خدارا! بخش  دو اب تو

 مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

دل خون کے آنسو روتاہے اس پیارے دیس کوخداجانے کس کی نظر لگ گئی اس دیس میں کسی چیز کی کمی نہیں آپ کو ہر چیز وافر مقدار میں یہاں موجود ہے۔ ۔ خواہ وہ سبزیاں، ترکاریاں، اورچاروں موسم ہوں یافحاشی بدمعاشی، رشوت چوری ڈاکہ زنی، بدنیتی یا عریانی ہوہر چیز خالص ہی ملے گی افسوس ہوتاہے جب اس دیس کی بنیادوں کی طرف دیکھاجاتاہے کہ ہماراے آبائواجدادنے ہمارے اسلاف نے کتنی قُربانیاں دے کے اس ملک کوکلمہ طیبہ کی بنیاد پہ حاصل کیاتھالیکن آج ان کی روحیں یقیناًتڑپ رہی ہوں گی اورزباں حال سے یہ کہ رہی ہوں گیں کہاں گئی ہماری قُربانیاں ؟کہاں گئی ہماری جدوجہد؟آج ہمیں کوئی اقتدار کابھوکا نظرآرہاہے توکوئی سرکار کابھوکا۔

باریاں چل رہی ہیں امیراپنی موج مستی میں مگن ہے اوربیچارہ غریب غربت کی چکی میں پس رہاہے وہی لوگ اس دیس میں خوشحال زندگی گُزار رہے ہیں جنہوں نے اقتدارکے مزے لوٹے ہرانتخاب میں منتخب بھی وہی ہوئے مگرکیاکیاجائے ان کاجال ہی ایساکے غریب عوام ہربار پھنس جاتی ہے وہی اقتدار کی منزل تک پہنچتاہے جس سے عوام تنگ ہوتی ہے امیر کے محل کی روشنی ہمیشہ غریب کی آنکھوں میں پڑتی ہے مگر غریب کی جھونپڑی کااندھیراامیر کونظر تک نہیں آتا۔ آندھی وطوفاں غریب کی جھونپڑی کوہی اکھاڑکے لے جاتے ہیں مگر امیرکے بال بھی طوفانی ہواسے نہیں ہلتے پھر کیوں نہ اس نظام سے تنگ عوام کی پیاری آواز شاعرِعوام حبیب جالب کے اشعار میں سنائی جائے

کہاں   ٹوٹی ہیں  زنجیریں    ہماری

کہاں    بدلی ہیں    تقدیریں   ہماری

ملی ہے     کب    غلامی سے   رہائی

مسلط   ہے     و ہی    مرضی    پرائی

وطن   آدھا  وڈیرے   کھاگئے ہیں

مری  صبحیں اندھیرے کھاگئے ہیں

بہاروں   نے   دئے   داغ   ہم کو

نظر   آتاہے   مقتل باغ     ہم کو

گھروں  کو  چھوڑ کر جب ہم چلے تھے

ہمارے   دل میں کیاکیا   ولولے تھے

یہ سوچاتھا   ہمارا     راج       ہوگا

سر   محنت   کشوں   پہ تاج   ہوگا

نہ لو ٹے   گا   کوئی محنت   کسی کی

ملے   گی  سب کودولت  زندگی کی

لُٹی   ہر  گام پر   امید     اپنی

محرّم   بن   گئی   ہر  عید  اپنی

وہی   ظالم  گھرانے حکمراں ہیں

وہی تاریک صدیوں کے نشاں ہیں

خوشی ہے چند  لوگوں  کی   وراثت

کہاجاتاہے   غم  ہے   اپنی قسمت

ہوئے ہیں  جھو نپڑے ہی نظر طوفاں

مگرقائم ہیں  ا ب  تک قصروایواں

خدایا!کوئی  آندھی  اس  طرف بھی

الٹ دے ان ستم گروں کی صف بھی

زمانے  کو  جلال  اپنا  دکھادے

جلادے تخت وتاج ان کے جلادے

یہ  دولت  کی  ہوس  جاگیرداری

ہیں  دونوں  لعنتیں  دشمن ہماری

یہ دونوں لعنتیں  جب تک  رہیں گی

جہاں میں ندیاں خوں کی بہیں گی

 اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی عیاشیوں کی وجہ سے ہی یہ قوم آج یہ دن دیکھ رہی ہے۔ قوم کے گھر وں میں چولہانہیں جلتاآج باپ اپنے بچوں کوبیچنے پہ مجبورہے، کہیں باپ بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے اپنے گُردے کوبیچتانظر آتاہے توکہیں ریٹائرڈملازم پینشن نہ ملنے پہ خودکشی کرتادکھائی دیتاہے آخر یہ سزااس قوم کوکیوں دی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کرسی پہ بیٹھنے والوں کی اورکرسی کوحاصل کرنے والوں کی سمجھنے کی صلاحیت، دیکھنے کی صلاحیت اورسننے کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے۔

کیاان کے سامنے امیرالمئومنین حضرت عمرفاروق ؓ کادورحکومت نہیں کہ جنہوں نے اپنے دورحکومت میں کبھی بھی چین وسکون سے نیند نہیں کی کوئی اپناذاتی محل تعمیر نہیں کیا۔

کیاان کے سامنے حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کادورِحکومت نہیں کہ وہ کس قدرمالدارتھے لیکن جب اقتدارکوسنبھالاتواپنی ساری دولت رعایاپہ خرچ کی کوئی بھی بچاکر نہیں رکھا۔ آج تورعایاکولوٹاجارہاہے ان پہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کے ارمانوں کوخاک میں ملایاجارہاہے، عوام کے سرمائے سے لشکربناکرعوام کوہی ظلم کانشانہ بنایاجارہاہے اس کے مقابل غریب عوام اپنے لب سی کرزندگی کے باقی ماندہ دن پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب اس دیس میں امن کی ہواان شاء اللہ چلے گی اورغریب عوام سُکھ کاسانس لیں گے۔

اقتدار، کرسی، وزارت، یہ ایک عارضی چیز ہے یہ ختم ہونے والی ہے عقلمندحکمراں اپنی آخرت کی فکرکرتے ہیں نہ کہ دنیاکے مال واسباب کی آئیے ایک محل کی سیرکر لیتے ہیں

ایک بادشاہ یعنی حاکمِ وقت نے ایک نہایت ہی خوبصورت عالیشاں محل تعمیر کیااوراس پہ بہت زیادہ رقم خرچ کی۔ اندر کے ستونوں پہ سونالگایااس پر نہایت عالیشان بُرجیاں بنائی گئیں اوراندر نہایت ہی قیمتی اوراعلیٰ قالین بچھائے اورسونے کی پتی سے بہت پیارافرنیچر بھی بنوایا۔ جب یہ محل تیار ہوگیاتوحاکم وقت نے دور دور سے مہمانوں کودعوت دی کہ محمل میں ان کی خاطر تواضع کرے جب تمام لوگ آئے محل کامعائنہ کیاتوسب لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دعوت کے بعد اس نے مہمانوں سے پوچھاکہ کیاانہوں نے ایساخوبصورت عالیشان محل اس سے پہلے دیکھاہے ؟کیااس کی تعمیر وخوش نمائی میں کمی رِہ گئی ہے؟

تمام مہمانوں نے یک زباں کہاکہ انہوں نے زندگی میں ایساعالیشاں محل نہیں دیکھااورقیامت تک کوئی ایسامحل نہ دیکھ سکے گا۔ لیکن ایک درویش صفت شخص بول اُٹھاکہ عالیجاہ میں اس محل میں ایک دراڑ دیکھتاہوں جس نے اس کوعیب دار کردیاہے۔ اگر یہ عیب نہ ہوتاتوشایدجنت سے فرشتے آپ کے لیے تحائف لاتے۔

بادشاہ نے غصہ سے کہاکہ مجھے کوئی عیب نظر نہیں آتاتم ایک جاہل انسان ہواورایسی بات کہہ کرخود کواہم بناناچاہتے ہو۔ درویش نے کہانہیں عالیجاہ!میں جس دراڑ کی بات کر رہاہوں یہ وہ دراڑ ہے جس کے ذریعہ ملک الموت حضرت عزرائیل ؑ داخل ہونگے توآپ ان کوروک نہ سکیں گے اور یہ تمام محل اس کی شان وشوکت، قیمتی سامان کچھ کام نہ آئے گاجب موت آئے گی تو آپ ایک مٹھی بھر خاک میں تبدیل ہوجائیں گے اور یہ وہ بات ہے جو آپ کے محل کوعیب دار بنارہی ہے، کوئی چیز بھی اس چیز کومستحکم نہیں بناسکتی جوغیرمستحکم ہو۔ اپنی خوشیاں اور امیدیں اس محل سے وابستہ نہ کریں اپنے تکبرانہ رویہ کے بھنور میں نہ گھومیں۔

عوام کابھلاسوچنے والاحاکم ہی رب کے دربار میں سرخروہوگا۔آج اس دیس کی عوام بہت کچھ سہہ چکی ہے اب سوچ سمجھ سے کام لے اوران لوگوں کے ہاتھ میں اپناہاتھ جوسب سے پہلے اسلام اوردوسر نمبرپہ پاکستان سے مخلص ہوں اوراقتدارکے مزے جنہوں نے لوٹے اورلوٹتے آرہے ہیں ان سے یہی التجاہے

خدارا!  بخش   دو  اب  تو۔ خدارا!   بخش  دواب  تو

تمہاری    مہربانی    سے  بہت کچھ سہہ  لیاہم نے

کہیں روٹی کے لالے ہیں، کہیں بُجھتے اُجالے ہیں

کہیں آنکھوں میں اشک خوں کہیں تن من پہ چھالے ہیں

جہاں   چاہت کی   تھی خوشبو،  وہاں بارود کی بوہے

جہاں بستی تھیں   بس خوشیاں  ، وہاں ماتم کی آوازیں

سہانے خواب   تھے  جس جا، وہاں اب وحشتیں ناچیں

نئی     ہرروز    ہی    ہم پرہزاروں   آفتیں ناچیں

تمہارے    عہد    شاہی   میں ہزاروں پھول ایسے ہیں

کہ مجبوری   جنہیں بس   ا ک نوالے ہی    میں بہہ جائے

بہت معصوم کلیاں تھیں جنہیں حالات کے دھارے سرِبازارلے آئے

جو    معمارِ     وطن تھے   کل انہیں   خودکش     بناڈالا

سنبھل   سکتے تھے   جوشاید    انہیں   پل   میں گِراڈالا

تھے بوڑھے ناتواں کاندھے جنہیں کچھ اوربھی تم نے ہلاڈالاجھکاڈالا

اوراسپر تمہیں دعویٰ، مسیحاہو!سہارے ہو!کہ محسن تم ہمارے ہو!

خدارا!بخش دواب تو۔ خدارا!بخش دواب تو

تبصرے بند ہیں۔