ختم دل کا نصاب ہو گیا نا

افتخار راغبؔ

ختم دل کا نصاب ہو گیا نا

کربِ جاں کامیاب ہو گیا نا

میں سراپا سوال اُن کے حضور

اور اُن کا جواب ”ہو گیا نا“

کس اَگن میں جلا رہے تھے مجھے

دیکھ لو دل کباب ہو گیا نا

زخمِ دل کی طرف نہ دیکھا کر

پھر سے تُو آب آب ہو گیا

اب یہ مرہم ہے چپ رہو زخمو!

اب برابر حساب ہو گیا نا

مسکراہٹ بکھیر دے اب تو

ختم تیرا عتاب ہو گیا نا

مت کر اتنا بھی فکرِ مستقبل

حال راغبؔ  خراب ہو گیا نا

تبصرے بند ہیں۔