معیارِ تعلیم : کب تک؟

راحت علی صدیقی قاسمی

 تعلیم کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اس پر گفتگو کرنا سورج کی روشنی پر دلائل پیش کرنے کے مترادف ہے، حالاں کہ وہ ظاہر و باہر ہے، ہر آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے اور جن آنکھوں میں قوت بینائی نہیں ہے، وہ اس کی تمازت سے اس کا وجود پہچان سکتی ہیں، تعلیم وہ قیمتی جوہر ہے کہ ہر شخص اس کی اہمیت و افادیت سے باخبر ہے، اس کی عظمت و رفعت کو جانتا و سمجھتا ہے، دیوانگی ہی ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو تعلیم کی اہمیت پر مطلع ہونے سے روک سکتا ہے، غریب فقیر بھوکا ہر شخص اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے، اس کے قلب میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد تعلیمی میدان میں ترقی کرے، علمی میدانوں کو سر کرتا ہوا کائنات کے اسرار و رموز سے واقف ہوجائے، انسانیت کی خیر تلاش کرے، ہمارے ملک میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، غریب و مفلس طلبہ جن کے پاس پیٹ بھرنے کے وسائل نہیں تھے، انہوں نے اعلیٰ تعلیم میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منایا ہے اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوکر ملک کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پوری دنیا تعلیم کی اہمیت و افادیت کو سمجھ چکی ہے، دنیا کا اکثر طبقہ اس کے حصول میں محنت جد و جہد اور لگن کے نادر و نایاب نمونے پیش کر چکا ہے اور کر رہا ہے، حصول علم کے لئے لوگوں کا گھر چھوڑنا وطن کو خیرباد کہنا عام ہوتا جارہا ہے، ہمارے ملک ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ تعلیم کی تکمیل کے لئے ہجرت کرتے ہیں، اجنبی ملک اور اجنبی ماحول میں رہنا گوارا کرتے ہیں، اور مائیں اپنے بچوں کو گود سے اتار کر ہاسٹل کے نگراں کے حوالے کردیتی ہیں، اس کے مثبت و بہترین نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، ہمارے ملک میں بہت سے کامیاب ڈاکٹر انجینئر اور نظم و نسق کے افسران موجود ہیں اور چونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں تعلیم پر محنت کا معیار بہت بلند ہے، لہٰذا دنیا کے بہت سے ممالک ہیں، جو سو فی صد تعلیمی شرح کا عدد مکمل کرچکے ہیں، اس کے علاوہ دنیا میں جن ایجادات و انکشافات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، وہ سب تعلیم ہی کا تو ثمرہ ہیں، انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے، سورج کی روشنی کو قید کررہا ہے، دریاؤں، پہاڑوں اور جھیلوں سے استفادہ کی خوبصورت و حیران کن راہیں تلاش کر رہا ہے، زندگی کے مشکل ترین اسفار کو انتہائی سہل اور آسان بنا رہا ہے، درد و تکلیف کو شکست دینے والی ایجادات کر رہا ہے، کل جو اڑنے والی قالینیں کہانیوں میں ہوتی تھیں، آج وہ حقیقت کا روپ لے چکی ہیں۔

ہمارے ملک کو بھی عرصۂ دراز سے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ تعلیمی شرح جب تک بلندیوں کا سفر طے نہیں کرے گی، ملک اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کرپائے گا، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے، 2001 میں  (سرو سکشا ابھیان)شروع کیا گیا، یعنی تعلیم کو ہر فرد تک پہنچانے کی مہم شروع کی گئی، اس کے لئے گاؤں گاؤں ابتدائی تعلیمی اداروں کا نظم کیا گیا، جو تعلیم کو گھر گھر پہنچانے کی قابل تحسین کوشش تھی، 2013 میں دی ہندو میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق حکومت ہند 33 کروڑ روپے میں 80 کروڑ طلبہ کے لئے تعلیمی انتظامات کررہی تھی، حکومت ہند کو جب غریب مفلس طلبہ کے مسائل کا احساس ہوا تو ان کے لیے کھانے پینے کتابیں اور ڈریس کا انتظام کیا گیا، مڈ ڈے میل کے نام سے ایک اسکیم 1995 سے جاری ہے، جو طلبہ کے لیے کھانا فراہم کرتی ہے، یہ ایک قابل تحسین قدم تھا، اس سے امیدوں کے چراغ روشن ہوگئے تھے کہ ہندوستان تعلیم کے میدان میں ناقابل یقین ترقی حاصل کر لے گااور سو فی صد تعلیمی شرح کا خواب اب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا، لیکن یہ سب امیدیں و خواہشیں ابھی تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکی ہیں، حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، صورت حال ٹس سے مس نہ ہوئی،ہمارے ملک کی تعلیمی شرح آج بھی 75 فی صد اور 80 کے درمیان ہے،اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی تعلیمی صورت حال میں خاطر خواہ سدھار نہ ہونا بڑا سوال ہے، آج بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے پڑھے ہوئے طلبہ میں نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے، کیا حکومت ہند نے ابتدائی تعلیمی (پرائمری) ادارے محض کھانا کھلانے کے لئے قائم کئے ہیں ؟ ان اداروں سے اس معیار کے حامل بچے کیوں نہیں نکلتے جو غیر سرکاری اداروں کا معیار ہے؟ سرکاری اداروں میں قوانین و ضوابط پر پابندی کیوں نہیں ہے؟ خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی سرکار ان اداروں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام کیوں ہے؟

یہ سوالات ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں، جنہیں وہ کبھی نہ کبھی اپنے آپ سے پوچھتا ہے، جوابات پر غور کرتا ہے، اور کڑھ کر رہ جاتا ہے، ہمارے ملک کا کثیر طبقہ غریبی کی زندگی گذارتا ہے، جس میں سہولیاتِ زندگی نہیں ہیں، مشکلات و پریشانیاں ہیں، اس طبقے سے وابستہ افراد کے 90 فی صد بچے سرکاری اداروں میں تعلیم میں حاصل کرتے ہیں اور ابتدائی اور ثانوی درجات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان میں بہت سے انگریزی کے حروف تہجی سے بھی بے خبر ہوتے ہیں اور جب یہ میٹرک میں پہنچتے ہیں، تو ان میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ اس مرحلہ کو پار کرسکیں، اکثر کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور نکل پڑتے ہیں، مزدوری کے اس سفر پر جس میں تکلیف ہے، ذلت ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی تلخ یادیں ہیں، حالانکہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں، لیکن مذکورہ سبب سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جو صورت حال ان تعلیمی اداروں میں پیش آرہی ہے، ان میں اساتذہ کی ٹریننگ کی بھی داخل ہے، ان کو طلبہ کی نفسیات درس و تدریس کا طریقہ کار، بچوں کی حوصلہ افزائی، اساتذہ کو ان تمام امور بخوبی مہارت ہونی چاہیے، انہیں اس پیشے کی عظمت کا اعتراف ہونا چاہیے، انہیں باخبر کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے معمار ہیں، اگر انہوں نے خامی کی تو ملک کو سخت ترین مسائل سے مقابلہ کرنا ہوگا، اور حکومت ہند کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ابتدائی تعلیمی مراکز سے وابستہ اساتذہ ہندوستان کی نئی نسل کے معمار ہیں، جب تک حکومت ہند اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتی ہے، صورت حال کی تبدیلی نا ممکن ہے، ان اساتذہ کا تقرر تدریس کے لیے ہوا ہے، اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو انہیں سزا دی جائے، البتہ انہیں دیگر کاموں میں مشغول کرنا جہاں ان کی انا پر چوٹ کرنا ہے، وہیں انہیں اپنی ذمہ داری سے بے خبر کرنا ہے، حالانکہ ہم آئے دن اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، اساتذہ کو بیت الخلاء شمار کرنے کے لئے، ووٹ بنانے کے لئے، اور کبھی انتخابات کے انتظامات کرنے کے لئے مختلف ذمہ داریاں دیتے ہیں، جو تعلیم میں مخل ہوتی ہیں، اور اساتذہ کی عزت کے زیور کو بدنما کرتی ہیں، جس سے ان میں منفی جذبات جنم لیتے ہیں، اور تعلیمی نظام براہ راست متاثر ہوتا ہے، حکومت ہند کو ان امور کے لئے اُن افراد کا استعمال کرنا چاہئے جو شعبۂ تدریس سے وابستہ نہیں ہیں اور اساتذہ کو تدریس میں محنت و جد و جہد کرنے کی تلقین کرنی چاہئے، انہیں اچھا کام کرنے پر اعزاز دینا چاہیے، اور محنت نہ کرنے پر زجر وتوبیخ کرنی چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو سنگین نتائج سامنے ہوں گے،جس کا اعتراف وزیر اعلیٰ یوگی کے ان الفاظ میں ملتا ہے، کہ نوکریاں ہیں لیکن اس معیار کے حامل افراد نہیں ہیں، جو ان امور کو انجام دے سکیں، پھر غیر ملکی کمپنیوں سے ان امور کو انجام دلایا جائے گا، ملک میں سرکاری ملازمتوں کی قلت ہوگی، بے روزگاری اور جہالت عام ہوگی، لوگ علم کی جگہ مزدوری کو ترجیح دیں گے اور تعلیمی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔