حیدرآباد میں رابطہ ادبِ اسلامی کا چھتیسواں سہ روزہ سیمینار

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کاشمار عالم اسلام کے مایہ ناز ادیبوں ،ممتاز مصنفوں اور عظیم مفکروں میں ہوتاہے۔آپ نے مختلف جہتوں سے عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں،اورعرب وعجم میں آپ کی عظمتوں کے تذکرے آج بھی زندہ ہیں اور ان شاء اللہ ہمیشہ باقی رہیں گے،آپ کی بے لوثی ،امتِ مسلمہ کے تئیں فکر مندی و دل سوزی،اصلاحی وانقلابی کوششوں نے پوری دنیا میں آپ کے نام کو روشن کیا،اور آپ نے جو بہت سے کام اور کارنامے انجام دئیے وہ آج بھی جاری ہیں۔ آپ نے علم و ادب کی ایک دنیا بسائی ،قلم کاروں اور مصنفوں کو تیار کیا،پیامِ انسانیت کی دعوت کے لئے داعیوں کی تربیت کی ،زبان وادب کے شیدائیوں کی پرورش کی اور دین کے مختلف محاذوں کے لئے ایک فردِ واحد نے ایک ادارہ اور انجمن کا کام انجام دے کے ہر میدان کے لئے رجا لِ کار تیار کئے۔چناں چہ عالمی رابطہ ادبِ اسلامی کی بنیاد بھی حضرت مفکر اسلام ؒ نے 1986ء میں رکھی اوراس طرح ایک عظیم کام کی طرحِ نو ڈالی ،جس میں آپ کے ساتھ عرب علماء وادباء بھی شریک تھے اور پھر رفتہ رفتہ یہ کارواں آگے بڑھتا رہا اور اپنے روزِ قیام سے آج تک دنیا بھر میں مختلف علمی اور تحقیقی موضوعات پر اپنے سیمینار منعقد کرواچکا ہے۔اس کا صدر دفتر ندوۃ العلماء لکھنو میں رکھا گیا اور بلادِ عربیہ کے لئے اس کا دفتر ریاض میں واقع ہے۔حضرت مفکر اسلام علی میاں ندوی ؒ تاحیات متفقہ طور پر اس کے صدر رہے اور آپ کے بعد آپ کے جانشین اور علوم و فکر کے امین حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی مدظلہ ( صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،ناظم ندوۃ العلماء لکھنو)رابطہ ادبِ اسلامی کے صدر ہیں۔رابطہ ادبِ اسلامی کی جانب سے ملک اور بیرون ملک اہم موضوعات پر سیمینار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔چناں چہ چھتیسویں سہ روزہ سیمینار کے لئے سرزمین حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا انتخاب کیا گیا،جو اردو کی ترویج و ترقی ،اردو ادب کو فروغ دینے میں بنیادی کردار رکھتا ہے ،اور جہاں اردو کے گیسوے سنوارے گئے اور زبانِ اردو کو خوب سے خوب تر بنانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں۔اور شہر بلکہ جنوبِ ہند کے ایک معروف دینی ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ دارالعلوم رحمانیہ ‘‘ کو میزبانی کا موقع ملا۔ سیمینار 16ڈسمبرجمعہ کی مغرب سے شروع ہوااور18ڈسمبرکی دوپہر میں مقالات کی پانچویں نشست پر بحسن وخوبی اختتام پذیر ہوا۔اس سمینار کاموضوع’’اردو ادب کے ارتقاء میں دکن کی خدمات ‘‘تھا ،جس میں تقریبا پورے ملک سے سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی اور اپنے مقالے پیش کئے۔حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کی صدارت اور مفتی محمد غیاث الدین رحمانی مہتمم دارالعلوم رحمانیہ نے افتتاحی نشست کی سرپرستی کی اور اختتامی نشست میں بھی صدر محترم نے شرکت کی اور اپنی تقریر اور دعا سے مقالات کی نشستوں کا اختتام فرمایا۔اس درمیان میں مختلف نشستوں میں بہت سے اہلِ علم حضرات نے شرکت کی اور اپنے مقالات پیش کئے۔مقالہ نگار حضرات میں حضرت مولانا رابع حسنی ندوی ،حضرت مولانا واضح رشید ندوی ،مولانا نذرالحفیظ ندوی ،پروفیسر محسن عثمانی ندوی ،پروفیسر سعود عالم قاسمی،ڈاکٹر تابش مہدی ،پروفیسر مجید بیدار،پروفیسر سمیع اختر فلاحی،ڈاکٹر رؤوف خیر،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،ڈاکٹر فہیم اختر ندوی،ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی ( کلکتہ)عارف عزیز بھوپال،مولانا خالد غازی پوری ،مولانا اقبال غازی پوری ،مولانا جمال الرحمن مفتاحی،مولانا محمد ناظم ندوی ،مولانا احمد اللہ بختیاری،ڈاکٹر مفتی مجاہد علی قاسمی،ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد ،مولانا سید احمد زکریا غوری کے نام ہیں ،اس کے علاوہ پورے ملک کے ممتاز قلم کار اور محقق حضرات نے اپنے قیمتی مقالات پیش کئے۔مقالات میں حیدرآباد کا ادبی منظر نامہ ،قطب شاہی سلاطین کی دکنی شاعری،دکن میں اردو کا ارتقاء ایک تاریخی جائزہ،ولی دکنی :اردو شاعری کا باوا آدم،امجد حیدرآبادی : رباعیات کا بادشاہ،عہد آصفیہ میں اردو ادب کا ارتقاء،اولیاتِ ڈاکٹر محمد علی اثردکنیات کی روشنی میں،دکن کی نعت گو شعراء،علمی و ادبی کتابوں کے تراجم دکن میں،قلی قطب شاہ کے شاعرانہ اثرات دکن میں،اردو ادب کے ارتقاء میں دکنی شعرا ء کاکردار،اردوادب کے فروغ میں حیدرآبادی صحافت کا حصہ ،اردو کی نشوونما میں دکن کے صوفیا کی خدمات،شگوفہ کی شانِ ظرافت پر ایک نظر،اردونثر کا ارتقاء دکن میں جیسے اور بہت سے اہم اور ضروری عنوانات پر مقالہ نگار حضرات نے روشنی ڈالی اور قیمتی سرمایہ جمع فرمایا۔
مقالات کی آخری نشست میں تجاویز پیش کی گئیں ،کہا گیا کہ اللہ تعالی نے ان حالات میں بھی اس سہ روزہ سیمینار کو پوری کامیابی کی ساتھ پائے تکمیل کو پہنچا یااور دور دراز سے مندوبین نے شرکت کرکے اس کو کامیا ب بنایا ، مزید اس میں ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا،اسی طرح شام کی خون زیری کی سخت مذمت کی گئی ،اردو زبان کے فروغ کے ممکنہ کوششیں کرنے کی ترغیب دی گئیں۔اس موقع پر صدر محترم حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی مدظلہ نے اپنے صدراتی خطاب میں زبان و ادب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہر زبان کا اپنا اثر ہوتا ہے ،دکن کی ادبی خدمات یقیناًناقابلِ فراموش ہیں ،اردو زبان کی ترویج و ترقی میں دکن نے قابلِ قدر کارنامے انجام دئیے ہیں ۔انسان اپنی زبان سے جو لفظ بھی نکالتا ہے وہ اپنا ایک اثر رکھتا ہے ،بسا اوقات ایک معمولی لفظ کسی کی زندگی بدل دیتا ہے ،اور ایک جملہ انقلاب برپا کردیتا ہے۔مفتی غیاث الدین رحمانی صاحب کے کلماتِ تشکر کے بعد صدر محترم کی دعا پر سہ روزہ سیمینار اختتام پذیر ہوا۔اسی شام بعد مغرب دارالعلوم رحمانیہ کے احاطہ میں ’’تحفظِ شریعت ‘‘ کے عنوان سے عظیم الشان جلسہ عام حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی کی صدرات میں منعقد ہوا ،جسے مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی ندوی ،مولانا خالد غازی پوری ،مولانا سید سلمان حسینی ندوی ،مولانا ابوالرضا ء ندوی ( رکن پارلیمنٹ بنگلہ دیش ) اور صدراجلاس مولانا رابع حسنی ندوی نے مخاطب کیا۔صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس عظیم الشان جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے لئے اس وقت تین کام ضروری ہیں۔(1) خود ہم اپنی شریعت پر اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے بنیں ،اگر ہم اپنی تعلیمات پر عمل کریں گے تو پھر کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ ہماری تعلیمات میں مداخلت کریں اور اسلام میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کریں۔دین کے ہر معاملہ میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیمات کو اپنانے والے بنیں ،شادی بیاہ اور دیگر موقعوں پر اسلامی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔( 2) ہمارا ملک سیکولر ہے اور یہاں کا دستور ہر شہری کو پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب ہر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے ،لہذا اگر کوئی کو ئی ہم سے یہ آزادی چھیننا چاہے تو ہم دستور کی روشنی میں لڑیں گے اور عدالت سے رجوع ہوکر اس بات کا مطالبہ کریں گے دستوری حق میں مداخلت سے روکا جائے،اس کے لئے ہم جد وجہد کریں گے۔( 3) تیسری بات جس پر صدر اجلاس نے روز دیا وہ یہ ہے کہ ہم غیرمسلموں میں اسلام کا اچھا تعارف کروائیں ،اپنے اخلاق و کردار ،معاملات و معاشرت کے ذریعہ اسلام کی پیاری تعلیمات کو پیش کریں۔ہمارے دین سے دور ہونے کے نتیجہ میں غیر مسلم ہمارے دین سے واقف نہیں ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان جلد بھڑک جانے والا ہے ،ہم کسی پر زور نہیں کرسکتے لیکن تعلیمات کو اچھے انداز میں پیش کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں ،اس وقت برادران وطن میں بہت سے لوگوں کو ہمارے بارے میں جو غلط فہمی ہے اس کو دور کرنے کے لئے ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اس کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا سیدسلمان حسینی ندوی نے اپنے ولولہ انگیز اور بصیرت افروز خطاب میں عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور بالخصوص شام ،عراق وغیرہ کے حالات پر روشنی ڈالی اور امتِ مسلمہ سے اپیل کی کہ ا ن حالات میں ہمیں تمام مسلمانوں کی بھلائی کے لئے اظہارِ ہمدردی کرنا چاہیے،ہمیں نبی ﷺ نے ایک جسم کے مانند قراردیا ہے ،کہ جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم درد میں شریک ہوجاتا ہے ،اسی طرح اگر دنیا کے کسی خطہ میں کسی مسلمان پر ظلم ہو ،ان کے گھروں کو برباد کیا جائے ،ان کی بستیوں کو تہس نہس کیا جائے تو ہمیں بھی اس کا درد اپنے دل میں محسوس کرنا چاہیے ،اور اسلام کو ساری دنیا میں پہنچانے کے لئے فکر وکوشش کرنا چاہیے ،اسلام کانظام اور قرآن کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی شریعت ہی میں انسانیت کی نجات اور دنیا کی کامیابی ہے۔
اللہ تعالی اس سیمینار کے مفید نتائج اور ان بیانات کے مفید اثرات عام فرمائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔