خدیجہ بیگم آپ کی منتظر

مظفر حسین بیگ

 واقعہ کربلا کے پیچھے اسلامی تاریخ میں ایسی حثییت کار فرما ہے جس کو نہ فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی  مسلکی بنیاد پر اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے امت مسلمہ بلعموم اورشعیہ برادری بلخصوص ان ایام میں مختلف مجلسوں، محفلوں اور تقاریب کا انعقاد کرکے حسینی کردار اور یزیدی مظالم کو اجاگر کرکے اس کو زندہ وجاوید رکھنے کے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہے تاکہ آنے والی نسل کو ایک تو امام حسین کی اسلام تعیی سربلندی کے لئے جدوجہد سے واقفیت دلائی جائے تو دوسری طرف حسینی کردار اپنے آپ میں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ کربلا میں جہاں معصوموں کو پانی کے بدلے تیر، عورتوں کی پرد ہ ریزی اور خانوادہ رسول کا قتل عام کیاجاتاتھا تو دوسری طرف نماز کے عین وقت اس کی صف بندی کی جاتی تھی تو ایسے کردار کی کو بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔

محرم الحرام اور رمضان المبارک میں جہا ں مسلمانوں کی بستیوں میں اسلامی خدوخال کے اثار نمایا طور پر عیاں ہوتے ہیں وہی دوسری طرف یتیموں، غریبوں اور محتاجوں کی دادرسی کا جذبہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے مگر حسینی کردار وقتی جذبات کا قائل نہیں بلکہ اپنے اندر ایک مستقل جذبے اور ایثار کا خواں ہے تبھی ہم حسین کے غم خار کے صفوں میں شامل ہوسکتے ہیں میری ان چند سطور سے حسین کی شہادت کواجاگر نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی میرا موضوع امام حسین کی شہادت ہے بلکہ وادی کے مسلمانوں کو بلعموم اور شعیہ برادری کے ان زندہ ضمیر لوگوں تک اس ماں کی دردبری آواز پہنچانا ہے جو آج بھی کالالباس زیب تن ہوکے چند دنوں کے بجائے سال بھر مرثیہ کرتی رہتی ہے کیوں جس طرح یزید نے حسین کے خاندان کو صفہ ہستی سے مٹانے عزم کیاتھا اسی طرح ستمبر ۲۰۱۴کے سیلاب نے یزیدی کردار اپناکے اس کے ابھرتے گھر کو مردوں سے خالی کرکے سال بھر مرثیہ خواں ہونے پر مجبور کیا۔

۲۰۱۴ کے قہر افشاں سیلاب نے غموں کی درد بھر ی داستانوں سے تاریخ کشمیر میں ایک اور با ب کا اضافہ   کیا ہے اور اس میں اگر قمرو بیروہ کے اس خاندان کو شامل نہ کیا جائے جس کے تین مرد اس کے نذر ہوگئے تو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے برابر تصور کیاجائے گا۔ جی ہاں۔ اس سیلاب نے جہاں وادی کے بیشتر علاقوں میں ہولناک تبائی مچائی تھی تو وہیں خدیجہ بیگم کے ارمانوں کے گھر کو مردوں سے خالی کردیا۔

 ۵ستمبر ۴ ۰۱ ۲کو جب یہ خبر چاروں طرف سے گردش کرنے لگی کہ بیرو ہ علاقے میں باپ اور اس کے دو بیٹے سیلاب کے تیز رفتار ریلوں کے شکار ہوئے۔ تو راقم کے دل میں اس واردات کو قلم بند کرنے کی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ اورگزشتہ سال کے ۱۱  اکتوبرکو  ایک دوست سعید مشتاق کے ہمراہ ہم نے خدیجہ کے گھر پر دستک دی۔ جو ں ہی گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو ایک سرسبز پارک اور ایک عالی شان مکان دیکھ کر دل یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ ہماری مطلوبہ کردار؛ خدیجہ  ا سی گھر کی مالکہ ہے وہ اپنی بہو محمودہ ا ور اسکے دو بچوں کے ساتھ ایک ٹین کے شیڈ میں بیٹھی تھی ابھی ہم نے سیلاب کا نام ہی لیا تھا کہ خدیجہ کی عمر رسیدہ آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ اسی اثنا میں محمودہ نے اپنی ساس کے آنسو پونچھے اوردو سالہ عرصہ کی روداد سے ہم کو واقف کیا کہ کن کن مشکلات اور مصائب سے ان کو گذرنا پڑا۔

۵ستمبر۲۰۱۴ کی صبح نالہ سوکھہ ناگ میں پانی کا بہاو اس قدر کم تھا کہ انسان آسانی سے اس کو پار کرسکتا تھا۔ خدیجہ کے شوہر غلام حسن نے نالہ کی طرف پیش قدمی کی تاکہ اس کے ساتھ ہی اپنی کھیت کی حالت دیکھ کرآئے۔ نالہ میں اس وقت ایک ٹیکٹر والا لوڈکر رہا تھا جب انہوں  نے پانی کی زور دار آواز سنی تو غلام حسن کو بھی وہاں سے نکل جانے کے لئے کہا گیا۔مگر اس نے انکا رکیا۔ اس کو معلوم نہ تھا یہاں ایک ایک سیکنڈ اس کا ٹھہرنا موت کے آغوش میں اپنے آپ کو خود سپردگی کے مترادف ہوگی۔ مگر وہ اس گمان میں تھا جس نے محکمہ اریگیشن میں ایک سرکاری ملازم ہونے کی حثییت سے ان نالوں کی حفاظت کی تھی بھلاا سی خادم کے لئے آج یہ کیسے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی اثنا میں سیلاب نے چاروں طرف سے اس سے گھیر لیا۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی پھیل گئی۔اور لوگوں نے نالہ سوکھہ ناگ کی طرف پیش قدمی کی۔ اس دوران اس کے دونوں بیٹے ریاض اور شفاعت وہا ں نمودار ہوئے او رایک لمبی رسی باپ کی طرف پھینکی غلام حسن نے رسی پکڑ کر اپنی پیٹ کے ساتھ باندھ لی۔ اس کامیابی پر دونوں بیٹوں کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا۔مگر اچانک ایک درخت رسی پر گر گیا۔ اور ان کے ہاتھوں سے رسی نکل گئی۔ اور    تیزریلوں نے ایک سکنڈ بھی اس کو اپنے ساتھ لینے میں دیر نہ کی۔ باپ کی اس کشمکش میں ر یاض اور شفاعت اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور انھوں نے سیلاب میں خود چھلانگ لگاکر باپ کو بچانے کی جدوجہد کی۔ مگر اس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا کہ دونوں بھائیوں کو بھی سیلابی ریلوں نے پاپ کے پیچھے پیچھے   بہانے میں کوئی عار محسوس نہ کی۔

خدیجہ کے لئے سب سے بڑی آزمائش اب یہ آن پڑی ہے کہ ریاض کے دونوں بچے بار بار اس کو تنگ کرتے ہیں کہ ہمارا ابو کہا ں ہے میرے پاس ایک ہی جواب ہے کہ وہ کربلا گیا ہے اور دوسری طرف  ریاض کی بیوی محمودہ کو اپنے شوہر کی جدائی کاغم اندر سے ہی کھارہا ہے لیکن اس کو سیلاب سے ایک ہی شکایت ہے کہ اس نے تینوں میں سے ایک کو کم سے کم کیوں نہیں چھوڑا جو کسی حد تک ہمارا نگہبان ہوتا۔ریاض محکمہ پولیس میں کانس ٹیبل اور شفاعت رہبرتعلیم استاد کے طور پر کام کرتا تھا۔شفاعت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ایک اسلام پسند نوجوان تھا اور اس نے کئی مرثیاں لکھ ڈالی جو وہ اکثر امام باڑہ میں پڑھا کرتا تھا اور گھر والے اس کے رشتے کی تلاش میں تھے

 خدیجہ سے جب ہم نے پوچھا کہ دو سال گذرنے کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ کیا ہیں۔ تو اس کی آنکھیں پھر سے نم ہوگیں۔ ابتدا میں سب لوگوں کے جذبات دیکھکر ہمیں احساس ہونے لگا تھاکہ یہ لوگ عمر بھر ہمارے غمخوار ثابت ہونگے۔ مگر نہ جانے کیوں ان کے جذبات بھی سیلاب کی نذر ہوگئے۔ آئے اور چلے گئے۔ اس کو سب سے زیاد ہ شکایت ان مذہبی پیشواں سے ہیں جو اس کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے جذبات کو ابھارنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ یہ سیلاب سے متا ثر صرف ایک خاندان کی درد بھری داستان ہے اس کے علاوہ نہ جانے کتنے ہمارے محبت کے منتظر ہونگے وہ بھی اس خطے میں جہاں آناًفاناً ان جیسے کرداروں ایک کھیپ تیار ہوتی ہیں جذباتوں سے کس کو انکار ہوسکتاہے مگر جب جذبات وقتی اور صرف دکھاوئے کے لئے ہوں تو اس سے جذباتی استحصال ہی کہا جاتا ہے جس کی ایک شکار خدیجہ بیگم بھی ہوئی ہے جو ایک کونے میں اپنے بہو اور اس کے دو بچوں کے ساتھ ان لوگوں کی منتظر ہے جنہوں نے اس کے شوہر اور اس کے دو بیٹوں کے جنازے پر ان سے وعدہ کیا تھا کہ ہم جی عمر بھر آپ کے ساتھ ہیں، مگر ان میں سے غالباً کوئی ایک بھی وعدہ نبھا نہ سکا۔ اللہ تعلیٰ ہمیں طوفانوں اور سیلابوں سے محفوظ رکھے تاکہ کوئی اور خدیجہ محتاج نہ بنے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔