا تو ہے

حکیم مختار اصلاحی کے’’ مسیحا ‘‘ اور ان کے مستقل کالم ’’اطباء اور ان کی مسیحائی ‘‘ نے بھی ’’اذان سحر ‘‘ کی طرح خوابیدہ قوم کو جگانے اور جھنجھوڑنے کی کوشش ضرورکی، یہ اور بات کہ اس کا خاطر خواہ اثر نہ ہو سکا۔ دراصل ہندوستان میں آنے کے بعد طب یونانی کاالمیہ یہ رہا کہ لوگ تقریریں تو بڑی لچھے دار کرتے ہیں، نعرے بھی خوب لگاتے ہیں، فن کا رونا بھی روتے ہیں، سرکار کی دوہائی بھی دیتے ہیں، لیکن کام نہیں کر سکتے،  بعینہ وہی رویہ حکیم مختار اصلاحی کے ساتھ بھی اطباء کرام کا رہا، ان کی تعریف و تحسین تو خوب ہوئی لیکن کوئی شانہ بشانہ کام نہ کر سکا اور نہ ہی ان کے ورثہ ان کے اس مشن کو آگے بڑھا سکے۔

 حکیم اصلاحی کی کوشسوں کو دیکھتے ہوئے بلا تکلف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ مطب کی الجھنوں میں نہ پڑ کریکسوئی کے ساتھ علمی و تحقیقی کام کرتے یا کسی تعلیمی و تحقیقی ادارے سے مستقل طور سے وابستہ رہتے تو طب یونانی کی نشاۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے اور ریسرچ و تحقیق کی بنیادوں پر طب کے قدیم سرمائے سے رطب و یابس کی تفریق اور کھرے کھوٹے کی تمیز کے ساتھ طبی لٹریچر میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے تھے۔ لیکن ان کی مطب کی مصروفیت اور دواخانے کی الجھنوں کے باعث طب یونانی کوبڑا نقصان ہوا۔

حکیم مختار اصلاحی نے ہر سطح پر طب یونانی کے فروغ کی کوشس کی اور عوام الناس سے لے کر قوم کے دانشوران، اطباء کرام اورسیاسی لیڈران کے ساتھ ساتھ ایوان حکومت تک فریاد رسی کی لیکن اطباء کی بے حسی، حکومت کی بے اعتنائی اور قوم کی بے رغبتی کے باعث ان کی ہر آواز صدا بصحراء ثابت ہوئی، اس کے باوجود طب یونانی کا یہ سپہ سالار مایوس نہ ہوا، اس کا حوصلہ کمزور نہ ہوا، اور نئے سرے سے آزادانہ طور پر طب یونانی کے فروغ کے لئے ذاتی طبیہ کالج کھولنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے قریبی عزیز عبدالباری ایڈوکیٹ کے مطابق وہ موضع صبرحد میں سر سید انٹر کالج میں ’’اصلاحی طبیہ کالج ‘‘کھولنا چاہتے تھے مگر چند وجوہات کے باعث یہ منصوبہ بھی ناکام رہا۔(۲۹) اس منصوبہ کی ناکامی کے بعد حکیم مختار اصلاحی صاحب حوصلہ ہار گئے، ان کی ہمت جواب دے گئی، ان کے پاس دولت ضرو ر تھی لیکن مخلص افراد اور دیگر وسائل کی کمی کے باعث تنہا اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا، ان کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ بہر کیف۔۔۔۔۔اس منصوبہ کی ناکامی کے بعد حکیم مختار اصلاحی صاحب نے ’’اصلاحی طبیہ کالج‘‘ کے لئے مختص رقم کو مادر علمی مدرسۃ الاصلاح کے حوالے کر دیا،کاش !  مدرسہ کے ذمہ دارن نے ہی ان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہوتا، لیکن افسوس کہ مدرسۃ نے بھی اس خطیر رقم سے ایک دو منزلہ شاندار عمارت بنوا کر ’’حکیم محمدمختار اصلاحی پالی ٹیکنک‘‘ کا بڑا سا بورڈتو لگا دیا لیکن اس کا مقصد۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

  مراجع

۱۔اطباء اور ان کی مسیحائی۔حکیم مختار اصلاحی، اصلاحی یونانی طبی ریسرچ انٹی ٹیوٹ، سی ۷ دوارکا پوری آگرہ روڈ کرلا بمبئی ۷۰،ص۷

۲۔ہم نفسان رفتہ۔رشید احمد صدیقی۔انڈین بک ہاوس علی گڈھ،اکتوبر،۱۹۶۶ء۔ص۷۷

۳۔اطباء اور ان کی مسیحائی۔ ص۹،۱۰

۴۔ایضا۔ ص۲۹۴

۵۔ایضا۔ ص ۲۹۱

۶۔ایضا۔ ص۳۰۶

۷۔ایضا۔ ص۳۰۶

۸۔ایضا۔ ص۳۰۷

۹۔ایضا۔ ص۳۰۷

۱۰۔ایضا۔ ص۳۰۷

۱۱۔ایضا۔ ص۳۰۴

۱۲۔ایضا۔ ص۳۰۴

۱۳۔اجمل خاں کی طبی خدمات۔ ڈاکٹر فیاض احمد(علیگ)۔ ماہنامہ تہذیب الاخلاق علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، علی گڈھ، نوبر ۱۹۹۸ء        ص ۳۸

۱۴۔ایضا ۔ ص۳۵۔۳۶

۱۵۔       Sumit Isharwal and Shubham Gupta (2006) "Rustom Jal Vakil: his contribution to cardiology” Texas Heart Institute Journal. 33(2): 161-170.  PMC 1524711

۱۶۔اطباء اور ان کی مسیحائی، محولہ بالا۔ص۲۸۲

۱۷۔ ایضاـ۔ص۲۸۲

۱۸۔ایضا۔ص ۲۸۲

۱۹۔ایضا۔ص۲۸۵

۲۰۔ایضا۔ص۲۸۴

۲۱۔ایضا۔ص۲۸۷

۲۲۔ایضا۔ص۲۸۱

۲۳۔ایضا۔ص۲۸۱

۲۴۔ایضا۔ص۲۸۵

۲۵۔ایضا۔ص۲۸۷

۲۶۔ایضا۔ص۲۸۷

۲۷۔ایضا۔ص۲۸۶

۲۸۔ایضا۔ص۱۱

۲۹۔تاریخ صبرحد،ماضی و حال کے آئینے میں۔ عبدالباری ایڈوکیٹ۔ صبرحد،ہاوس،ڈھالگر ٹولہ، جونپور، ص۲۷۶

تبصرے بند ہیں۔