خالق کے خلاف مخلوق کی بغاوتیں

شہباز رشید بہورو

عیاشی میں لت پت، مستیوں میں بد مست، بے حیائی میں فحاش تر، تکبر میں ابلیسی رویہ اور اللہ سے بے خوف عوام شاید الله واحد القہار کی طاقت کو للکار رہے ہیں۔ مذہب کے سوال کو ایک طرف رکھ کر خالص شرف انسانی کی بنیاد پر دیکھا جائے کیا ایسی صفات سے متصف عوام اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہلانے کا حقدار ہو  سکتی ہے۔ ہر نوعیت کی برائی ہر انسان کے لیے خباثت کا مفہوم رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج ہر انسان برائی کے راستے پر ایسے گامزن ہے جیسے سیلابی دریا اپنی موجوں کی روانی کے ساتھ  کنارے پر موجود مٹی کو کاٹ کر اپنے ساتھ بہہ لے جاتا ہے، اُسی طرح برآئی کے سیلاب نے آج ہر انسان کو بہا لیا ہے۔ غریبوں، ناداروں اور لاچاروں پر ظلم کس مذہب کی تعلیم ہے، بے حیائی اور فحاشی کے ہر حد کو پھلانگ کر اپنی جنسی تسکین بجھانا یہ کس مخلوق کا وطیرہ ہے، تکبر کے لباس میں ملبوس یہ کس انسانی رویہ کا مظاہرہ ہے، خفیہ سازشیں رچانا اپنے ہی بھائیوں کو خوف وہراس میں مبتلا اور آخر پر بے دردی سے قتل کرنا یہ کس انسان کا مشن ہے؟ سود کی بنیاد پر بے بس عوام کو معاشی طور پر کھنگال کرنا کس معاشی خوشحالی کا نام ہے؟ یہ سب کچھ ابلیسیت کا کھلم کھلا کھیل ہے۔ شیطنت اور دجالیت کی تحریک ہے۔

انسان کو اپنی ساخت پر غور کرنا چاہئے اسے اس پوری کائنات کے مقابلے میں اپنی پو زیشن پر غور کرنا چاہئے کہ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ کہ وہ اس قادرِ مطلق ہستی کے مقابلے ميں آ کھڑا ہوا ہے جس کی قبضہ قدرت میں اس دیدہ اور نادیدہ کائنات کا ہر ذرہ ہے۔ جس کے اذن کے بغیر ایک پتہ مختصر جنبش نہ کر سکتا ہے، برقی ذرّات اپنی جگہ سے ہل نہ سکتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوٴا ہے۔ اس طاقتور رب العالمين کے خلاف آج اس کے بندوں نے علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔ حکمرانوں کی عیاشیاں اور مکاریاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں اور اس کے مقابلے میں عوام کی پریشانیاں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔

آج کے انسان نے اپنے مالک اور خالق سے بغاوت کر کے الہامی تعلیمات کو ذاتی طور پر نظر انداز کرکے اس کی بنیاد پر قائم ہونے والے نظام حیات کا انکار کرکے ملحدانہ نظام تعلیم اور سیکولر نظامِ حیات کھڑا کیا، کہ نہیں چاہیے ہمیں یہ غائبانہ بیڑیاں و پابندیاں۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر اب سیکولرزم ار جمہوریت کا بھی انکار کر کے حیوانیت پر اتر آیا ہے۔ حالانکہ مغربی دنیا نے انیسویں و بیسویں صدی میں پوری دنیا میں ان کے غلغلے کو عام کیا، ایشیا و آفریکہ کی سیدھی سادھی عوام کو اپنے نظریات کے ٹیکے لگائے، انھیں بھی اپنی تحریکِ تباہی میں شامل کیا۔ اس شیطانی ورزش کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آیا وہ یہ کہ اکثر ممالک کے حکمران اپنی عوام پر ظلم ڈھانے میں حیوانیت کا اظہار کر رہے ہیں جس انسان کو جہاں موقع ملتا ہے شرفِ انسانیت کو دفن کر رہا ہے اور اس کے بدلے وصفِ شیطانیت کا اظہار کرنے میں بے باک و نڈر دکھ رہا ہے۔ مال وزر کی حوس نے اسے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ عورت ہو یا مرد اکثریت اللہ کی باغی ہو کر  سانسیں لے رہی ہیں۔ معاشرے میں تھوڑا سا مقام حاصل کر لیا  نا تو تکبر اور غرور نے شخصیت پر قبضہ جما لیا، تھوڑا سی دولت کی فراونی ہوئ تو الحمدلله کی رٹ، اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا آزمائش میں ڈالا نہیں تو ناشکری ومایوسی کا قاعدہ سیکھ لیا اور اسی طرح ک طبعیت و مزاج کی چکی میں پستا جا رہا ہے آج کا انسان۔ قرآن مجید انسان کے اس پورے معاملے کی ترجمانی یوں کرتا ہے؛

انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب اس کا ربّ اسے آزماتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور نعمتیں عطا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دی۔

اور جب وہ اسے آزماتا ہے پھر اُس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا
سورۃ الفجر۔

حدیث پاک میں آیا ہے کہ اگر ابن آدم کو ایک سونے کی وادی دی جائے گی وہ دو کی طلب کرتا ہے۔

اس طلب و تمنا اور حُب جاہ و حشمت نے تمام انسانوں کو حقائق کی تلخیوں کا صحیح ادراک کرنےسے کوسوں دور رکھا ہے۔ آج کے انسان کو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیاں  کرنے کا نرالا انداز اختیار کرنے میں فخر وغرور محسوس ہوتا ہے اور اس کو ظاہر کرنے کے لیے کروڑوں کے حساب سے پیسہ خرچ کرنے میں پاگل پن اختیار کر چکا ہے۔ عجب معاملہ ہے آج کے انسان کا بے حیا و فاحشہ اداکاراؤں سے سیلفی اور ہاتھ ملانے کے لیے جان کی بازی تک لگانے کی کوشیش کی جاتی ہے، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ان جیسے لوگوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے جو کروڑوں کے حساب سے پیسہ و دولت صرف اس بنیاد پر حاصل کرتے ہیں کہ عوام کو شہوت کی آگ میں زیادہ سے زیادہ جلا ئیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹا کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جو انسانی حدود وقیود ہو سکتے ہیں ان سب کو پھلانگ کر کون سا مقام ہو سکتا ہے جس پر آج کی انسانیت کھڑی ہے ؟ اب شاید شرف و مروت کی ڈکشنری میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کی طرف جا رہے ہیں۔

موت کے سامنے بوڑھے یا جوان، عورت یا مرد، طاقتور یا کمزور، آفیسر یا مزدور، ذہین یا بیوقوف، نیک یا بد، حاکم یا محکوم اور گورے یا کا لے کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جس کا جو وقت متعین ہے وہ اٹل ہے۔ کوئ انسان اس گمان میں نہ رہے کہ میں فلاں و فلاں ہو تو موت کا ابھی کوئی خطرہ نہیں۔ ہر گز نہیں موت اس کے سایے کی طرح اس کے ہمراہ ہے بس مکل رفاقت حاصل کرنے کے لیے حکمِ خداوندی کی منتظر ہے۔ مٹی میں سڑنے والا، آگ میں جلنے والا، پانی میں ڈوبنے والا اور تیز ہوا میں گرنے والا آخر اتنی نافرمانیوں پر کیوں اتر آیا ہے؟آخر کس چیز نے اسے اپنے مالک و خالق کا باغی بنایا ہے؟جیسے قرآن میں آیا ہے:

"اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربّ ِ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا، تجھے متناسِب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟”۔ کس پیارے ودلربا انداز میں رب العالمين اپنے بندوں سے مخاطب ہے اس کا انداز ہر ایک ذی شعور کر سکتا ہے۔ اس کے بعد خود اللہ تعالیٰ اس اہم سوال کا جواب دیتے ہیں :
” ہر گز نہیں، بلکہ ﴿اصل بات یہ ہے کہ ﴾ تم لوگ جزا و سزا کو جھُٹلاتے ہو”.

اس کی تفسیر میں علامہ شبیر عثمانی لکھتے ہیں کہ "یعنی بھکنے اور دھوکہ کھانے کی اور کوئی وجہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ تم انصاف کے دن پر یقین نہیں رکھتے ہو کہ جو چاہیں کرتے رہے، آگے کو ئی حساب اور باز پرس نہیں۔ یہاں جو کچھ عمل ہم کرتے ہیں کون ان کو لکھتا اور محفوظ کرتا ہوگا بس مر گئے اور سب قصہ ختم”.

موت اور آخرت کی اسی یاد سے غافل ہو کر ہم خدا کے باغی بن چکے ہیں۔ ہر انسان کو اپنے مذہب کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور حقیقت کی تلاش میں اُسے تعصب، غرور، ضد، ہٹ دھرمی اور دیگر ان جیسی صفاتَ رزیلہ کی بھنک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔