خلافت سے ملوکیت اور جمہوریت

سید افتخار احمد

عالمی تاریخ کے دور جدید کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم اور اسرائیل کی صیہونی یہودی ریاست کا قیام دونوں ایک ساتھ رونما ہونے والے واقعات ہیں ۔ اسرائیل کے قیام کی تحریک میں فلسطین سے عربوں کو نکال باہر کرنا صیہونیت کا واحد مقصد تھا۔

اسرائیل کے قیام کی تحریک ابتداً اور صرف دہشت گرد تنظیموں آرگن اور اسٹن گینگ نے کی تھی جس کو اسرائیل کی عسکری تنظیم ہیگانہ کی مکمل تائید حاصل تھی۔ ان دو تنیظموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے ایک چھوٹے سے دیہات دَئیر یاسیپن کو نشانہ بنایا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ یہ دیہات یورو شلم سے متصل تھا دوسرے یہ کہ اگر اس دیہات پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر باقی تمام عربوں کو خوفزدہ کرکے انہیں آئندہ کی مملکت اسرائیل سے ہمیشہ کے لئے بھگایا جاسکے گا۔

اسرائیل کی ان دو دشہت گرد تنظیموں نے جس معرکہ کی ابتداءکی تھی وہ قیام اسرائیل کے ذریعہ اپنے انجام تک پہنچی۔ عربوں کو نہ صرف فلسطین سے نکال باہر کردیا گیا بلکہ خودعربوں کو ان کی اپنی سرزمین عراق اور شام کوچھوڑ کر پناہ لینے کے لئے سارے یورپ میں دربدر بھٹکنا پڑرہا ہے۔ یوروپ اور دیگر ممالک سے جن یہودیوں کو نکالاگیا تھا یاوہ خود بھاگ نکلے تھے۔ وہ مہاجر کہلائے ان مہاجرین نے اسرائیل کو آباد کیا اور عربوں کو برباد کیا۔ اب عرب مہاجر یوروپ میں پھیل گئے ہیں وہ کیا کرتے ہیں یہ دیکھنا ہے۔

 ایک بات تو رہ گئی ’ڈیریاسین مین اسرائیلی دہشت گردوں نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اور جیسا خون خرابہ کیا ان کو اگر جاننا ہو تو گجرات مین گودھراوالے فساد کے دوران جو ہوا تھا اس کو یاد کرلیجئے۔ وہی حاملہ خواتین کے پیٹ چیر کر بچوں کو نکالنا اور آسمان میں اچھالنا۔ آخر اسرائیل کی دوستی سے ہندوستانی دہشت گردوں کو سبق جو لینا تھا تو انہوں نے وہ ساری بربریت گجرات میں دہرائی۔

عمرانیات و سماجیات کے باوا آدم ابن خلدون نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ عربوں کو سیاست نہیں آتی۔ اسرائیل کے قیام کے دوران دنیا بھر کے ممالک کے ہر اس سٹیج پر اس کے قیام کی تحریک چلائی جارہی تھی وہاں سے عرب غائب تھے۔ کہیں انکا نام و نشان نہ تھ اپنی بادشاہتوں میں بیٹھے بیان دیتے رہے کہ ہم کو فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام منظور نہیں ہے۔ جیسے ان سے یہ بات کسی نے پوچھی تھی !

 ان کا سارا دارو مدار امریکہ اور برطانیہ پر تھا۔ برطانیہ نے آل سعود کی حکومت کے قیام میں مدد کی تھی اور آئندہ کئی برس اس بات کا خیال رکھا تھا کہ بنو ہاشم اور دیگر عرب قبائل ایوان اقتدار تک بھٹکنے بھی نہ پائےں ۔

 اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ (Rosewellt)نے ایک طرف ابن سعود کو یہ یقین دلایا تھا کہ عربوں سے مشورہ کئے بغیر وہ کوئی فیصلہ اسرائیل کے قیام کے بار ے میں نہ کریں گے۔ یہ وعدہ ابن سعود نے امریکہ جاکریا اپنے کسی خصوصی سفیر کو بھیج کر نہیں حاصل کیا تھا بلکہ وہ یہ وہ جنگ عظیم دوم کے دوران ایک عربی بیڑے میں چرچل اور اسٹامن سے ملنے گئے تو وہیں قریب میں تھے اس لئے ابن سعود سے بھی ملاقات کی تھی۔ روز ویلٹ نے ایک طرف ابن سعود سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے مشورے پر اسرائیل کے قیام کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ اور اس کے فوراً بعد اسرائیل کے مذہبی پیشوا (Rabbi)کو اختیار دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ امریکہ اسرائیل کے قیام کی حمایت کرے گا۔

  ابن خلدون نے صحیح کہا تھا۔ اس کی دوسری مثال موجودہ سعودی عرب کے بادشاہ کی ہے نہ جانے کیوں سعودی شاہ کے سرمیں  یہ سودا سمایا کہ وہ روس کے حکمرانوں سے ملاقات کریں اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی دھاک بٹھانے کے لئے انہوں نے جو حربہ اپنا یا وہ یہ کہ اپنے ساتھ ڈیڑھ ہزار افراد لے گئے۔ اور جہاز سے اترنے کے لئے سونے کی بنی ہوئی متحرک سیڑھیاں ساتھ لے گئے جو درمیاں میں بند ہوگئیں ان کے سیاسی رسوخ سے تو دنیا واقف تھی اب ان کی دولت کی دھاک بھی ختم ہوگئی۔ انہوں نے دولت کی یہ فحش نمائش(valgar show)ایسے وقت میں کی ہے جب یمن اور شام میں لوگ فاقوں میں مبتلا ہیں اور اسی حالت میں موت سے گلے مل رہے ہیں ۔ بادشاہت جب دولت لٹانے پر آتی ہے تو اس کو خود کا ہوش باقی نہیں رہتا۔

 حیدر آباد کی نظام شاہی کو زوال آیا تو اس کے آخری تاجدار مکرم جاہ نے نظام شاہی حیدر آباد اور خود ہندوستان کو چھوڑ کر آسٹرلیا میں اپنی دولت لٹانی شروع کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان کی تمام ریاستوں راجواڑوں کی مجموعی دولت سے زیادہ میر عثمان ن علی خاں کے عہد کی نظام شاہی حکومت کی دولت تھی۔

 یہ وہی مملکت تھی جس نے ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی جسکو انگریز بغاوت کہتے ہیں کو ناکام کرنے میں سبقت حاصل کی تھی۔ اپنی رعایا سے انکا کوئی عہد نہیں تھا۔ ان کی وفاداری صرف برطانیہ سے تھی یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کی چھہ سو ریاستوں کے والیان سارے کے سارے انگریزوں کے وفادار اور غلام تھے۔

  مملکت کو حاصل ہونے والی آمدنی کے تین حصے کئے جاتے تھے ایک حصہ بادشاہ سلامت کا صرف خاص کہلاتا۔ دوسرے حصے سے مملکت کے اخراجات پورے کئے جاتے اور تیسرا حصہ شرفاءمیں بطور انعام تقسیم کیا جاتا۔ ان شرافت پیشہ لوگوں کے شوق ذوق عیش پرستی مئے نوشی اور دیگر لوازمات کے لئے_ غریب عوام کی ترقی و فلاحی کاموں کے لئے۔ (اللہ مالک)

  یہ ذکر چھوٹ گیا تھا کہ شاہان سعود نے اپنی بے حد ودوسیع دولت سے امریکی معیشت کو خوب مضبوط اور مستحکم کیا تھا اور ہماری اپنی شہنشاہیت نے یہاں کے شرفاءاور بطور خاص غیر مسلم اعلی خاندانوں کی معیشت کو خوب سہارا دیا۔جاگیریں عطا کیا انعامات دئےے۔ڈیوڑھیاں بنوائیں اور کیا کیا۔

نظام حکومت کے تحت مسلمان قوم ہر طرح سے پست رہی کیا دولت کیا علم اور کیسی خوشحالی سب سے محروم۔ مجاوروں ‘مشائخین اور خطیب و قاضی حضرات کو انعامات اراضی کے طور پر دئےے۔وہ اب اوقاف کے گورکھ دھندے اور عدالتی مقدمات کی نذر ہوگئے۔

 مکرم جاہ نے آسٹریلیا جاکر بکریاں چرانا شروع کیں اپنی موروثی جائداد کو ٹاٹا کے حوالے کردیا۔ برسوں بعد جب وہ کسی وقت حیدر آباد لوٹے اور اپنے چو محلا محل پہنچے تو اسی ٹاٹا کے پہرہ داروں نے ان کو اپنے محل میں داخل ہونے سے روک دیا۔ کہتے ہیں مکرم جاہ نے دوسرے سرمائے کے ساتھ ساتھ جو ہیرے جواہرات آسٹریلیا کی نذر کئے وہ بین الاقوامی سائز کے ایک سومنگ پول بھر سکتے تھے۔

  اب ذراجمہوریت کے شہنشاہوں کی بات بھی ہوجائے ہمارے ملک کے جمہوری بادشاہ نے اپنی تشہیر کے لئے اربوں روپئے ٹھکانے لگادئے۔ لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کو کرنسی بدل ڈالی۔ ہر شہری کے لئے لازم کردیا کہ جب بھی وہ خرید و فروخت کرے اس کا تیسرا حصہ ٹیکس کی صورت میں حکومت کے خزانے میں جمع کرے۔

  حکومت کے کرتوتوں سے عوام کو دور رکھنے کی خاطر ‘عقیدہ و مذہب کے نام قتل و خون کا بازار گرم کیا۔ حکومت اور دولت کا نشہ ایک مخصوص اعلی طبقے میں اس قدر سرچڑھ کر بولنے لگاہے کہ اگر کوئی نچلی ذات کا شخص اپنے نمائندے کے پاس اپنی کسی مصیبت کا علاج ڈھونڈنے آتا ہے تو اس کو اور اس کے افرادِ خاندان کو خود اپنا تھوک چاٹنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ایک دیہاتی لڑکی کھانا مانگتے مانگتے بلک بلک کر مرجاتی ہے۔ راشن کی دوکان والا اس کو چاول اس لئے نہیں دیتا کہ اس کا آدھار راشن کارڈ سے ملحق نہیں ہے۔

  کاغذی شناخت کی حیثیت سے محروم ایک مجبور و بے بس ماں دوکان سے خالی ہاتھ لوٹ آتی ہے۔ اس لئے کہ اس کی کوئی انسانی شناخت نہیں ہے یہ اکیلی نہیں بھارت کی آبادی کا تیسرا حصہ بھوک مری کا شکار ہے۔

  چین میں کمیونسٹ پارٹی کا ہر پانچ سال کے بعد ہونے والی کانفرنس کے موقعہ پر وہاں کے ایک اخبار نے جمہوریت کی نئی تعبیر کی ہے۔ وہ کہتا ہے مغربی جمہوریت لوگوں کو تقسیم کرتی ہے اور ان میں فساد برپا کرتی ہے western democracy is divisive and confrontational۔ اس کی مثال امریکہ نے پیش کی ہے۔ اس نے عراق پر اس لئے حملہ کیا تھا کہ وہاں جمہوریت قائم کی جائے۔ اس جمہوریت نے اب تک لاکھوں لوگوں کو قتل کیا اور سلسلہ جاری ہے۔

جمہوریت پہلے قوم بناتی ہے اور یہ قومیں انسانوں کو تقسیم کرتی ہیں۔ چین کے اس اخبار کی بات ادھوری تھی اب پوری ہوئی ہے۔

  خلافت سے ملوکیت اور جمہوریت تک کا یہ سفر  نوعِ انسانی کے لئے کتنادرد ناک واقع ہوا ہے ….

تبصرے بند ہیں۔