حیاسرپیٹتی ہے، عصمتیں فریاد کرتی ہیں!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

یوں تو ہندوستان بھر میں آئے دن زنی بالجبراورجنسی درندگی کے بیسیوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں اوراپنے وقت کے اس جنت نشاں میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے۔ ہماراملک تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے حیر ت اور دل چسپی کی چیز رہی ہے؛ لیکن افسوس آج مغرب کی اندھی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیلاب نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر دیاہے، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت کا فروغ عام ہو تا جا رہا ہے، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کے اس سیلاب بلاخیز پر قابو نہیں پا یا گیا تو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

آج ایک طرف چیختی، چلاتی عورتوں، سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیں ہوتا۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے، بالخصوص ابھی حال ہی میں پیش آمدہ ملک وبیرون ملک کے متعددسانحات نے تو شرم وحیا کی ساری حدوں کو پارکردیاہے:مجبوروبے کس حاملہ عورت کی اجتماعی آبرو ریزی،خود باپ اوربھائی کا اپنی حقیقی بیٹی اور سگی بہن کے ساتھ درندگی کا ننگا ناچ، معصوم نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تشدداور تعلیم کے نام پرایسابہیمانہ سلوک کہ چشم فلک بھی نم ناک ہوجائے۔

ائے کاش کہ یہ واقعات صرف افسانے ہوتے، دورجاہلیت میں پیش آمدہ قصۂ پارینہ ہوتے،کاش کہ ان سب کا حقیقت واقعہ سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہوتا ؛مگر    ؎

کلیجہ تھام لو رودادِ غم ہم کو سنانے دو!

 تفصیلات کے مطابق 20 ؍جنوری : اترپردیش بدایوں کے اجھانی علاقہ میں ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا معاملہ پیش آیا، سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ چندر پرکاش نے بتایا کہ کٹر ی گاؤں کی ایک حاملہ خاتون کل رفع حاجت کے لئے گئی تھی، تبھی کچھ لوگ اس خاتون کو دبوچ کر سرسوں کے کھیت میں لے گئے، وہاں ان لوگوں نے اس کے ہاتھ پیر باندھ دیئے، اس کے بعد اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی اور بے ہوش اور برہنہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

اسی طرح ایک ماہ قبل اترپردیش ضلع مظفر نگر کے دھنیدا نامی گاؤں میں پسند کے لڑکے سے شادی کے لیے بھاگ جانے والی لڑکی کو باپ نے اپنے بیٹے اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کراجتماعی آبروریزی کی۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والا یہ گھناؤنا واقعہ اس وقت پیش آیاجب 21 سالہ لڑکی اپنی پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگ گئی تھی، لڑکی کے باپ نے اسے سزا کے طور پر اپنے بیٹے اور دو دیگر رشتے داروں کے ساتھ مل کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹرکے مطابق لڑکی انصاف کے لیے عدالت سے رجوع ہوئی، الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔

 علاوہ ازیں 21جنوری :اتر پردیش میں پرتاپگڑھ ضلع کے تھانہ مانک پور میں پولیس نے ہفتہ کی دیر شام نابالغہ کے اغوا ور اسکے ساتھ اجتماعی آبروریزی کے الزام میں تین نوجوانوں اور تعاون کرنی والی دو خواتین سمیت پانچ ملزمان کے خلاف کیس درج کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق ایس ایچ او بال کرشن شکل نے بتایا کہ موضع بسہیا کی ایک خاتوں نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ اس کے پڑوس کی دو خواتین نے 18/ جنوری کی شب 9 بجے اسکی 14 سالہ بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔ جہاں پہلے سے شارق شیخ اور دو نامعلوم نوجوان موجود تھے جنہوں نے اسکے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی نیز بیہوش ہونے پر نواب گنج ہائی وے پر لے جا کر چھوڑ دیا اور فرار ہوگئے۔

ان سب کے علاوہ چندہفتوں قبل پڑوسی ملک کے قصورنامی علاقے میں سات سالہ معصوم زینب کے ساتھے جنسی زیادتی کے بعد بہیمانہ قتل کے دلخراش سانحے کی وجہ سے پورا عالم سوگوار اور اشکبار ہوگیا، اس المناک واقعے پر ہرآنکھ پرنم اور ہر دل درد بے چین ہوگیا۔ اور یہ بات آشکاراہوگئی کہ آج ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی اس انتہا کو پہونچ چکاہے، جہاں معصوم بچیوں کی عزتیں اور زندگیاں بھی اپنے محلوں اور گلیوں میں محفوظ نہیں رہیں، ہوس کے پچاری انسان نما جانور اتنے آزاد ہوگئے کہ اب ان کی حیوانیت سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ہم نے دیکھی ہیں عصمتیں لٹتی

ہم نے بکتا شباب دیکھا ہے

چشمِ قاتل کی یورشیں دیکھیں

اہل دل پرعتاب دیکھا ہے

 ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں ؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے۔ درج ذیل تحریر اگرچہ حالیہ پیش آمدہ واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے؛ مگر ہمارے یہاں بھی ہر روز اسی طرح کے دلخراش اور دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، لہذا ہمیں ان جرائم کے اصل اسباب کو سمجھنا ہوگا اور ان کے سدباب کی کوشش کرنی ہوگی۔قبل اس کے کہ ان دل دوز سانحات کے اسباب و سد باب پر روشنی ڈالی جائے اس حوالے سے دنیابھر کے مختلف ممالک کے اعدادو شمار بھی ملاحظہ فرمائیں !

اعداد وشمار:

میرے پیش نظر آبروریزی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی ایک فہرست ہے ؛جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔عصمت دری کے حوالے سے نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے جہاں زنی کے تعلق سے پیش آنے والے صرف چارفیصد معاملات کی شنوائی ہوتی ہے؛ جب کہ ۹۶ ؍فیصدمعاملات سردخانہ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کی فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ مانناہے کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں۔ ساتواں نمبر فحاشی و زناکاری میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے موجودہی نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا،فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔ چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہر 16 سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں۔ چوتھے نمبر پر ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں ؛ کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج ہی نہیں کرواتیں، تیسرے نمبر پہ سویڈن ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پرساؤتھ افریقہ کاہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔ پہلے نمبر پر دنیاکا مہذب ترین ملک امریکہ ہے جہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوتی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے ؛جن میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جب کہ آسام دوسرے نمبر پر ہے۔

ہندوستان کی دیگرریاستوں سے قطع نظرصرف مدھیہ پردیش میں یکم فروری 2016 سے اب تک مجموعی طورپر چار ہزار 527 خواتین انفرادی یا اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئیں۔ اسی طرح محکمہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آندھرا پردیش کے تین مقامات خواتین کے خلاف جرائم میں سرفہرست ہیں جن میں گنٹور، کرشنا اور گوداوری کے نام سامنے آرہے ہیں۔

 عمومی اسباب:

عام طور پر دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ایسے واقعات کے وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے۔ نگرانی اور تربیت کے حوالے سے والدین کی بے توجہی اور لاپرواہی بھی اس کی اہم ترین وجہ ہے،علاوہ ازیں نکاح جیسی آسان سنت کو ایک مشکل مسئلہ بنادینابھی اس کی بنیادی وجوہ میں سے ہے۔ جہیز اور گھوڑے جوڑے کے اخراجات سے گھبراکر والدین شادی میں تاخیر کرتے جاتے ہیں ؛جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوجوان نسل ناجائزراستوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل پر مجبورہوجاتی ہے، حالانکہ دین نے بچوں کی شادی کی جو عمر مقرر کی ہے اگر اسی عمر کو سامنے رکھ کر شادی کردی جائے تو بہت سے جنسی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔

ان کے علاوہ زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیاجاتاہے۔ چناں چہ فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔وغیرہ

عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں شادی کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔

عام طور پر زانی کے تعلق سے سزائے موت یا عمر قید کا پرزور مطالبہ کیاجاتاہے ؛مگرغورکرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف سزائیں ہی مسئلہ کا حل ہوتیں تو مجرمین کو پھانسی چڑھانے کے بعدجرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی؛ جبکہ جرائم کی رفتار میں بھیانک اضافہ ہورہا ہے۔ اسی لئے اسلام نے سب سے پہلے معاشرہ کی تطہیر اور مناسب تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ خواتین کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے، پھر جنسی جرائم کے تدارک کے لئے حجاب کو لازم قرار دیا ہے جو عورت کی عزت و حرمت کی بہترین علامت ہے۔ ساتھ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا لٹریچر، فلمیں، وہ تمام پیشے اور ذرائع جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ممنوع ہیں۔ اس کے بعد آخری تدبیر کے طور پر سخت سزائوں کا مرحلہ آتا ہے تاکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی جو لوگ جرم کے مرتکب ہوں انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ دیگر ساری احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر صرف سخت ترین سزا کا مطالبہ ایک واردات کے مجرم کو کیفرِ کردار تک تو پہونچا سکتا ہے، مشتعل عوام کے جذبات کی تسکین بھی کر سکتا ہے لیکن اس نوعیت کے سنگین جرائم کے دوبارہ ارتکاب کو روک نہیں سکتا۔

سدباب:

آج کی اس بڑھتی ہوئی درندگی کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے دامن عفت میں پناہ لی جائے ؛کیوں کہ عورت کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے دین اسلام نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ہرقوم و ملت کے لئے قابل دید اور لائق تقلید ہیں۔ چناں چہ خانہ نشینی سے لے کرپردہ وحجاب تک، مردو زن کے مابین تقسیم کار سے لے کرادائے فرائض وواجبات تک سب میں خواتین کی عزت وآبرو کا تحفظ کیا گیا اور گام بہ گام انہیں پاکدامنی کی تعلیم دی گئی ؛تاکہ صنف نازک کے شکاریوں کو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو۔

 اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، بے ضرورت باہر نکلنے اور کمانے کے لیے بازاروں کا رخ کرنے سے روک دیاگیاکہ کہیں کسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان اس کی آبرو کا سودانہ کرلے، بال بچوں کے اخراجات؛ بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے اسے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، اگر کسی بھی اہم ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانکنے کی تاکیدکی گئی تاکہ ’’چہرے کی رونق کا اظہار‘‘ اس کی اپنی زندگی کو ’’بے رونق‘‘ نہ بنادے، اس کی ’’بے لباسی‘‘ اقربا ورشتہ داروں کو ’’ذلت کالباس‘‘ نہ پہنادے، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ، باپ، بیٹا، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایاگیا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اورجنسی جذبات کووہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔

 مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اخراجات اور من مانی خواہشات کے ذریعہ بارگراں نہیں بنایاگیا، نہ تو لمبی چوڑی مجلس اوربڑے مجمع کی نکاح کے انعقاد میں شرط رکھی گئی، نہ ہی محفل عقدمیں قاضی اور جج کی حاضری کو ضروری قراردیاگیا؛بل کہ بہ شرط وسعت ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی، ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔

یہ اور ان کے علاوہ پچاسوں ایسے احکام ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عصمت دری کے واقعات پر قابو پایاجاسکتا ہے۔

عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں

یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    دنیا کا حسن شرم و حیا سے قائم ہے لیکن اگر آپ کی بے جا شرم و حیا آپ کے بچوں کی زندگی تباہ کر دے تو یہی قابلِ تعریف خوبی بدترین غفلت کہلائے گی۔ یہ بات کم اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فی صد بچے جنسی بے حرمتی کا شکار ہوتے ہیں ، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کا بچہ اس کا شکار نہ ہو۔ ایسا تب ممکن ہے جب اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے بجائے آپ اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔
    – پہلے تو یہ جان لیں کہ کم سِنی ہی میں بچوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کون سے رشتے اُن سے جسمانی قربت اختیار کر سکتے ہیں ، جیسے پیار کرنا، لپٹا لینا،گود میں بٹھانا ، بانہوں میں جُھلانا، اُنگلی پکڑ کر چلنا وغیرہ …پھر یہ بھی کہ عُمر کے کس حصّے میں کون کتنا قریب آسکتا ہے۔
    -بچے کو یہ بھی بتائیے کہ تمھارا بدن تمھاری ملکیت ہے اور اس کے کچھ حصّوں کا چھپانا اور اس کی حفاظت کرنا کس قدر ضروری ہے ، ان حصّوں کو چُھونے پر تمھیں ’’انکار‘‘ کا مکمل اختیار ہے ۔ ایسے موقع پر تمھیں بہت بہادر ہونا چاہیے وغیرہ۔
    -بچوں کو نہایت آسان پیرائے میں یہ بتانے کی ضرورت بھی ہے کہ جب کوئی اجنبی یا بتائے گئے رشتوں کے علاوہ کوئی بھی رشتے دار والدین کی سمجھائی ہوئی ایسی حرکات کی طرف راغب ہو جو اُس کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں تو اُسے کیسے بھانپ لیا جائے اور اس وقت راہِ فرار کیسے اختیار کی جائے۔ پھر یہ کہ جو کچھ بھی ہُو ا وہ پوری بات امّی یا ابو کے علم میں ضرور لائی جائے ۔
    -اگر کوئی بچہ کسی ممکنہ خطرے سے بچ کر آجائے اور پورا واقعہ اپنے بڑے کے علم میں لے آئے تو اُسے ’’شاباش‘‘ کے ایسے عمل سے گذاریں جس سے اُس کا اپنی ذات پر یقین مستحکم ہو اور وہ آئندہ زندگی میں مزید چوکنّا رہ سکے۔نیز اس واقعے کا تذکرہ دیگر بہن بھائیوں کے سامنے اس طرح کریں کہ وہ ان کے درمیان بہادر، ذہین یا ہیرو سمجھا جائے۔
    بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں میں جن لوگوں کو سرِ فہرست سمجھا جاتا ہے اُن میں ایک کزن دوسرا ڈرائیور تیسراٹیوٹر چوتھا ہمسایہ اورپانچواں خانساماں یا گھریلو ملازم شامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ تمام لوگ جنہیں بچوں تک آسان رسائی حاصل ہو۔بیشتر صورتوں میں اس جرم کے مرتکب ایسے لوگ ہوتے ہیں جو شناسا بھی ہوتے ہیں اور محترم بھی۔
    ماہرین ایسے والدین کو بھی ان جرائم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو اپنی مصروفیات یا مخصوص طرزِ زندگی کی وجہ سے اپنے بچوں سے غافل رہتے ہیں یاپھر وہ جو آنکھیں بند کرکے اپنے اطراف کے ماحول کو اچھا اورافراد کو بے ضرر سمجھتے رہتے ہیں۔
    -بچّوں کی جنسی بے حرمتی ان کے لئے کیسے کیسے ذہنی اور جسمانی مسائل پیدا کردیتی ہے اس پر بہت کچھ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے مگر اس سے بھی کہیں زیادہ اس جھجھک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو آپ اور آپ کے بچے کے درمیان کسی حساس موضوع پر آپ کو بات کرنے سے روکتی رہتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔