خواتین کی تعلیم اور اسلامی احکام

عبدالسلام ندوی

تعلیم انسانی زندگی کی فلاح وبہبود اور کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے، تعلیم سے ہی انسان کی تمام دینی ودنیاوی ترقیات وابستہ ہیں، اسلام نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے پیروکاروں اور عقیدت کیشوں کے لئے رہنمائی چھوڑی ہے وہیں اس نے حصول تعلیم اور تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی ہے، اور اس میں مرد وزن کے درمیان یک گونہ امتیاز کو بھی پسند نہیں فرمایاہے، مذہب اسلام کو اس تعلق سے اولیت کا درجہ حاصل ہے جسکے ثبوت کے طور پر قرآن پاک کے وہ تمام احکام اور فرامین پیش کئے جاسکتے ہیں جو تعلیمی امور سے متعلق ہیں اور بصیغہ عموم جاری ہوئے ہیں یا جن میں صیغہ مذکر اور لفظ ’’الناس‘‘ کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے، دراصل قرآن پاک اور عربی زبان میں دو قسم کے خطاب وارد ہوئے ہیں، ایک تو وہ خطاب ہے جسکا روئے سخن عورتوں سے ہے، دوسرا عمومی خطاب ہے جس میں مرد وزن مشترک ہیں، امام خطابی رحمہ اللہ نے حدیث نبوی ’’انما النساء شقائق الرجال‘‘پر اپنی تعلیق میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ جب خطاب مذکر لفظ کے ساتھ وارد ہوتو عورتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہوتی ہیں بجز چند مخصوص مقامات کے جہاں دلائل کے ذریعہ تخصیص ہو، یہ تحقیق علامہ ابن قیم، علامہ ابن رشد اور علامہ ابن حزم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں پیش کی ہے۔

اسلام نے جہاں مرد وزن کے درمیان دیگر دنیاوی امور میں عدل ومساوات کا حکم دیا وہیں اولیاء کو بالخصوص مزید یہ ترغیب دلائی کہ وہ خواتین کو اسلامی تہذیب سے آراستہ وپیراستہ کریں اور اس عظیم خدمت پر اجرعظیم کا وعدہ بھی کیا، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ ؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں حضور اقدسﷺنے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ انکے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالی سے ڈرتارہے اور انکے ساتھ احسان وسلوک کا معاملہ کرے تو اللہ تعالی اسکی بدولت اسکو جنت میں داخل فرمائے گا، اس معنی کی اور بھی روایتیں ترمذی، مسنداحمداور حدیث کی دیگر کتب میں وارد ہوئی ہیں، جس سے خواتین کی دینی تربیت اور انکی اسلامی تثقیف کی فضیلت واہمیت عیاں ہوتی ہے۔

خود نبی اکرمﷺنے عورتوں کی تعلیم انکو مہذب بنانے اور انکی دینی تربیت میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیااور نہ یہ کہ صرف ان سے مردوں کی طرح بیعت لی بلکہ انکے لئے علم کی مخصوص مجالس بھی قائم کی، چناچنہ صحیح بخاری کتاب العلم میں مذکور ہے کہ جب عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لئے ایک خاص دن مقرر فرمایاجائے تو آنحضرتﷺنے یہ درخواست منظور کی اور انکے وعظ وارشاد کے لئے ایک خاص دن مقرر ہوگیا، خواتین کی تعلیم کایہ اہتمام عہد نبوی میں اس حدتک پہنچ گیا تھاکہ بسااوقات صحابہ کرامؓ کا نکاح محض قرآنی سورتوں کی تعلیم کے عوض میں کردیاجاتاتھا۔

ایک دفعہ عید الفطر کے موقعہ پر جبکہ صحابہ کرامؓکی ایک بڑی جماعت موجود تھی آپﷺخواتین کی صفوں کے قریب تشریف لائے اور انہیں خوب وعظ ونصیحت کی اور صدقہ پر اس قدر ابھارا کہ عورتیں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں اور کڑے نکال کرصدقہ کرنے لگیں۔

آپﷺنے عورتوں کیلئے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ دینی مسائل سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلیں اور ان افراد کو زجروتوبیخ کرتے جو اپنی عورتوں کومساجد سے روکتے تھے، آپﷺ کاارشادتھاکہ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو‘‘امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف احیاء علوم الدین میں اس حدیث کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ عورتوں کا مساجد کی طرف جانامحض ادائیگیء نماز کیلئے نہیں ہے، بلکہ نماز کے ساتھ حصول علم بھی اسکا اہم مقصد ہے، اور جب شوہر اس لائق نہ ہو کہ وہ بیوی کو دینی امور سے واقف کرائے تو عورت کیلئے گھر سے نکلنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے اور شوہر اگر اس راہ میں رکاوٹ بنے تو وہ سیہ کار ہوگا۔

نبی اکرمﷺکی اسی خصوصی توجہ کا اثر تھا کہ عہد اوائل اسلام میں خاتونان حرم اور صحابیاتؓ کی ایک بڑی جماعت نے احادیث کی روایت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیاجوسنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فن اسماء الرجال پر اپنی شہرہ آفاق تصنیف الاصابۃ میں ۱۵۵۲ ایسی صحابیات کی سوانح حیات بیان کی ہے جنہوں نے نبی اکرمﷺسے حدیثیں سنیں اور انہیں روایت کیااوران حالات کولکھنے کے بعدذکرکیاہے کہ یہ سب کی سب خواتین ثقہ اورعالمات تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر علم جرح وتعدیل کے مشہور امام حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف میزان الاعتدال میں خواتین محدثات کے بارے میں بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے عورتوں میں کوئی ایسی راویہ نہیں ملی جن پر میں کذب بیانی کی تہمت لگاوں اور نہ ہی کوئی ایسی ہے جسے محدثین نے متروکہ قرار دیا ہے، حالانکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کافن جرح وتعدیل میں وہ رتبہ ہے کہ انہوں نے چار ہزار محدثین کی جرح کی ہے۔

ان مخدرات اسلام نے احادیث کے علاوہ بیشمار روایتوں کی تفسیریں بھی بیان کیں یہاں تک کہ دینی علوم کا نصف حصہ خواتین کی ہی عالمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچاجنکا مکثرین روایت میں چھٹا نمبر ہے، اور محض علم شریعت سے واقفیت ہی انکی فضیلت اور مزیت کا باعث نہیں ہے، بلکہ اسکے علاوہ علم کلام عقائد، علم اسرارالدین، طب، تاریخ، ادب، خطابت اور شاعری میں بھی انہیں اچھی دستگاہ حاصل تھی، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے پوچھاگیا، اے ام امومنین قرآن کی تفسیر اور حلال وحرام کی تعلیم آپ نے نبی اکرم ﷺسے حاصل کی اور شاعری، علم انساب اور سابقہ اقوام کے حالات آپ نے اپنے والد اور دیگر لوگوں سے جانالیکن فما بال الطب؟آپ کو طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟ام المومنین نے فرمایاکہ نبیﷺکے پاس جو وفود آیا کرتے تھے وہ اپنی بیماری کی شکایت آپ سے کرتے، آپﷺجو بھی نسخہ بیان فرماتے میں اسکو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیتی تھی، ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ آنحضرتﷺآخر عمر میں بیمار رہاکرتے تھے، اطباء عرب آیا کرتے تھے جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی، اسلام کے اس ابتدائی عہد میں ام المومنین عائشہ ؓکے علاوہ دیگر صحابیات بھی علم طب میں ید طولی رکھتی تھیں جن میں رفیدہ اسلمیہ، ام سلیم، ام سنان، آمنہ بنت قیس الغفاریہ، کعبیہ بنت سعد اسلمیہ، شفاء بنت عبداللہ اور ام عطیہ وغیرہ کے نام محدثین نے بیان کئے ہیں۔

  اور یہ بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانہ میں جب قرآن کی تدوین ہوئی تو مصحف کا واحد خطی نسخہ ایک حجلہ نشین حرم نبوت حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ الفاروق کے پاس رکھاگیا اور اس معاملہ میں کسی صحابی کو ذرا بھی تردد نہیں ہواحالانکہ اجلہ صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد اس وقت موجود تھی اور ان میں بعض ایسے بھی تھے جو فضل ومرتبہ میں ان سے اونچا مقام رکھتے تھے، لیکن اسکے باوجود حضرت حفصہؓکو اس اہم اور نازک کام کیلئے ترجیح دی گئی، جسکی بنیادی اور مرکزی وجہ یہ تھی کہ حضرت حفصہؓمعاملہ فہمی، دوراندیشی اورنکتہ آفرینی میں شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ کاشانہ نبوت میں رہکر عمدہ تعلیم وصحیح تربیت سے بھی خوب اراستہ ہوگئی تھیں، مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق نبی اکرمﷺنے ایک صحابیہ حضرت شفاؓ بنت عبداللہ عدویہ کو جولکھنا پڑھنا جانتی تھیں اس بات پر مامورفرمایا تھاکہ وہ حضرت حفصہ ؓکو لکھناپڑھناسکھائیں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی بتائیں چناچنہ حضرت حفصہؓ نے بہت جلد پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھ لیا۔

بہرکیف یہ تو ایک عجالہ نافعہ ہے، جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ عہد نبوی میں مسلمان عورتوں نے تربیت نبوی میں رہکر علمی، مذہبی، اجتماعی اور سیاسی اور پندوموعظت اور اصلاح وارشاد اور امت کی بھلائی کے جو کام انجام دئے اسکا عشرعشیر بھی دنیاپیش کرنے سے قاصر ہے۔

آج اہل یورپ عالم اسلام کے خلاف الزامات تراشتے نہیں تھکتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین اسلام سے قبل اور مسلمانوں کے دور انحطاط میں تعلیم تو کجااپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم تھیں، خود یورپ میں سترہویں صدی عیسوی تک عورتوں کیلئے حصول تعلیم ممنوع تھا، یہاں تک کہ کتاب مقدس کے پڑھنے کی بھی انہیں اجازت نہیں تھی، اور موجودہ یورپی تہذیب کا سنگ بنیاد رکھنے والے ملک فرانس کا حال یہ تھاکہ سب سے پہلی خاتون نے ۱۸۶۱ ؁ء میں جب سکینڈری کلاس کے امتحان کیلئے درخواست پیش کی تو اسکی درخواست رد کردی گئی اور درخواست کو منظوری اسی وقت حاصل ہوئی جب نیپلیون سوم کی اہلیہ اور وزیر رولان نے اسکی سفارش کی، یہی حال جرمنی کی یونیورسٹی کا تھاجس میں خواتین کوپہلی دفعہ ۱۸۴۰؁ء میں داخلہ لینے کی اجازت دی گئی۔

یہ وہ حقائق ہیں جو یورپ کی موجودہ ظاہری چمک دمک اور آزادی نسوانیت  کے باطل اور پرفریب نعروں پر کالی سیاہی پوتتے ہیں، اور اسی کے ساتھ اسلام مخالف الزامات کی قلعی بھی کھولتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔