بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار

سعیدہ زبیر شیخ

 "اے ایمان والو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا سو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔” (سورہ المنافقون: ۹)

بچوں کی تربیت ایک مشکل ترین اور صبر آزما کاموں میں سے ایک کام ہے۔ جو آج کے دور میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس لئے کہ آج کا ماحول بالکل مختلف ہے۔ آج کے بچوں کے آگے پوری دنیا بےنقاب (exposed) ہو چکی ہیں۔ ایجادات اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہیں، ٹیکنالوجی کو ہی لے لیں۔ ایک کو ہی نہیں سمجھ پاتے کہ دوسری کی آمد ہوتی ہیں۔ مثلا جدید طرز کے موبائیل ہی کو لے لیجئے ایک کے بعد ایک نئے موبائیل متعارف ہوتے چلےجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے مادیت پرستی کاقوی ہیکل عفریت ان کے سامنے کھڑا ہے۔ جو ان کے دل دماغ اور شعور کو اپنی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ اسی کے سحر میں گرفتار ہیں۔ والدین کس کس سے اور کہاں کہاں سے اپنے بچوں کو بچائیں گیں۔ اگر ہم ان کے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ احساس ہو گا کہ آج بچے بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ اور اس کے نتیجے میں بہت زیادہ پریشان اور کنفویژن کا شکار ہے۔ ایک طرف والدین کی آرزوئیں اور ارمان، دوسری طرف دوستی یاری کے تقاضے (peer pressure) اور معاشرے کا دباؤ, تو تیسری طرف مستقل اس کی اپنی ذات کے ساتھ جنگ ہوتی ہے۔جو اس کی زندگی کو تین سمتوں میں باٹ دیتی ہیں۔ تو ایسے میں تربیت کے وہ کونسے رہنما اصول اپنائے جائے ؟ جن سے ان کی زندگی یکسر بدل جائے۔ دراصل آج کل کے اس مصروف دور میں ہمیں بہت سے معاملات کو سمجھنے اور اس کے اثرات جانچنے کی بھی فرصت نہیں ہیں۔ ٹیکنالوجی نے انسان کو مشین بنادیا ہےاور ہم ان کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور کچھ ان کے اور ہمارے درمیان (Generation gap) ہیں۔ اور ہمیں اسی گیپ کو پر کرنا ہیں۔

 دراصل بچے اللہ تعالی کی طرف سے ایک امانت ہیں۔ سب سے پہلے اپنے اندر جواب دہی کے احساس کو جگایئے۔ کہ مجھ سے اس امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور اسی کے ساتھ جو ہمارا فرض منصبی ہے کہ ہمیں نیکی کا حکم دینا ہے اور برائی سے روکنا ہے۔ اور اسی نہج اور اسی بنیاد پر تربیت کرنی ہوگی۔ جس طرح اگر ایک ڈاکٹر دوائیوں کے  ساتھ مریض کو یہ نہ بتاے کہ وہ کونسے چیزیں مریض کے لئے مضر ہیں اور کونسی چیزیں سود مند ہیں۔ تو ان دوائیوں کا کیا اثر ہوگا۔ بالکل اس طرح بچوں میں برے اور بھلے کے احساس کو زندہ اور تابندہ رکھیں۔ جب تک آپ اس کے شعور کو اجاگر نہیں کرینگے۔ تب تک ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ اور اپنے تجربات ان کو بتائیں  تاکہ جو غلطی ہم نے کی ہے وہ اس کا اعادہ نہ کریں۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات ملحوظ رکھیں کہ ہم انہیں ماضی کو مدنظر رکھ کر تربیت نہ کرے بلکہ ان کو  آنے والے کل کے لئے تیار کرے۔ اور مستقبل کے تمام حالات کو پیش نظر رکھ کر ان کی تربیت کی جائیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر کی صلاحتیوں اور کمزوری دونوں پر اس جوہری کی طرح نگاہ رکھیں۔ جو اپنے ہیرے جواہرات کی حفاظت بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسے چمکاتا بھی رہتا ہے۔بالکل اسی طرح والدین کو چاہئیے کہ بچوں کی صلاحتیوں کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلوں اور جذبوں کا بھی خیال رکھیں۔ جس طرح شطرنج کے کھیل کی اصل خوبی مہروں کوآگے پیچھے کرنا ہوتا ہے۔جس کو کھیلنے کے لئے صلاحیت اور دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں بھی بچوں کے نفسیات کو مد نظر رکھ کر ان کے معاملات کو ڈیل (deal) کرنا ہو گا۔ کبھی ان کی خواہشات کو آگے کرنا ہوگا تو کبھی اپنی بات کو منوانا ہے۔ دراصل یہی (parenting) کہلاتی ہے۔

ہم سب کے علم میں ہوگا کہ کس طرح البرٹ آئین سٹائن کو جب اسکول سے خارج کر دیا گیا تو اسکی والدہ نے کس طرح اپنے آنسوؤں کو جذب کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کی اور یہ الفاظ کہے کہ تم اتنے اسمارٹ ہو کے تمہیں ٘ٹیچر کی ضرورت نہیں ہے۔ اور خود کتابیں خرید کر اس کو پڑھایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ البرٹ آئین سٹائن  ۴۰ صدی کا بہت بڑا سائنس داں کہلایا۔ اور بہت سالوں بعد جب اس نے اس خط کو کھولا تو حقیقت سامنے آئی کہ اسکول نے یہ کہہ کر اسے نکال دیا کہ اس کے اندر کسی بھی چیز کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوئی صلاحیت  نہیں ہے۔ اس کی شخصیت کو نکھارنے میں اس کی والدہ کا کتنا بڑا اور اہم رول رہا۔ بالکل اسی طرح ہم بھی اپنے بچوں کے صلاحتیوں کو پروان چڑھایں۔ نہ ہمیں موم کی طرح نرم ہونا ہے اور نہ پتھر کی طرح سخت ہونا ہے۔ معتدل رویہ کہ ساتھ ان کی تربیت کرنی ہوگی۔ انہیں ان کا مقصد حیات ( Purpose of life) بتائیں اور ساتھ ہی اس منزل (Goal/Objective ) کو کس طرح حاصل کریں۔ اس کا طریقہ کار بھی بتائیں اور یہ تب ممکن ہے جب ہم خود بھی اس کو اپنائے گے۔ دراصل والدین کے لئے بے حد ضروری ہے کہ وہ اولاد کے لیے سچائی امانت و استقامت اور اس کے علاوہ دوسری خوبیوں میں بھی نمونہ بنیں اور جس چیز کے کرنے کا انہیں حکم دیں خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں۔ کبھی اپنی تربیت، اپنی صلاحیتوں یا اپنی خوبیوں کےزعم میں مبتلا نہ رہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ (التحریم : ۶آیت)

اسی آیت مبارکہ میں جہاں اہل ایمان کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ خود بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کہ کوشش کریں وہیں  یہ ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں، اور اہل وعیال کو بھی نیک اورصالح اعمال کی تلقین کریں۔ اورانھیں بھی آتشِ دوزخ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ اور اللہ تعالی سے ہر وقت دعا کریں۔ یہی رسولوں اور انبیاوں کا طریقہ کار رہا تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کی صحیح رخ پر تربیت کرسکیں۔ اس لئے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے  مستقبل کی معمار ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔