مسجد کی انتظامی کمیٹی اور ہماری ذمہ داریاں

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

مسجد سے مسلمان کی عقیدت، محبت اور وابستگی اٹوٹ ہوتی ہے جیسے ہی وہ لفظ مسجد سنتا ہے اس کے قلب و ذہن پر تقدیس، تعظیم اور احترام کے حسین جذبات مرتسم ہونے لگتے ہیں جو ایمان کی کسوٹی، جذبۂ تقویٰ و خدا ترسی اور طہارتِ ظاہری و باطنی کی بین دلیل ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’حقیقت یہ ہے اور جو ادب و احترام کرتا ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کا تو یہ (احترام) اس وجہ سے ہے کہ دلوں میں تقویٰ ہے‘‘۔ (سورۃ الحج آیت نمبر 32) جب شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کا باعث قرار پاتا ہے تو اس جگہ (جس کو اللہ تعالی کا گھر ہونے کی نسبتِ اضافی حاصل ہے) کا احترام بدرجہ اولیٰ دل کے تقویٰ کا سبب ہے۔

سرور کائناتﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دل ہمیشہ مسجد میں لگا ہوا رہتا ہے اور وہ کبھی مسجد کو نہیں چھوڑتے، قدسی صفات ملائکہ ان کے ہم نشین بن جاتے ہیں اگر وہ (کسی کام کے لیے) مسجد سے نکلتے ہیں تو فرشتے ان کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں، اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اگر وہ کسی کام میں مشغول ہوجائیں تو فرشتے ان کی مدد و نصرت کرتے ہیں۔ (مسند احمد)

 اندازہ کیجیے کہ مسجد کا احترام بے شمار فضائل کو متضمن ہے تو مسجد کی خدمت بجالانا کس قدر باعث اجر و ثواب ہوگا لیکن حالیہ کچھ عرصہ میں مسجد کی انتظامی کمیٹیوں میں ہونے والی تاناشاہیوں، بدعنوانیوں، بے قاعدگیوں اور خادمین مسجد بشمول امام و مؤذن صاحبان کے ساتھ ذلت و تحقیر آمیز سلوک میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں کہ ضبط تحریر میں لانا بھی حد درجہ دشوار کن مرحلہ ہے۔ کہیں صدر کمیٹی کی من مانی ہے، کہیں اراکین کمیٹی، مسجد سے منسلک جائداد کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کہیں کمیٹی والے مالی معاملات میں خرد برد اور غبن کے مرتکب پائے جارہے ہیں، کہیں کمیٹی والے غیر سماجی عناصر کو معمول ادا کررہے ہیں، کہیں خادمین مسجد کے ساتھ زرخرید غلام جیسا معاملہ کیا جارہا ہے جبکہ رحمت عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسجد کی صاف صفائی کرنا  (یعنی خدمت کرنا) حوروں کا مہر ہے(طبرانی) اور ایک حدیث پاک میں آیا ہے جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق رہتا ہے قیامت کے دن اسے جنت کا سایہ نصیب ہوگا جب کوئی سایہ نہ ہوگا (بخاری شریف)۔

 مسجد کی انتظامی کمیٹیوں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں پر مسلمان کا مضطرب و بے چین ہوجانا ایک فطری امر ہے چونکہ مسجد نہ صرف جائے نماز ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہمہ مقصدی مرکز بھی ہے جہاں سے انسان ظلمانی حجابات کو چاک کرنے کا ہنر، حریمِ قرب میں جبہ سائی کا شرف حاصل کرنے کا ادب اور زندگی کے ہر میدان میں تنزل و انحطاط کے بھنور سے نکل کر مراتب عالیہ اور مقامات رفیعہ پر پہنچنے کا سلیقہ سیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلم حکمران نے اپنے دورِ اقتدار میں مساجد کی تعمیر پر خاصی توجہ دی جو آج بھی اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تصور کی جاتی ہیں۔ مساجد کی انتظامی کمیٹیوں میں پائی جانے والی خرابیوں کے کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے اور مصلحت پسندی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہرکس و ناکس کو مسجد کی انتظامی امور کے لیے منتخب کر رہے ہیں۔ عموماً جس طرح معاشی بدحالی یا بچہ کی ذہنی صلاحیت کمزور ہوتو والدین اسے کسی دینی مدرسہ میں داخلہ دلواتے ہیں مساجد کی انتظامی کمیٹی کی تشکیل میں بھی ہمارا طرز من و عن یہی ہے۔

ہم لوگ عموماً ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے یا پھر سن یاس کو پہنچ جانے والے حضرات کو مسجد کی انتظامی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے منتخب کرتے ہیں جبکہ مسجد کے امور کی انجام دہی کے لیے زیرک، معاملہ فہم اور وسیع القلب اشخاص کی از حد ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف دواندیش اور منفعت بخش فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ وہ سائنٹفک مینجمنٹ، ڈجیٹل مینجمنٹ، ڈساسٹر مینجمنٹ، فینانشیل مینجمنٹ اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی خوبیوں سے بھرپور واقفیت رکھتے ہوں تاکہ مساجد کی محدود آمدنی کو کثیر المنافع مواقع پر صرف کرسکیں اور قلیل عرصہ میں مسجد کی انتظامی کمیٹی کو مالی اعتبار سے خودمکتفی بناسکیں اورماتحتین کی صلاحیتوں کی حتی الوسع نشو و نما کرنے کا ہنر بھی جانتے ہوں اور وہ ملت کو درپیش حساس مسائل پر سیر حاصل بحث و تمحیص، دلائل و بیانات میں غور و تدبر اور آپسی صلاح و مشورہ کے بعد ایسے اقدامات کرسکیں جوامت مرحومہ کے حق میں دونوں جہانوں کی سعادتمندیوں اور ابدی فلاح کا ضامن ہوں چونکہ روئے زمین پراللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب اس خطۂ ارضی سے انسانیت کے دینی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی، روحانی، سیاسی، اصلاحی وغیرہ جیسے ان گنت مصالح و منافع وابستہ ہیں۔ پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی مد ظلہ العالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں ’’مسجد کی انتظامی کمیٹی کی تشکیل میں کوتاہی و تساہلی سے کام لینا ’لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا ‘ کے مترداف ہے‘‘۔ ادارہ کے مقاصد و اہداف کے مطابق انتظامی اُمور کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے چنانچہ کوئی خانگی اسکول یا تجارت کے لیے ایک عام ذہن کافی ہوتا ہے لیکن یونیورسٹی یا ملٹی نیشنل کمپنی کو چلانے کے لیے مختلف ڈیپارٹمنٹس اور شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل ناگزیر ہوجاتی ہے۔ خانگی اسکول یا تجارت کو چلانے کے لیے جو سالانہ مصارف عائد ہوتے ہیں یونیورسٹی یا ملٹی نیشنل کمپنی کو فعال بنانے کے لیے تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں پر اس سے کہیں زیادہ مصارف عائد ہوتے ہیں چونکہ ان کے اغراض و مقاصد کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے، ذرا سی کوتاہی و نادانی عظیم نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

 اس تناظر میں اگر ہم کسی ادنیٰ عقل و فہم رکھنے والے انسان سے بھی سوال کریں کہ مسجد کی انتظامی کمیٹی کیسی ہونی چاہئے وہ یہی جواب دیگا کہ وہ انتہائی ماہر، حساس اور فعال اشخاص پر مشتمل ہونی چاہئے چونکہ اس میں ذرا سی کوتاہی ساری انسانیت کے لیے ضرر رساں ثابت ہوسکتی ہے۔ آج کے معاشرے میں جو تیزی سے بگاڑ آرہا ہے یہ اس کی بین دلیل ہے۔ منبر رسولﷺ سے کبھی تقوی و طہارت، علم و حکمت، فہم و فراست، وقار و متانت، خلوص و للہیت کے حامل علماء کرام خطاب فرمایا کرتے تھے جو نہ صرف عوام الناس بلکہ حکومت ِ وقت کی غلطیوں پر اسے بے خوف و خطر آگاہ اور متنبہ کرنے کا ملکہ رکھتے تھے تو دوسری طرف معاشرے میں پنپنے والی خرابیوں کا بروقت قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پیش کرنے کی کوشش کرتے اور ان کا تدارک کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے تاکہ آج کی خرابی کل معاشرے کے لیے ناسور نہ بن جائے۔

 آج اسی مبارک و مسعود مقام سے اکثر ایسے کم علم لوگ خطاب کرنے لگیں ہیں جو پڑوسی ریاستوں سے حصول روزگار کے لیے آئے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی معاشی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے انتظامی کمیٹی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور یاد کی ہوئی تقاریر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ فریضہ ادا ہوگیا۔ مستند اور باوقار علماء کے تقرر کرنے میں مسجد کی انتظامی کمیٹی اس لیے پس و پیش میں رہتی ہے کہ کہیں وہ ان کی من مانی پر گرفت کا سبب نہ بن جائے اور خوبصورت بہانہ یہ بنادیا جاتا ہے کہ مسجد کی انتظامی کمیٹی کا مالیہ اتنا مستحکم نہیں ہے کہ وہ مستند عالم دین کا تقرر کرسکے۔ ہر محلہ کے متمول حضرات اس خصوص میں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مستند عالم دین کا تقرر ہوگا تو مصلیوں کو علمی و اصلاحی تقاریر سننے، مسائل کو بروقت جاننے اور اس کے مطابق اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا موقع مل جائیگا جس کا اجر و ثواب حد شمار سے بھی ماوراء ہے۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی کی تشکیل میں ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ایسے اوصاف کے حامل شخصیات کا انتخاب کریں جس کا ذکرہمیں اس ذات بابرکت کے کلام مقدس میں ملتا ہے جس کی فرمانروائی و حکمرانی فرازِ عرش سے تحت الثری تک ابدی طور پر جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ ’’ صرف وہی آباد کرسکتا ہے اللہ کی مسجدوں کو جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور روزِ قیامت پر اور قایم کیا نماز کو اور ادا کیا زکوٰۃ کو اور نہ ڈرتا ہو اللہ کے سوا کسی سے پس اُمید ہے کہ یہ لوگ ہوجائیں ہدایت پانے والوں سے‘‘۔ (سورۃ التوبۃ آیت نمبر 18)کثیر المفاہیم والی اس آیت مبارکہ میں مفسرین کرام نے انتظامی کمیٹی کو بھی شامل فرمایا ہے (تفسیر بیضاوی)

گویا اس آیت شریفہ میں بیان کیا گیا کہ اراکین کمیٹی کا اللہ تعالی اور روز قیامت پر کامل ایقان، نماز کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی اور کردار کا غازی جیسے اوصاف رفیعہ اور خصائل مرضیہ سے متصف ہونا ضروری ہے۔ چونکہ جو شخص ایمان کی دولت سے محروم ہوتا ہے وہ خدائی احکامات کو فراموش کرنے والا ہوتا ہے اور جو شخص اپنے ذاتی نفع و نقصان کا صحیح اندازہ کرنے سے بھی قاصر ہو بھلا ایسا شخص مسجد کی انتظامی کمیٹی میں کیا تعمیری رول ادا کرسکے گا۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم محلہ کے ان نوجوانوں کو مسجد کی انتظامی کمیٹی میں شامل کریں جو دینی جامعات یا عصری یونیورسٹیوں سے فارغ ہوں تاکہ وہ مسجد کے مدرسہ میں بیک وقت (School Dropout Children)  جو کسی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہوگیے ہیں کے لیے دینی و عصری تعلیم کا انتظام ہوسکے اور یہ تعلیم یافتہ نوجوان ان غریب و نادار بچوں کو اپنے مضامین کے مبادیات پڑھاسکیں چونکہ آج کل Open University کا دور ہے اس تناظر میں قوی امید کی جاسکتی ہے کہ یہی بچے جو آج تعلیم سے محروم ہیں کل ہوسکتا ہے مبادیات کا علم ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیم کا ذوق ان کے دلوں میں پیدا ہوجائے اور وہ اس کی تکمیل فاصلاتی تعلیم سے کرسکیں۔ ہوسکتا ہے یہی بچے مستقبل میں ملت کا بہترین اثاثہ ثابت ہوں۔ تو دوسری طرف ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پڑھانے سے مضمون میں مزید مہارت حاصل ہوجائیگی اور مسجد سے وابستگی انسان کے کردار پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔