خلاف ہم سے عدالت ہے کیا کیا جائے

مقصود عالم رفعت

خلاف ہم سے عدالت ہے کیا کیا جائے

یہ حکمراں کی عنایت ہے کیا کیا جائے

جہاں بکائو عدالت ہے کیا کیا جائے

وہیں ہماری سماعت ہے کیا کیا جائے

نہیں ہے واسطہ تعلیم سے جنہیں کچھ بھی

انہیں کے پاس صدارت ہے کیا کیا جائے

ہمارا حق  بھی یہاں ہم کو مل نہیں پاتا

کہ باطلوں کی قیادت ہے کیا کیا جائے

جو راہبر تھے وہی دے گئے دغا ہم کو

بپا جو ہم پہ قیامت ہے کیا کیا جائے

جنہیں چنا تھا محبت سے  رہنما اپنا

انہیں کو ہم سے عداوت ہے کیا کیا جائے

ُیہاں تو  مسئلے الجھائے جارہے ہیں مزید

عجیب گندی سیاست ہے کیا کیا جائے

خرید جاتے ہیں انصاف بکتے ہیں منصف

عجیب ملک کی حالت ہے کیا کیا جائے

ہمیں بھی منزل مقصود مل گئی ہوتی

پریشاں اپنی جماعت ہے کیا کیا جائے

امیر شہر کا ہے فیض یہ میاں رفعت

شکستہ اپنی  جو حالت ہے کیا کیا جائے

تبصرے بند ہیں۔