ایک اداس سفر

عزیز اعظمی 

دومہینے کی چھٹی کا آج آخری دن تھا اور بچوں کے ساتھ آخری ناشتہ بھی، گھر کی دہلیز پار کی تو پھر دوسال بعد ہی لوٹونگا یہ سوچ کر آج آلو کے پراٹھے کا ذائقہ بھی سعودی عرب کے سوکھے خبز کی طرح لگ رہا تھا،  روز کی طرح آج سب کے چہرے کِھلے ہوئے نہیں مُرجھائے ہوئے تھے، آج گھر میں چہل پہل نہیں سب اداس تھے سوائے چھوٹے بیٹے کے جو ہاتھ میں غبارہ لئے کھیل رہا تھا جس کو ابھی یہ نہیں معلوم کہ ہجر کیا ہے، پردیس کیا ہوتا ہے، اپنوں سے بچھڑنے کا غم کیا ہوتا ہے وہ ان تمام باتوں سے ناآشنا ہاتھ میں غبارہ  لئے مجھ سے اس بات کی ضد کئے جا رہا تھا کہ میں بھی جہاز پر بیٹھونگا، میں بھی آپ کے ساتھ چلونگا میں اس کے معصوم سوالوں پر نادم، اپنی مجبوریوں پر ماتم کناں دسترخوان پر بیٹھا اسے روٹی کے ٹکڑوں سے بہلا رہا تھا، کھلونوں میں الجھا رہا تھا، جیب میں پڑے چند سکے دیکر خوش کر رہا تھا لیکن آج وہ بھی اپنی ضد پر اسی طرح اڑا تھا جیسے میری مجبوری مجھے سعودی لے جانے پر اڑی تھی، دل میں سوچ رہا تھا کاش میں اسکو اپنے ساتھ لے جا سکتا، کاش میں جاتا ہی نہیں بچوں کے ساتھ ہی رہتا لیکن ہرخواہش کی تکمیل اور ہر خواب کی تعبیر کہاں ….  میرے ساتھ جڑے نصیب اور ذمہ داریوں کے بیچ جذبات کی گنجائش کہاں …  اللہ کے فیصلے پر سر تسلیم خم اپنے جذبات کو ناشتے کے ہر نوالے کے ساتھ اتار رہا تھا اور ابھی ناشتے کی پلیٹ میں آخری لقمہ بچا ہی تھا کہ باہر ببلو کی کار ہارن بجاتے ہوئے مجھے لے جانے کے لئے آ پہونچی کار کی آواز میں اس قدر سوز اور ہارن میں ہجرت کی ایسی وحشت تھی کی آخری لقمہ حلق سے نا اتر سکا، بیگ اٹھانے کے لئے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا کونے میں کھڑی بیٹی کے اس سوال نے کی ” ابو پھر کب آئینگے” دل کو چھلنی کر گیا، میرا ضبط ٹوٹتا تو پاس میں کھڑی ماں، بہن، بیوی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ پڑتا، اپنے آنسووں کو پی کر، غموں کو چھپا کر بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے زبان سے صرف اتنا کہہ کر باہر نکل گیا کہ جلد ہی۔ ۔ ۔ ۔ بیٹی کو خوش رکھنے کے لئے میری زبان سے نکلا ہوا یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا جس کو صرف میرا دل جانتا تھا۔

اماں میرے سامنے تو نہیں روتیں لیکن میرے جانے کے بعد یہ کہہ کر رو پڑتیں کہ میرا بیٹا ہربار یہ کہہ کر سعودی واپس چلا جاتا ہے کہ یہ آخری سفر ہے لیکن ہر سفر پر ضرورت اپنا منھ کھولے، ہاتھ پھیلائے، سینہ تانے ایسے کھڑی ہوتی ہے کہ مجبور ہوکر پھر وہ اسی اداس سفر پر لوٹ جاتا ہے، سعودی عرب کی کمائی سے گھر کی تنگی مٹی تو چھت کا سلیب باقی تھا، سر پر چھت ہوئی تو جوان بہن کا نکاح باقی تھا، بہن کا گھر بسا تو بھائی کی تعلیم باقی تھی بھائی پیروں پر ہوا تو باپ کا علاج باقی تھا  پرانی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد تھوڑی سی مہلت ملی تو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھایا کہ اماں اب یہ آخری سفر ہوگا، دوسال بعد جب لوٹا تو ایک نئی ذمہ داری کو بالغ ہوتے دیکھ کر قَسم توڑ دی کی اماں بیٹی بڑی ہورہی ہے اسکے نکاح کے لئے پھر جانا ہوگا اس کی اس بے بسی اور قربانی پر کلیجہ پھٹ گیا کہ اس بار وہ حلوے کی جگہ صرف اپنی دوا لے گیا، اچار کی جگہ صرف سیرپ لے گیا یہ کہتے ہوئے کہ اماں شوگر، بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہے کہ اب حلوے کی نہیں دوا کی ضرورت ہے میرے بیٹے کی اس تیس سالہ جدو جہد کے باوجود بھی نہ اس گھر کی ضرورت پوری ہو سکی اور نہ ہی میرے بیٹے کی آخری سفر کی حسرت۔

سعودی عرب جانے کے بعد گھر کی پوری کیفیت بیگم ہمیشہ مجھے لکھ بھیجتیں، اس لئے مجھے پتا تھا کہ اماں اس بار بھی ہمیشہ کی طرح روئی ہونگیں، بچے اداس ہونگے ، میرے چھوڑے ہوئے سامان کو سمیٹتے ہوئے بیوی تڑپی ہوگی، گاؤں، گھر، بیوی، بچے، اماں، ابا کی انھیں تمام  باتوں کو یاد کرتے ہوئے کب بنارس پہونچ گیا پتہ ہی نہیں چلا  ایئرپورٹ پہونچ کر سامان کو لگیج میں ڈالنے کے بعد کسٹم آفیسر کے سامنے پاسپورٹ لیکر کھڑا ہوا اور وہ اپنے چشمے کے اُوپر سے مجھ پر ایک تحقیقی نظر ڈالتے ہوئے  پاسپورٹ پر اس شدت سے مہر لگائی جیسے کسی جج نے ایک لبمی سنوائی کے بعد سزا سناتے ہوئے اپنی قلم توڑ دی ہو اور اس آخری مرحلے اور فیصلے کے بعد واپسی کے سارے راستے بند ہو گئے ہوں ایک سزا یافتہ مجرم کی طرح ہاتھوں میں پاسپورٹ اُٹھائے بوجھل قدموں سے فلائٹ میں جا بیٹھا، ملک چھوڑنے سے پہلے جیو سم سے آخری فون کرتے ہوئے بیگم اور اماں کو خدا حافظ کہتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھ لیا لیکن بیگم کا آنسووں میں بھیگا ہوا لہجہ اور اماں کی بیٹھی ہوئی آواز یہ ثابت کر گئی کہ ہجرت۔ ۔ ۔ وقت کا دیا ہوا ایسا  زخم ہے جو بھر بھی جائے تو اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ کیونکہ ہجرت ہمیشہ وجود کی ہی ہوا کرتی ہے دل اور رشتے کبھی ہجرت نہیں کرتے یہ اپنی زمین ہی میں پیوست رہتے ہیں بلکہ ہجرت کے بعد ماں، باپ، بیوی، بچے گھر بار، گاؤں، ملک سے محبت کا رشتہ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے، اور اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ گلی کا وہ پتھر بھی عزیز لگتا ہے جس سے انگلیوں کو ٹیس لگی ہوتی ہے۔

سعودی عرب پہونچتے ہی آنکھو کی ساری رنگت سارے نظارے ساری ہریالی صحرا میں بدل گئی، پھر سے وہی زندگی شروع ہوئی جسے چھوڑ کر گیا تھا عربیوں کی وہی تعال و سرعۃ، وہی دال و کبشہ دو سال کا مقدر بن گیا پورا ہفتہ تو کام میں گزر جاتا لیکن جمعۃ کو روم کی تنہائی ڈسنے لگتی، آج شام کو بچوں کی اس قدر یاد آئی دل ایسا گھبرایا کہ روم سے باہر نکلا اور سمندر کے کنارے جا بیٹھا کہ شاید سمندر کی لہروں میں کھو کر کچھ غم کو ہلکا کر سکوں ..

شام ڈھل چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس اداس شام میں سمندر کے کنارے ریت پر بیٹھا سمندر کی لہروں کو ساحل پر سر پٹکتا دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بھی میری طرح غم تنہائی کا ماتم  اور ہجر کا شکوہ کر رہی ہیں۔ ۔ ۔ یہ بھی پردیسی مسافرکی طرح سمندر میں میلوں کا سفر طے کرکے موجوں سے لڑتے ہوئے ساحل سے ٹکراکر اپنا وجود اسی طرح خاک میں ملا رہی ہیں جس طرح ایک پردیسی سات سمندر پار آکر مجبوریوں اور ضرورتوں سے لڑتے ہوئے اپنا وجود مٹی میں ملا دیتا ہے، ساحل پر سر ٹکراتی ان لہروں اور ہواؤں سے اٹھنے والی آواز میں ایسا سوز و غم تھا جیسے کوئی ماں اس درد سے کراہ ہی ہو جسکے بے گناہ بیٹے کو زعفرانی بھیڑ نے پِیٹ پِیٹ کر مار دیا ہو۔

سوچا تھا ساحل سمندر جاکر اسکی ٹھنڈی ہواؤں اور اسکی بل کھاتی لہروں سے لطف اندوز ہوکر غمِ تنہائی کو کچھ کم کر سکونگا  لیکن یہاں کی اداس شام اور سرپٹکتی لہروں نے میرے غم کو اور بڑھا دیا گھبرا کر وہاں سے اٹھا روم پر واپس آیا بیوی کو فون لگایا تو چھوٹا بیٹا ابو۔ ۔ ۔ ابو کہہ رو رہا تھا گھر سے نکلتے وقت ایک جھوٹ بیٹی سے بولا تھا کہ جلد ہی آونگا اور اب دوسرا جھوٹ بول کر بیٹے کو بہلا رہا ہوں کہ بازار سے آپ کے لئے کھلونا لینے آیا ہوں اس معصوم نے میرے اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر اپنا آنسو پوچھ لیا اور آج  وہ ایک سال سے میری راہ تکتے ہوئے اپنے کھلونے کے انتظار میں بیٹھا ہے باہر رکنے والی ہر گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور پھر مایوس واپس لوٹ جاتا ہے اور وہ باپ ہے کہ لوٹنے کو تیار نہیں، معصوم بیٹے کی مایوس آنکھوں کو سوچ کر دل خون کے آنسو روپڑتا ہے، ہائے رے مجبوری کہ بیٹا جھوٹ کو سچ مان کر کھولنے کے انتظار میں دوسال گزار دیتا ہے اور باپ اپنی مجبوری۔ ۔

 اس بار جب گھر گیا تو سعودی عرب کی تپتی ریت اور بیماریوں نے اس قدر نچوڑ لیا تھا کہ آنے کی ہمت نہ کر سکا۔ جو کسی سے نہیں ہارتا وہ دُکھ سے ہار جاتا ہے، مہنگی دوائی،  بڑھتی مہنگائی  کے مد نظر لوگوں نے علاقائی روایت کے مطابق مجھے بھی یہی مشورہ دیا کہ بیٹے کو ڈرائیونگ سکھاو اور سعودی عرب بھیج دو لیکن سعودی سے نکلتے وقت میں اس روایتی کشتی کو اس خوف سےجلا کر آیا تھا کہ میرے بعد کہیں یہ کشتی میرے بچوں کے ہاتھ نہ لگ جائے اس لئے اب  پردیس لوٹنے کا تو کوئی سوال نہیں تھا لیکن مجبوری اور ضرورت  پھرکہیں میرا ایمان نہ توڑ دے اس خوف سے پھرمیں نے اپنے عزم کو چٹانوں سی مضبوطی دی سعودی جانے والے مشورے اور خیال کو اپنے دل و دماغ سے خرچ کر نکال دیا، بیماریوں اور پریشانیوں سے سمجھوتا کیا، ضروریات کو کم کیا، بیٹے کی تعلیم کو فوقیت دی اسکو ہر چیز پر مقدم رکھا اور جب وہ میڈیکل کے بعد دہرادون سے میڈیکل آفیسر بن کر گھر لوٹا تو سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا میری ساری قربانیاں، پریشانیاں بیٹے کی کامیابی کے آگے چھوٹی ہوگئیں۔ اس وقت  اگر میں اپنی وقتی پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بیٹے کو تعلیم کے بجائے ڈرائیوربنا کر سعودی عرب بھیج دیا ہوتا آج وہ بھی میری طرح کسی سمندر کے کنارے بیٹھ کر اپنی مجبوری اور تنہائی کا شکوۃ کرتا، بیوی، بچوں کی محبت و قربت سے دور شب تنہائی کاٹتا اور پھر آخیر عمر میں گھر بیٹھ کر اپنی قسمت کا رونا روتا، یہ با عزت تعلیم یافہ اور پرسکون زندگی اس کا مقدر نہ بن پاتی۔

تبصرے بند ہیں۔