حیات ِ ٹیپو سلطان شہیدؒ کے تابندہ نقوش

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

    ہندوستان کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ٹیپو سلطان شہید ؒ جیسے عظیم محب ِ وطن ،بہادر اور بے لوث ملک وملت سے محبت کرنے والے قائد وجنرل کا ذکر نہ کیا جائے۔ٹیپو سلطان شہید ؒ کی زندگی بڑے بڑے کارناموں اور عظیم خدمات سے بھری ہوئی ہے ،دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کرنے اور اس کی حفاظت کے لئے جان قربان کرنے کا کارنامہ بھی سلطان ٹیپو ؒ نے انجام دیا۔ہندوستان کو ترقی اوربلندی پر لے جانے والا اورہر میدان میں اپنے ملک کو آگے رکھنے کے لئے فکر وکوشش کرنے کا کام بھی سلطان ٹیپوؒ نے کیا۔رعایا کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا سلوک کرنے والا اور بلا تفریق ِ مذہب ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی انوکھی تاریخ بھی سلطان نے بنائی،ٹیپو سلطان شہیدؒ انسانیت دوست حکمران تھے،عدل وانصاف کو قائم کیا،غیر مسلموں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ کیا،دینداری اور تقوی شعاری کے ساتھ انہوں نے زندگی کو بسر کیا،مخلو قِ خدا کی خدمت بھی کرتے اور خالق ِ کون ومکان کے احکام پر بھی چلنے میں پیش پیش رہتے۔ دین وسیاست کا حسین امتزاج ان کی زندگی میں ملتا ہے۔نیکی اور پرہیزگاری کے روشن پہلو نظر آتے ہیں۔ آج عدل وانصاف کے اس علمبرار حکمران کو کچھ ناسمجھ اور تنگ نظر اپنے تعصب  وفرقہ پرستی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ،ملک کی آزادی کے خواب دیکھنے والے اور اس کے لئے آخری سانس تک قربانیاں دینے والے بادشاہ کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ناقابل ِ فراموش حقیقت ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لئے پہلے پہل میدان میں اترنے والوں میں ٹیپو سلطان کا نام آگے ہے،اور رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے میں اور غیر مسلموں کے ساتھ حقوق وانصاف کا سلوک کرنے میں بھی ٹیپو سلطان ؒ اپنی سنہری تاریخ رکھتے ہیں۔ ان کی حیات اور تاریخ کے بہت سے پہلو ہیں ،اس وقت ہم مختصر ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ٹیپو سلطان کی پیدائش:

    سلطان ٹیپو کی پیدائش 10نومبر1750ہفتہ کے دن بنگلور سے 33کلو میٹر دور شمال میں دیون ہلی نامی قصبہ میں ہوئی۔سلطان کا پورا نام ٹیپو فتح علی ہے ،باپ کا نام حید رعلی اور ماں کا نام فاطمہ بیگم المعروف خیر النساء ہے۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید:۱۶۲)

تعلیم وتربیت:

    ٹیپو بچپن سے بڑے ذہین اور تیز دماغ والے تھے ،آپ کے والد حیدر علی نے اپنی خصوصی نگرانی میں ماہر اساتذہ کے ذریعہ آپ کو تعلیم دلوائی اور تربیت کا خاص انتظام فرما۔تقریبا 5سال کی عمرسے19تک ٹیپو نے مختلف علوم وفنون سیکھے۔زمانہ کے لحاظ سے شہسواری ،تیر اندازی ،سپہ گری کی تربیت بھی دی گئی۔

ٹیپو کی شجاعت اور بہادری:

    سلطان ٹیپو کی بہادری بہت مشہور ہے ،یہاں تک سلطان کو’’شیر میسور ‘‘ اور ’’شیر ِ ہند ‘‘کہا جاتا ہے۔18 سال کی عمر میں جس نے میدان میں قدم رکھا اور اپنی شجاعت اور بہادری سے دشمنوں کوناکام و نامراد کردیتا۔27ڈسمبر1782 میں ٹیپو نے اپنے والد نواب حیدر علی کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا،تخت شاہی پر بیٹھنے سے پہلے اپنی ماں کی خدمت میں حاضری دی ،ان کی دعائیں لیں ،دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ سے اس امانت کو سنبھالنے کے لئے توفیق مانگی۔سلطان ہی نے یہ تاریخ ساز اور زبان زد خاص وعام جملہ کہا تھا’’میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔

یونیورسٹی کا قیام:

   ٹیپو کی بہت سی بہترین خدمات ہیں جن میں تعلیمی خدمات بہت ہیں ،ٹیپو خو داعلی تعلیم یافتہ تھے ،کئی زبانوں میں ماہر تھے ،انہوں نے اپنی سلطنت میں تعلیم کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لئے سری رنگا پٹنم میں ’’جامع الامور‘‘ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی ،جہاں بیک وقت دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کانظم تھا اور سرکار کی طرف سے ہر فن کے ماہرین کو اعلی تنخواہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا۔

ٹیپو کی دین داری:

    سلطان ٹیپو جہاں ایک بہادر حکمران تھے وہیں ایک نیک انسان بھی تھے ،عبادتوں کا شوق ان کے اندر تھا اور روزانہ صبح قرآن کریم ایک گھنٹہ پڑھ کر اپنے معمولات میں لگنے کے عادی تھے ،سلطان کی بزرگی اور دین داری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ:مسجد اعلی کا افتتاح تھا،سلطان کی دعوت پر علماء ومشائخ جمع تھے،ٹیپو کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا بزرگ اس مسجد کا افتتاح کرے جو صاحب ترتیب ہو یعنی بالغ ہونے کے بعدجس کی کوئی فرض نماز قضا ء نہ ہوئی ہو،حاضرین میں جن علما ء و مشائخ وقت کی ایک بڑی تعداد موجود تھی کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ صاحب ترتیب ہے ،جب کوئی صاحب ِ ترتیب نہیں نکلا تو سلطان ٹیپو خود آگے بڑھ کر امامت کی اور کہا کہ میں الحمدللہ صاحب ترتیب ہوں۔ اسی طرح حضرت مولانا واضح رشید ندوی صاحب مدظلہ نے نقل کیا ہے کہ :اس کی دینداری وتقوی کا یہ عالم تھا کہ جنگوں میں مصروف رہنے کے باوجود بلوغ کے بعد اس کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ،جنگ کے ایام ہوں یا اس کے علاوہ ،اس نے فجر کے بعد کی تلاوت کا کبھی ناغہ نہیں ،باوضو رہنے کا عادی تھا۔( ٹیپوسلطان ایک تاریخ ساز شخصیت:۶۷)

عد ل وانصاف:

    ٹیپو نے تمام طبقات کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کیا ،وہ ہندو ،مسلم ،عیسائی سب کا برابر خیال رکھتے تھے اور کسی کے ساتھ زیادتی کامعاملہ نہیں کرتے۔چناں چہ بکٹر نزو جو ٹیپو کے خلاف میسورکی آخری دوجنگوں میں شریک رہا تھا ،اپنی سوانح عمری میں خود اس کا اعتراف کرتا ہے کہ سلطنت خداداد میں تمام طبقات کے ساتھ بلاامتیاز عدل کا برتاؤ ہوتا تھا ،وہاں نسب و خاندان کی بلندی کے دعوؤں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

ٹیپو کے کارنامے:

    ٹیپو کو اللہ تعالی نے غیرمعمولی تخلیقی ذہن اور صلاحتیں عطا کی تھیں ،ان کا ذہن ہمیشہ نئی نئی چیزوں کے ایجاد کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا،ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ انہوں نے اپنی سلطنت میں آبادی کی مردم شماری کروائی ،پنچایت راج کی بنیاد رکھی ،ایسی بکتر بند گاڑیاں تیار کروائیں جس پر گولیوں کا اثر نہیں ہوتا تھا،دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے ،امریکیوں نے بھی انہیں راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔

وطن سے محبت:

   ٹیپو کی پوری زندگی حب الوطنی کا دوسرا نام تھی ،وطن سے ان کی محبت اور وفاداری کا اس سے بڑا کیا ثبوت چاہیے کہ مادرِ وطن کی حفاظت اور دشمنوں کے ناپاک وجود سے اس سرزمین کو پاک کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جان تک دے دی ،اور اپنا تخت وتاج بھی اس کے لئے قربان کردیا۔وہ ملک کا پہلا حکمران ہے جس نے عوام کو آزادی کا ایک مقبول نعرہ ’’ہندوستان ہندوستانیوں کے لئے ہے‘‘ دیا اور خود بھی آخری سانس تک مادرِ وطن سے برطانوی سامراج کو ختم کرنے کے لئے لڑتا رہا۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے لکھا ہے کہ:سب سے پہلا شخص جس کو اس خطرہ کا احساس ہوا،وہ میسور کا بلند ہمت ،بلند نگاہ اورغیور فرماں روا فتح علی خان ٹیپو سلطان تھا ،جس نے اپنی بالغ نظری اور غیر معمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اور ایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اوراگر کوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پر نہ آئی تو آخر کا رپورا ملک ان کا لقمہ ٔ تر بن جائے گا۔چناں چہ انہوں نے انگریزوں سے جنگ کا فیصلہ کیااور اپنے پورے ساز وسامان وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں میدان میں آگئے۔ٹیپونے ہندوستان کے راجاؤں ،مہاراجاؤں اور نوابواں کو انگریزوں سے جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔( مقدمہ از:سیرت ٹیپوسلطان شہیدؒ)

ٹیپو کی شہادت:

   انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنوں کی غداری اور نمک حرامی کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا یہ عظیم سپوت اور ملک وملت کی عزت کا سرتاج4مئی 1799سری رنگا پٹنم میں شہید ہوگیا،اس وقت ٹیپو کی عمر صرف 49سال تھی۔جنرل ہارس ٹیپو کی لاش کے قریب پہنچ کر فرط ِ مسرت سے چیخ اٹھا کہ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘

ٹیپو کے اقوال زرین:

    ٭غلط بیانی اخلاق ومذہب دونوں اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے۔

    ٭جو لوگ کسی بھی مذہب کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں وہ دنیا ہی میں اپنی بد اعمالیوں کی سزا پالیتے ہیں۔

    ٭ مردوں کی بہترین تصویر ان کی جواں مردی ہے۔

    ٭ ہندوستان صرف ہندوستانیوں کے لئے ہے۔

    ٭لوگ بدی تو ہنس ہنس کر کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج رو رو کر بھگتے ہیں۔

    ٭انگریز ہندوستان اور مسلمان دونوں کے لئے خطرہ ودشمن ہیں ،ان کے وجود سے وطن کی سرزمین کو پاک کرنا اسلام اور ملک دونوں کی سب سے بڑی خدمت ہے۔

ہمارے لئے سبق :

    سلطان ٹیپو کی زندگی میں ہمارے لئے چند سبق آموز باتیں ہیں :

 :1 ملک سے محبت کرنے والے بنیں ،اور اس کی ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو لگائیں۔

 :2  ملک کی حفاظت کے لئے ہمیشہ اپنے آپ کو آگے رکھیں۔

 :3بلند حوصلہ اور بہادر ہونا چاہیے۔

 4:اچھے اخلاق وکردار سے اپنے آپ کو سجائیں۔

 5: ہر ایک سے محبت کرنے والے بنیں ،ظلم وزیادتی سے بچیں۔

6 : نیکی اور دین داری کے ساتھ کام کریں ،اللہ کی مدد ہوگی۔

 7: زندگی کو غنیمت جانیں اور کچھ یادگار کارنامے انجام دینے کی کوشش کریں۔

 8: اپنی قابلیت اور صلاحیت کو ملک وملت کے لئے استعمال کریں۔

 9: زندگی کو ایک مکمل نظم وضبط اور اوقات کی قدر کے ساتھ گزاریں تو ہی کامیاب ہوپائے گا۔

  10:احکام ِ شریعت پر چلتے ہوئے خدا کے بندوں کی خدمت کاکرنے کا عزم و ارادہ کریں۔

تبصرے بند ہیں۔