خلاف ہم سے عدالت ہے کیا کیا جائے
مقصود عالم رفعت
خلاف ہم سے عدالت ہے کیا کیا جائے
یہ حکمراں کی عنایت ہے کیا کیا جائے
…
جہاں بکائو عدالت ہے کیا کیا جائے
وہیں ہماری سماعت ہے کیا کیا جائے
…
نہیں ہے واسطہ تعلیم سے جنہیں کچھ بھی
انہیں کے پاس صدارت ہے کیا کیا جائے
…
ہمارا حق بھی یہاں ہم کو مل نہیں پاتا
کہ باطلوں کی قیادت ہے کیا کیا جائے
…
جو راہبر تھے وہی دے گئے دغا ہم کو
بپا جو ہم پہ قیامت ہے کیا کیا جائے
…
جنہیں چنا تھا محبت سے رہنما اپنا
انہیں کو ہم سے عداوت ہے کیا کیا جائے
…
ُیہاں تو مسئلے الجھائے جارہے ہیں مزید
عجیب گندی سیاست ہے کیا کیا جائے
…
خرید جاتے ہیں انصاف بکتے ہیں منصف
عجیب ملک کی حالت ہے کیا کیا جائے
…
ہمیں بھی منزل مقصود مل گئی ہوتی
پریشاں اپنی جماعت ہے کیا کیا جائے
…
امیر شہر کا ہے فیض یہ میاں رفعت
شکستہ اپنی جو حالت ہے کیا کیا جائے
تبصرے بند ہیں۔