شیرازئہ خیال

 نوید احمد فسانہؔ

 میں ۔۔۔۔ حضرتِ انسان۔۔۔۔ایک  خاص مقصد کے لیے پیدا کیا گیا تھا ۔میری منزل کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ جس کی تکمیل انسانیت کی فضیلت کو مزیداعلیٰ و ارفع درجات ہمکنار کرنے کا باعث بن جاتی ۔جو شیطان لعین کو دکھا دیتی کہ ہم انسان ہی اللہ کریم کی سب سے بہتر مخلوق ہیں اور ہم ہی ہیں جو اس ذات کی نعمتوں کا سب سے زیادہ شکر بجا لانے والے ہیں ۔ مگر شائد۔۔۔۔۔۔۔ اس دنیا کا ہر اصول ہی الگ ہے۔۔ ہر ادا نرالی ہے۔ ہر راہ کی اپنی الگ منزل ہے۔ہر چیز اپنے اندر الگ ہی اسرار رکھتی ہے۔۔ ایسی منزل اور ایسا راز کہ جس کے متعلق مجھ سا ناتواں اور کمزور سا انسان شائد سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔مجھے اندازہ تک نہیں تھا کہ خدا کے نائب بننے کا بار اٹھا کر ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑے گاکہ جو زندگی کے اس خطرناک موڑ پر لا کھڑا کریں گے۔اب تو کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ذات نفسانیت کے پر پیچ شکنجوں میں بالکل ایسے جکڑی جا چکی ہے جیسے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کوئی بے گناہ قیدی اپنی حیات ِ گمنام کی آخری ڈھلتی ہوئی سانسیں لے رہا ہو۔ایسا لگتا ہے جیسے میری اصل منزل کسی موڑپر سہوانیت کی نذر ہو چکی ہے۔میں اب ایسے مسافر کی مانند ہوں کہ جو رات کے پہر میں سمندر ی سفر کے دوران بحری قذاقوں کے ہاتھوں اپنا رختِ سفر لٹا کر تن تنہا بھٹکتا پھر رہا ہو۔۔۔۔۔۔ اپنے انجام سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی منزل سے نا آشنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے راستے سے گمراہ۔۔۔میں تو ان حالات کا سامنا کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا تھاکہ جو مجھے کانٹوں بھرے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیں ۔میں نے تو زندگی میں ایسی تمنائوں کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ جو مجھے ان گھور اندھیر رستوں کا راہی بنا کر رکھ دیں ۔میں تو ایک معصوم روح کے ساتھ اپنے اللہ کی عبادت کے لیے بھیجا گیا تھا پھر میرا مقدر اس قدر ہیبت ناک شکل کیسے اختیار کر سکتا ہے؟

 مجھے تو شرف حاصل ہے ، خدائے برتر و ذو الجلال کے نائب ہونے کا۔میں تو اس ذات کی وحدانیت اور عظمت کا پر چار کرنے اس جہانِ رنگ و بو میں آیا تھا ، پھر یہ گمرا ہی اور پیروی ذات کیوں ؟مجھے اس بات کا علم بھی ہے کہ میں کھو چکا ہوں ، میں ان راستوں پر ہی چل رہا ہوں جدھر کفر کا ڈیرا ہے۔ جہاں گمراہی کی ظلمتیں دندناتی پھرتی ہیں ۔ جہاں سالہا سال اللہ کے ذکر سے محرومیاں رہتی ہیں ۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ میں آگہی کے با وجود حقیقت حال سے فرار ہونے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں ۔ اپنے اصل کو نظر انداز کر کے اس قعرِ رسوائی کے کنویں میں ڈوبتا چلا جا رہا ہوں کہ جو میر ی ذات کی پاکیزگی کو ددھندلا کر تی جارہی ہے۔میر ی وسیع النظر صلاحیتیں نا جانے پژ مردگیوں کا شکار کیوں نظر آتی ہیں ؟نا جانے اس کائنات کی تحقیقات کرنے والے، ہزاروں من مٹی تلے سے قیمتی سونے کے ذخائر کو نکال کر انہیں انتہائی خوبصور ت زیورات کی ا شکال میں ڈھال دینے والے، صبحِ نور سے لے کر شام کی گہری تاریکیوں تک کھلیانوں میں شدت کی دھوپ میں پسینے میں شرابور ہو کر بھانت بھانت کی فصلیں اگانے والے، لاکھوں کروڑوں کے لشکروں کو آن کی آن میں پچھاڑ دینے والے،جنگل کے شہنشاہ کو اپنا پالتو جانور بنا دینے والے، دشت کی تپتی ریت میں شہروں کے شہروں آباد کر دینے والے۔۔۔۔ نا جانے اپنے جذبات واحساسات اور نفس سے کیسے ہار مان لیتے ہیں ؟؟؟؟کیوں اپنی ذات کی تمنائوں کے آگے سر جھکا کر جی حضوری کرتے ہوئے انسانیت کو بے شرمی و رسوائی کا سیاہ تاج پہنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے؟؟خدا کی سب سے افضل مخلوق کے افراد ایسے گھنائونے اعمال کرتے ہیں کہ حیوان بھی شرم سے پانی پانی ہو کر اسی پانی میں ڈوب مریں ۔۔۔۔۔

  کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں شائد ایسے افراد بھی موجود ہوں گے جو جنگل میں بسیرا کیے ہوئے ہوں گے۔ ان تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا ہوگا۔ وہ اگر کافر بھی ہوں گے تو شائد بخشے جائیں ۔ مگر میں ۔۔۔ کہ جس تک صبح و شام اللہ کے بندوں کی صدا آتی ہے پانچ وقت ۔۔ کہ آ جائو وہ لوگ فلاح کی طرف کہ جو ابھی تک گمراہی کے راستوں میں گمنام پھر رہے ہیں ۔ ۔۔۔ میرا کیا بنے گا؟ مجھے علم ہے کہ مکافاتِ علم دور نہیں ہے۔۔۔ وہ دن دور نہیں ہے۔وہ ساعتیں پلک جھپکتے ہی آنے والی ہیں کہ جب ماں ، بیٹی، باپ ، بیٹے، بیوی ، بچے ، بھائی، بہن ۔۔۔۔ان تمام رشتوں کے بندھن اپنی شناخت کھو دیں گے۔ہر ذی روح اپنی روح کی تسکین واسطے سرگرداں ہو گا۔قیامت سب رنگینیوں ، آرزوئوں اور جستجو ئوں کو تار تار کر کے رکھ دے گی۔ تب فقط وہ ہو گا کہ جو ہم ’’اپنی دنیا‘‘ میں کر کے آئے ہوں گے۔۔ وہ سب کچھ ہو گا کہ جو ہمارا رب اب ہمیں مختلف طریقوں سے بتاتا رہتا ہے۔۔ ہر لمحہ ہمیں خبردار کرتا رہتا ہے۔۔۔ کبھی کتاب، کبھی افراد تو کبھی حادثات و واقعات کی وساطت سے۔۔میں سب کچھ جانتا ہوں ۔۔ انبیاء ، اولیاء، صوفیاء، اوتار، اوتاد، قلندر، پیر ، مرشد اور علماء کی تعلیمات سے لے کر افلاطون ، ارسطو، شیکسپیر، فرائڈ اور سقراط کے جہاں دیدہ فلسفوں تک کی تمام تواریخ و علوم سے واقف ہوں ۔۔مجھ سا عالم، فلسفی اور دلائل و برہان سے باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں دنیا کی سب سے زبردست اور بہت ہی اعلیٰ توپ ہوں ۔۔ میرا ثانی کوئی نہیں ہے۔۔ دنیا اور یہاں رونما ہونے والے واقعات سے بھی مجھ سے زیادہ واقفیت کوئی نہیں رکھتا ۔۔ ۔۔۔ مگر نا جانے کیوں !!!!میرا وجود نفس کے آہنی دائروں کی زد میں ہے۔۔ میں خواہشوں اور بے معنی حسرتوں کے ٹنوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں ۔۔ جن سے نکلے بغیر میری ذات کا ذرہ ذرہ جہنم کی تپتی آگ سے جلنے کے لیے بے تاب تمنا کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔

اے کاش کہ کوئی ایسا واقعہ رو نما ہوجائے ۔۔ کوئی ایسا حادثہ پیش آ جائے۔۔۔ مجھے کرامات و اسرار سے بھر پور کوئی عبرت انگیز دلیل مل جائے کہ جو میرے سینے میں کالک بھرے ٹکڑے کو۔۔۔ جسے دنیا  ’’دل‘‘  کہتی ہے۔۔۔۔ ایسے دھو کر چمکا دے کہ جیسے سورج کی سنہری کرنوں میں شفافیت کی کیفیات نظر آتی ہیں ۔ میں آئینے کی طرح خود کو بنا لوں کہ جس میں کسی دھوکے یا سراب کا شائبہ تک موجود نہ ہو۔ اے کاش کہ ایسا ممکن ہو جائے کہ کوئی مجھے دیکھے تو اسے میرے باطن کا علم بالکل اس طرح ہو جائے جیسے میرا ظاہر ہے۔ میں ایسا بالکل بھی نا بنوں کہ میرے اندر کئی آدمی مختلف روپ دھارے چھپے بیٹھے ہوں کہ جنہیں باہر نکال کر میرے اندر کا اصلی انسان دیکھنے کے لیے کسی کو جدوجہد کرنی پڑے۔ منافقت کی گندگی کے ڈھیر ایسے صاف ہو جائیں جیسے بارش کے بعد فضا آسودہ ہو جاتی ہے۔اے کاش کہ میں اپنے اصل کی جانب لوٹ جائوں ۔۔ اپنی حقیقی منز ل کو پہچان کر فقط اس کے لیے سعی کروں ۔۔ اپنے رب کو خوش کرنے والے اعمال کروں ۔۔ ایسے اعمال کہ جو میرے منصبِ انسانی کے شایانِ شان ہیں جن کے لیے میں جنت سے اس زمین پر بھیجا گیا ہوں ۔ کیوں کہ میرا اصلی گھر تو ازل سے ہی جنت تھا۔ ۔ یہ نہ ہو۔۔ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کی رونقوں میں کھو کر میں اپنا وہ گھر کھو دوں کہ جو ازل سے ابد تک میرے نام لکھا گیا تھا۔

نظر کچھ اس طرف بھی اے خدایا

یہ انساں حد سے زیادہ گر رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔