حیدرآباد میں منعقد کل ہند مسلم مجلس مشاورت کا اجلاس: ایک تجزیہ 

سید منصورآغا

کل ہند مسلم مجلس مشاورت میں  نو، دس ماہ سے جاری قضیہ پر غوروفکر کرنے اوراس کا کوئی متفقہ حل تلاش کرنے کیلئے 21؍اکتوبربروزاتوار حیدرآباد میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مرکزی مجلس کے رکن کی حیثیت سے حاضررہا۔ یہ قضیہ اس وقت شروع ہوا جب نئی دوسالہ میقات(2019-2018) کیلئے انتخابی عمل جاری تھا۔ نامزدگیاں ہوچکی تھیں۔ بیلٹ پیپر جاچکے تھے۔ ووٹ موصول ہوچکے تھے۔ صرف گنتی باقی تھی۔ مشاورت کے ایک محترم رکن جناب انیس درانی نے 22؍دسمبر2017 کو دہلی کی ایک عدالت میں عذرداری داخل کردی کہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ دوسرے ہی دن عدالت نے اس پر ایکس پارٹی (فریق مخالف کو سنے بغیر) عبوری حکم امتناعی دیدیا جس میں کہا گیا:

” I am of the considered opinion that plaintiff has been able to make out a prima facie case with regard to violation in the procedure of the election and in case of interim relief of stay of election is not granted, suit will become infructuous —— . Hence ex-parte interim relief is granted thereby directing the defendant that the election process shall stand stayed and ballot papers/ election results shall be kept in sealed cover and not disclosed till further orders.”

مفہوم اس کا یہ ہوا کہ ’’استغاثہ پرغورکرنے کے بعد میری رائے میں مدعی ایسے دلائل پیش کرسکے ہیں جن سے بظاہرانتخابی عمل میں بے قاعدگی کا کیس بنتا ہے۔ اس لئے اگر الیکشن کے عمل پرروک نہیں لگائی گئی تو مقدمہ بے معنیٰ ہوجائے گا۔۔ ۔۔چنانچہ ایکس پارٹی (یک طرفہ سماعت کے بعد) عبوری راحت دی جاتی ہے۔ اس کے ذریعہ مدعالیہ کو ہدایت دہی جاتی ہے کہ تاحکم ثانی انتخابی عمل رکا رہے گا اور بیلٹ پیپر؍ انتخابی نتائج سربہمر رکھے جائیں گے اور ظاہر نہیں کئے جائیں گے۔‘‘ چنانچہ اس حکم کے بموجب الیکشن آفیسر رشیداحمد خاں، ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر نے بیلٹ باکس کو سیل کردیا۔معاملہ عدالت میں ہے۔ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوسکا کہ کیس قابل سماعت (maintainable)ہے بھی یا نہیں۔

کل ہند مسلم مجلس مشاورت کا یہ انتخاب مجلس عاملہ کے بیس ارکان اورایک صدر کیلئے ہوتا ہے۔زیرتبصرہ الیکشن میں صدارت کیلئے دوامیدوارجناب محمد ادیب اورجناب نوید حامد تھے۔ جناب ادیب نے نامزدگی واپسی(withdrawal) کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے الیکشن آفیسر کے نام ایک مکتوب میں بعض شکایات درج کراتے ہوئے اپنا نام واپس لینے کا عندیہ ظاہرکردیا۔چنانچہ صدرکیلئے ایک امیدوار (نویدحامد) رہ گئے، اورووٹنگ صرف مجلس عاملہ کیلئے ہوئی۔صرف گنتی اورنتائج کا اعلان باقی تھا جس پر عدالت نے روک لگادی اورنئی عاملہ کی تشکیل رک گئی۔

اس حکم انتناعی کے نتیجہ میں صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ صدارتی امیدوار ایک رہ جانے کے باوجود، نتیجہ کا اعلان نہیں ہوا۔ حالانکہ انتخابی آفیسر نامزدگی واپس لینے کی مدت گزرجانے کے بعد واحد امیدوار کے چن لئے جانے کا اعلان کرسکتے تھے۔ عاملہ کے ووٹ جس بیلٹ باکس میں تھے اس کو سربمہر کردیا گیا۔چنانچہ نئی میقات کیلئے عاملہ کی تشکیل نہیں ہوسکی۔ ایسی صورت میں سوال ہوتا ہے کہ کیا مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک، جس میں برسوں لگ سکتے ہیں،کیا تنظیم معطل رہے گی؟ایسا کبھی نہیں ہوتا۔اب تنظیم کس طرح کام کرے گی؟ اس کا جواب مشاورت کے آئین کی شق 27(1) میں ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے :

27 (1). The existing MMM and RMMs and their office bearers shall continue in office till their successors are constituted/elected.

مفہوم اس کا ہوگا، ’’موجود مرکزی مجلس مشاورت اور علاقائی مشاورت اوران کے عہدیداران اس وقت تک اپنے منصبوں پرکام کرتے رہیں گے، جب تک کہ ان کی جگہ لینے کیلئے عہدیداروں یا تنظیم کے جانشین کی تشکیل یا انتخاب نہ ہو جائے۔‘‘

عدالت کی طرف سے انتخابی نتائج پر روک لگ جانے اورنئی میقات وقت پر شروع نہ ہوسکنے کی صورت میں اس شق کا مطلب ہوگا کہ سابق صدر، مرکزی مجلس عاملہ اورتمام دیگرعہدیداران اپنے کل اختیارات کے ساتھ نتائج کے اعلان تک حسب سابق کام کرتے رہیں گے اوراپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے کے پابند ہونگے۔اوپرہم نے عدالت کے امتناعی حکم کا عملیاتی حصہ (operative part)نقل کیا ہے جس سے واضح ہے کہ عدالت نے مرکزی مجلس مشاورت، مرکزی مجلس عاملہ اور عہدیداران کے کام کاج پر کوئی روک نہیں لگائی ہے۔ ان کے اختیارات اورذمہ داریاں بدستور حسب سابق رہیں گے۔ روک صرف انتخابی عمل اوراس کے نتائج کے بارے میں ہے۔

تعطل ختم کرنے کی کوشش: 

اس تعطل کو انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ حل کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن جب اس کے ختم ہونے کے آثار نظرنہیں آئے اورمحترم مولانا جلال الدین عمری صاحب کا ایک انٹرویو ایک اخبار میں شائع ہوا تو ہم نے ’بعنوان ’مشاورت کا قضیہ‘ اپنے کالم (20ستمبر) میں عرض کیا تھا:’’ اب تک جوکوششیں ہوئی ہیں ان کا دائرہ ان چند افرادسے ملاقاتوں سے آگے نہیں بڑھا جن کومولانا نے ’فریق‘کہا ہے۔ ہماری نظر میں وہ صرف فریق مقدمہ ہیں۔ اصل فریق خود مشاورت، اس کی رکن جماعتیں اورمحترم ارکان ہیں۔ ابھی تک رکن جماعتوں کے ذمہ داروں سے اورمحترم ارکان کے ساتھ مشاورت نہیں ہوئی ہے جو ملک بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں۔ان میں سے اکثرکو پورے معاملے کا علم بھی نہیں ہے۔ حالانکہ انہوں نے مشاورت کو اپنے خون جگرسے سینچا ہے۔‘‘

اس کے حل کیلئے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ سپریم گائڈنس کونسل، رکن تنظیموں کے ذمہ داران اورسینئر ارکان باہم مشاورت سے کوئی راہ نکالیں۔ تمام ارکان کو پوری صورتحال سے مطلع کیا جائے اوران کی رائے کے مطابق کوئی اقدام کیا جائے۔

اس کے چندروز بعد اطلاع ملی کہ حیدرآباد میں مشاورت کی عاملہ اورجنرل باڈی کی میٹنگ بلائی جارہی ہے۔ اس مرحلہ پر چند محترم ارکان نے محسوس کیا کہ اجلاس حیدرآباد کے بجائے دہلی میں بلانا زیادہ مناسب ہوگا اورجنرل سیکریٹری صاحب کو دو متوازی نمائندگیاں پیش کی گئی جس میں ایک راقم نے بھیجی تھی۔ لیکن جب اطلاع ملی کہ اجلاس کی جگہ تبدیل نہیں ہوسکے گی تواختلاف کے باوجود تنظیم کے فیصلے کے احترام اورمشاورت کیلئے فکرمندی کے طفیل شرکت کا قصدکرلیا۔ 20؍تاریخ کی شام کو جب بیشترشرکاء راستے میں تھے، اورکچھ پابرکاب تھے،مکرمی درانی صاحب اور بعض دیگرمحترم ارکان کا ارسال کردہ ایک مشترکہ خط ای میل سے موصول ہوا۔اس میں کہا گیا ہے: ’’مشاورت کے حالیہ بحران کے سلسلے میں کارگزار صدر طرح طرح کی غلط فہمیاں اور جھوٹ پھیلارہے ہیں اور اب عدالتی روک کے باوجود حیدرآباد میں ایک غیر قانونی میٹنگ منعقد کرکے اپنے غلط اور آمرانہ فیصلوں پر چند لوگ جمع کرکے مہر لگوانا چاہتے ہیں۔ ۔۔ہماری درخواست ہے کہ حیدرآباد کی غیر قانونی میٹنگ میں نہ شریک ہوں اور موجودہ ڈکٹیٹر سے مشاورت کو نجات دلائیں۔۔۔۔۔۔‘‘

اس کے ساتھ ایک طویل مضمون، تنازعہ کے حل کیلئے محترم عمری صاحب کوارسال کردہ ایک طویل مطالبہ نامہ اورایک دیگر دستاویز بھی ہے۔اس خط کا لب ولہجہ اس وقار سے محروم ہے جو مشاورت جیسی تنظیم کے ارکان کی مراسلت میں ہونا چاہئے۔ بہرحال ہمیں صرف یہ نشاندہی کرنی ہے کہ مشاورت کے آئین میں کارگزارصدر کا کوئی تصور نہیں۔ صدر اپنے پورے اختیارات کے ساتھ اس وقت تک صدربرقرار رہے گا جب تک اس کی جگہ نیا صدر نہ چن لیا جائے۔ عدالت نے روک صرف انتخابی عمل اوراس کے نتائج پر لگائی ہے۔ایک اطلاع یہ ہے کہ اس میٹنگ پر روک لگانے کیلئے بھی عدالت سے استدعا کی گئی تھی، جس کو عدالت نے منظورنہیں کیا۔اس لئے یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ میٹنگ عدالت کی روک کے باوجود بلائی گئی اورغیرقانونی ہے۔

میٹنگ میں عدم شرکت

میٹنگ کا نوٹس حسب ضابطہ تمام ممبران کوبھیجا گیاتھا۔جو محترم ومعزرارکان اس میں تشریف لائے ان کے بارے میں یہ تاثردینا کہ’ چند لوگ جمع کرکے صدرصاحب اپنے آمرانہ فیصلوں پرمہرلگوانا چاہتے ہیں‘، سخت زیادتی ہے۔ مشاورت کے محترم ارکان ہوشمنداورمعاملہ فہم ہیں۔ وہ ایسے ناسمجھ نہیں کہ کسی کی ہرجا اوربے جا بات کی تائید کردیں گے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتاکہ جن محترم ممبران کو اختلاف ہے، وہ خود،ان کے معاون، محرک اورہم خیال اس میٹنگ میں تشریف لاکر اپنا استغاثہ ارکان مشاورت کے سامنے پیش کرتے۔ ہمیں اپنے ارکان مشاورت پر اعتمادکرنا چاہئے کہ وہ پوری بات سن کر، سمجھ کرہی کوئی رائے بنائیں گے اور جس نتیجہ پر پہنچیں گے وہ مشاورت کے حق میں بہتر ہوگا۔ اگر مدعی محترم درانی صاحب کے سامنے کوئی قانونی مصلحت تھی تو ان کے ہم خیال لوگوں کوشریک ہونا چاہئے تھا تاکہ دونوں فریقین مقدمہ کی بات سامنے آجاتی۔مگرافسوس ایسا نہیں ہوا۔

مشاورت کے اس اجلاس میں کئی  اہم شخصیات طویل سفرکرکےتشریف لائیں۔ان میں کئی ضعیف بھی تھے۔ اجلاس صبح تقریبا ساڑھے دس بجے شروع ہوا شام کو پانچ بجے تک چلا۔ درمیان میں مختصر وقفہ نماز ظہر اور کھانے کیلئے ہوا۔کورم آغاز سے پہلے ہی پورا تھا جس سے ممبران کی فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے۔ اجلاس شروع سے آخر تک نہایت نظم و ضبط کے ساتھ چلا۔ سنجیدہ اظہارخیال ہوا۔ محترم ارکان نے بعض امور پر صدر صاحب سے بازپرس بھی کی۔ان کی بعض تجاویز کو سختی سے روک دیا۔مشوروں کے بعد جو فیصلے ہوئے ان سے شرکا کی فکرمندی اوررہنماؤں کی حسن تدبیر کا پتہ چلتا ہے۔ مثلا اس کے باوجود کہ اختلاف کرنے والے فریق نے میٹنگ کا بائی کاٹ کیا۔ کوئی فرداس کا موقف پیش کرنے نہیں پہنچا۔ اس کے باوجودارباب حل وعقداورارکان، پیچ جو پڑا ہوا ہے، اس کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔اس لئے کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کرلیا گیا۔ طے یہ ہوا کہ سپریم گائڈنس کونسل کی تشکیل نو ہو۔ نئے ارکان کا اضافہ اورچیرمین کا ہو۔ یہ کونسل ازسرنوخوش اسلوبی کے ساتھ متفقہ راہ نکالنے کیلئے اقدام کرے۔اجلاس کے فوراً بعدسپریم گائڈنس کونسل کے موجودہ سات میں سے اجلاس میں موجود پانچ ارکان کی میٹنگ ہوئی جس میں محترم مولانا عمری کو اس کا چیرمین چن لیا گیا۔ مولانا سفیان قاسمی اورڈاکٹرسید فاروق کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ کبرسنی اورخراب صحت کے باوجود پانچوں ارکان کونسل اجلاس میں شروع سے آخرتک موجود رہے اورفیصلوں پر اثرانداز ہوئے۔

مشاورت میں شریک 16تنظیموں میں سے 8 کے نمائندوں نے شرکت کی۔ 4 کے نمائندے مختلف وجوہ سے نہیں آسکے مگرانہوں نے تائیدی پیغام بھیجے۔ اجلاس کو جب یہ بتایا گیا جناب سلیم درانی نے اپنے عرضی دعوے میں کہا ہے کہ وہ مشاورت کے ارکان کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں تو بعض ارکان کی تجویز پر ایک قرارداد منظور کرنے پراتفاق کیا گیا، حالانکہ صدرصاحب کہتے رہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس میں کہا گیا ہے کہ درانی صاحب ہماری نمائندگی نہیں کرتے۔ صدرصاحب سے کہا گیا ہے وہ مناسب طریقے سے اس کو عدالت میں پیش کردیں۔ جس وقت یہ تجویز منظورکی گئی اس کی تائید کوئی پچاس ممبران نے کی۔لیکن مسودہ تیارہوتے ہوتے کچھ حضرات کی روانگی کا وقت آگیا اور40ممبران نے اس پر دستخط کئے۔ اس پر مزید ممبران کی تائید بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بعض تجاویز ملکی صورتحال کے پس منظرمیں پیش ہوئیں اورحالات حاضرہ پر بھی اظہارخیال ہوا۔ ازاول تاآخر انہماک اس قدرتھا کہ محترم سیکریٹری جنرل صاحب سابقہ میٹنگ کی روداد اورتعزیتی قراردادبھی پیش نہیں کرسکے۔جس پربعد میں سخت افسوس کا اظہارہوا۔ بہرحال میٹنگ میں خاص طورسے حضر ت مولانا سالم صاحب ؒ کا نام کئی بارآیا۔ اللہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ آمین۔

ایک مشورہ:

جیسا کہ عدالت نے اپنے اسٹے آرڈرمیں کہا کہ بادی النظر میں انتخابی ضابطوں کی ان دیکھی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں کچھ اوربھی قانونی اعتراضات ہیں جو عرضی دعوے میں اٹھائے گئے ہیں۔قانونی پیچیدگیوں کو ہرکوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے دعوے میں اٹھائے گئے اعتراضات اورمطالبات پر ایک موقررائے آنی چاہئے۔ ہم نے یہ تجویز پہلے بھی پیش کی تھی ا ب سپریم گائڈنس کونسل کی خدمت میں عرض ہے کہ فریقین کو بٹھاکر بات کرنے سے پہلے بہترہوگا کہ کسی ریٹائرڈ جج سے کیس کی فائل پر رائے لے لی جائے تاکہ قانونی پہلوؤں کی یکسوئی ہوجائے اوراس کی روشنی میں بات ہو۔ اگر واقعی کہیں غلطی ہوئی ہے تواس کے ازالے کی صورت نکالی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اس طرح اس گتھی کو سلجھانے کی راہ کھلے گی۔ہمارے خیال سے عرضی دعوے میں اٹھائے گئے سارے اعتراضات بلاوجہ نہیں ہیں۔

جیسا کہ اجلاس کے دوران متعدد محترم ارکان نے توجہ دلائی کہ اس وقت ملکی حالات سخت تشویشناک ہیں، ایسے موقع پر مشاورت کو انتشار کے حوالے کردینا سخت نادانی ہوگی۔ اس لئے ہماری تمام متعلقہ محترم ارکان سے گزارش ہے کہ لب ولہجہ نرم رکھیں۔اپنی اناپرنظررکھیں۔ بقول نکہت اخترصاحبہ

بات ہے کیا، یہ کون سمجھے گا،اپنے لہجے کو پر اثر رکھئے

نظریں چاہے ہوں آسمانوں پر،پاؤں لیکن زمین پر رکھئے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔